’’ مذہبی جر جنڑا ‘‘ اور سوشل میڈیا

 پشتو میں ’’ جر جنڑا ‘‘ ایک ایسے خوش رنگ کھلونے کا نام ہے ، جوبچوں کو بہلانے کے کام آتا ہے ۔اس کو ہلانے سے آواز بھی نکلتی ہے۔کوئی چھوٹا بچہ رو رہا ہو، آپ اسے جر جنڑا پکڑا دیجئے تو وہ اس کے طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اپنا رونا بھول جاتا ہے۔

اسی طرح اگر بچے نے ہاتھ میں عینک، گھڑی یا اور کوئی قیمتی چیز ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اور آپ کو ڈر ہے کہ بچہ اسے پھینک نہ دے ، گرا نہ دے ، اور ساتھ یہ بھی ڈر ہے کہ بچے کے ہاتھ سے زبر دستی وہ چیز آپ لیں گے تو وہ رو پڑے گا ۔ایسی صورت میں آپ اسے ’’جر جنڑا ‘‘ پکڑادیتے ہیں ۔بچہ جرجنڑا ہاتھ میں لے کر بہل جائے گا اور اسے احساس تک نہ ہوگا کہ آپ نے اس سے قیمتی چیز لے کر کم قیمت معمولی سا ’جر جنڑا ‘ ہاتھ میں تھما دیا ہے۔

حال ہی میں کرونا کی وباء پھیلی تو میں نے سوشل میڈیا پر اس کے متعلق کئی علما ء کے خیالات سنے ،جو نہ صرف حیران کن تھے بلکہ عجیب بھی تھے۔ اسی طرح بعض مذہبی مسائل کے متعلق انٹر نٹ پر علماء کے خیالات اور فتاوے کی تلاش کی تو اکثر اختلاف نظر آیا۔ اپنے ایک امریکن پلٹ دوست ڈاکٹر محمد صدیق ،جو مذہب کا گہرا علم ،شوق اور جستجو بھی رکھتے ہیں، ان سے راہنمائی کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کو حقیقی دین سے دور رکھنے اور خرافات میں مشغول رکھنے کے لئے مذہبی جر جنڑوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کام عموما وہی لوگ کرتے ہیں جن کو عوام کی ایک کثیر تعداد اپنا دینی رہبر، مذہبی عالم یا بہت زیادہ نیک و بزرگ واقف کار مانتے ہیں۔جن کے بارے میں عام انسان بھی نیک خیالات اور عقیدت کے جذبات رکھتا ہے اور ان سے کسی قسم کے جھوٹ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح انسان اندھے اعتقاد کی بدولت ایسے نظریات، عقائد اور رسومات کے جال میں پھنس جاتا ہے جو اسے اصل دین اور دینِ حق کی ذمہ داریوں سے اسے غافل کر دیتا ہے۔

قرآن کے سورہ توبہ آیت نمبر ۴۳ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔۔(ترجمہ) ’’ ائے ایمان والو ! علماء اور راہبوں میں ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو لوگوں کا مال جھوٹ کے ذریعے کھا جاتے ہیں اور لوگوں کو اﷲ کی راہ سے روکتے ہیں ‘‘ آجکل سوشل میڈیا کا استعمال زوروں پر ہے ۔ہر مذہب، ہر طبقہ ِہر فرقہ اور ہر سماج کے لوگ سوشل میڈیا پر موجود ہیں اور ہر کوئی اپنے مسلک اور اپنے خیال کے مطابق باتیں شئیر کر تا ہے ،جو بات نیٹ پر شیئر ہو جاتی ہے وہ گردش میں آجاتی ہے اور ایک سے دوسرے کو اور دوسرے سے تیسرے کو سر کولیٹ ہوتی رہتی ہے لیکن ان منتقل باتوں میں کو ئی مستند حوالہ نہیں ہوتا بلکہ عمومی بات لکھ دی جاتی ہے مثلا یہ کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے یا حدیث میں یہ بات آئی ہے ، جس کا کوئی ریفرنس نہیں ہوتا ۔ در اصل یہ جر جڑیاں ہی ہو تی ہیں ۔جس کے ذریعے اصل راستے سے ہٹا کر بہلانے کی کو شش کی جاتی ہے۔ ان حالات میں سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی بات ہم تک پہنچیں تو ہم کیا کریں؟

یہ ایک اہم سوال ہے۔!!! سب سے پہلے ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کر لینا چاہیئے کہ صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو قرآن اور حدیث کے علاوہ کسی بات کو ماننے سے روکتا ہے ۔یعنی جو بات اﷲ اور رسول کی نہ ہو ، اسے اسلام کا نام دے کر پھیلانا اسلام کے خلاف ہے ۔ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم وہی بات مانیں گے جو کتاب اﷲ اور سنت رسول ﷺ میں ہے

فی زمانہ چونکہ مذہبی جر جنڑوں کا استعمال بڑھ رہا ہے اس لئے اگر کسی کو سوشل میڈیا پر یا کسی اور جگہ پر اسلام سے منسوب کوئی مشکوک خبر یا بات ملے تو کہنے والے سے دلیل و برہان ضرور طلب کریں ۔بغیر تحقیق اور دلیل کے کسی بات کو آگے پھیلانے سے گریز کرنا چا یئے۔

دین کا حقیقی مفہوم انسانوں کی انفرادی و اجتماعی دونوں زندگی کی پہلوؤں میں اس طرح بہتری لانا ہے کہ اخروی نجات بھی حاصل ہو جائے اور اس فانی دنیا میں بھی ظلم و فساد کا سدِ باب ہو اور لوگ سکون و سلامتی کی زندگی بسر کر سکیں۔ایسی تمام توجیہات جو خو د غرضی پر مبنی ہوں، دین کے اصل روح کے خلاف ہوں ، بغیر اﷲ اور رسولﷺ کے اطاعت اور فر مابرداری اختیار کئے بغیر ، کسی مخصوص عمل، رسم و رواج کی انجام دہی، یا کسی مخصوص شخص کی خوشامد اور چاپلوسی اختیار کر کے ،جنت انعام میں مل جانے کا نظریہ یا عقیدہ ہو تو وہ ایک ایسا مذہبی جر جنڑا ہوگا جو مختلف زمانوں میں بہت سی قوموں کو بہلانے کے لئے استعمال ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔۔۔۔
 

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315619 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More