آیت نمبر 1 تا 10 میں معراج شریف کا صریحا ذکر کیا گیا ہے
اور یہ واقعہ عالم بیداری میں پیش آیا۔آگے بنی اسرائیل کا ذکر کیا گیا ہے
کہ ان کو کتاب عطا کی گئی اور بتا دیا گیا کہ اس پر عمل کرنے کے بجائے تم
سرکشی کرو گے، تو انہوں نے حضرت زکریا علیہ السلام کو پھر حضرت یحی علیہ
السلام کو قتل کیا اور ان کی سرکشی کے باعث دوسری قوموں کو ان پر مسلط
کردیا گیا۔
آیت نمبر 11 تا 22 میں انسان کے جلد باز ہونے اور رات اور دن کو قدرت کے
نشانات میں سے ہونے کا ذکر ہے، آگے بتایا گیا ہے کہ ہر کسی کا نامہء اعمال
اس کے گلے میں لٹکا دیا گیا ہے۔ جو اسے قیامت مین دکھایا جائے گا اور کہا
جائے گا کہ آج اپنا احتساب کرنے کے لیے تم خود ہی کافی ہو۔ آگے بتایا کہ
طالب دنیا کو صرف دنیا ہی ملا کرتی ہے اور طالب آخرت کو آخرت اور یہی سچی
کامیابی ہے ۔
آیت نمبر 23 تا 30 میں والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا ذکر کیا گیا
ہے۔ پھر آگے رشتے داروں ، مسکینوں، اور مسافروں کے حقوق کی پاسداری کا حکم
دیا اور ساتھ ساتھ اسراف و تبذیر سے بچنے کا حکم مذکور ہے ۔۔
آیت نمبر 31 تا 39 میں احکام کا بیان ہے کہ افلاس کے خوف سے اولاد کو قتل
نہ کرو، زنا کے قریب نہ جاؤ، کسی بے گناہ کو قتل نہ کرو، کوئی وارث قصاص سے
زیادہ بدلہ نہ لے، یتیموں کا مال ناحق نہ کھاؤ، وعدے پورے کرو ، وعدوں کے
بارے میں تم سے باز پرس ہوگی، ناپ تول میں کمی نہ کرو، لوگوں کے پوشیدہ
احوال کی کھوج میں نہ پڑو، تکبر سے نہ چلو، شرک کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔
آیت نمبر 40 تا 60 میں مشرکین کا بتایا گیا کہ وہ خدا کی طرف بیٹیوں کی
نسبت کرتے ہیں۔۔ آگے بیان کیا گیا کہ کائنات کی ہر شئے اللہ کی تسبیح میں
مصروف ہے۔
آیت نمبر 61 تا 70 میں حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے والا واقعہ مذکور
ہے آگے بتایا گیا ہے کہ اللہ نے ہی بنی آدم کو عزت بخشی ہے وہی بحر وبر میں
تمہیں سواریاں مہیا کرتا ہے، اسی نے تمہیں پاکیزہ رزق دیا، اور بہت سوں پر
اس کو فضیلت بخشی۔
آیت نمبر 71 تا 72 میں روز آخرت کے کچھ مناظر کا ذکر کیا گیا ہے۔
آیت نمبر 73 تا 89 میں نماز تہجد کی ترغیب اور مقام محمود عطا کیے جانے کا
بیان ہے ۔۔آگے بیان فرمایا کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، آگے قرآن کریم کے
شفاء اور رحمت ہونے کا بیان ہے۔
آیت نمبر 90 تا 100 میں بتایا گیا کہ لوگ روح کے حوالے سے پوچھتے ہیں، کہہ
دیجیے روح اللہ کا امر ہے۔ آگے کافروں کے بے جا مطالبات اور اعتراضات کا
ذکر کیا گیا ہے۔
آیت نمبر 101 تا 105 میں حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ مذکور
ہے ۔
آیت نمبر 106 تا 111 سورة کے آخر میں بتایا گیا اللہ شرک اور اولاد سے پاک
ہے اور وہ اسماءالحسنی سے متصف ہے۔۔
تعداد آیات، رکوع، حروف، کلمات:
12 رکوع اور 111 آیتیں ، حروف 1559 اور کلمات 6480.
فضائل سورة الاسراء:
حضرت عبداللّٰه بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں
’’سورۂ بنی اسرائیل، سورۂ کہف اور سورۂ مریم فصاحت و بلاغت میں انتہائی
کمال کو پہنچی ہوئی ہیں اور ایک عرصہ ہوا کہ میں نے انہیں زبانی یاد کر لیا
تھا۔ ( بخاری شریف)
نام مع وجہ تسمیہ:
۱۔سورة الاِسراء:
اسراء کا معنی ہے رات کوجانا، اور اس سورت کی پہلی آیت میں تاجدارِ رسالت
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رات کے مختصر حصے
میں مکۂ مکرمہ سے بیتُ المقدس جانے کاذکر ہے اس مناسبت سے اسے’’ سورۂ
اِسراء ‘‘ کہتے ہیں ۔
(2)سبحان:
سبحان کا معنی ہے پاک ہونا، اور اس سورت کی ابتداء میں لفظ ’’سبحان ‘‘ آیا
ہے اس مناسبت سے اسے’’ سبحان ‘‘کہتے ہیں ۔
(3)…بنی اسرائیل:
اسرائیل کا معنی ہے اللّٰه تعالیٰ کا بندہ، یہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا لقب ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام
کی اولاد کو ’’بنی اسرائیل ‘‘کہتے ہیں ، اس سورت میں بنی اسرائیل کا تفصیلی
احوال درج ہے اسی مناسبت سے اسے’’بنی اسرائیل‘‘ کہتے ہیں اور یہی اس کا
مشہور نام ہے۔
|