ھر عالم ،فاضل اور مفکر توبہ کی ترغیب دیتا ہے اور اسی سے
رجوع الی اللہ کی دعوت دیتا ہے۔ بلکہ مدبر یہ بھی کہتا ہے کہ بد نصیب ھے وہ
شخص جو روز توبہ کا دروازہ کھٹکٹائے بغیر سو جاتا ہے،یہ سب کو معلوم ہے کہ
انسان خطا کا پتلا ھے روز غلطیاں کرتا ہے اور اپنے مالک حقیقی کے سامنے
ھاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے، سجدے میں گر جاتا ہے اور اس سے معافی
مانگتا ہے انبیاء کرام اور ھمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عبادت کے
لئے کھڑے ھوتے تو قیام، رکوع اور سجود میں امت کی خطاؤں کی معافی مانگتے
اور صحابہ ،ازواج مطہرات پوچھتیں کہ حضور آپ کیوں اتنی مشقت فرماتے ہیں تو
آپ کا جواب ھوتا کہ کیا ھم میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟پھر میری
اور آپ کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے،
لیکن سب سے پہلے توبہ کی فزیکل فارم کیا ھوتی ھے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے،
توبہ اس عمل کو کہتے ہیں جو کسی غلطی، گناہ کی انجام دہی کے بعد دوڑ کر
اپنے رب کے حضور حاضر ھو کر عاجزی اور انکساری سے معافی مانگنے اور پھر
ایسی غلطی اور گناہ دوبارہ نہ کرنے کا عہد ھے پھر معافی بھی ملتی ہے اور اس
عہد کی پاسداری کی کوشش میں بندے کی محنت اور وفا اللہ کا محبوب بنا دیتی
ہے، مگر صرف توبہ کی امید سے جان بوجھ کر گناہ کرتے رہنا ، بے وفائی ھے اس
لئے شاعر نے خوبصورت انداز میں اس کی عکاسی کی تھی کہ"
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے۔
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو۔
وفاداری اور وہ بھی اپنے رب سے ایک بے مثال کام ھے، مثلاً دیکھیں شراب کی
ممانعت کا حکم آیا تو ھاتھوں میں اٹھائے ھوئے پیالے ٹوٹ گئے، انسان اس کے
باوجود غلطیوں کا خوگر ھے مگر معافی اور توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے چونکہ
معافی مانگنا اور مانگنے والے کو عطا کرنا رب کا پسندیدہ عمل ہے۔سابق
وزیراعظم پاکستان ظفر اللہ خان جمالی سادہ سے بندے ھیں، قومی سیرت کانفرنس
ھو رھی تھی تو انہوں نے کہا کہ میں زیادہ کچھ نہیں جانتا میرے بھائی لیکن
ایک نصیحت کرتا ھوں کہ کبھی کسی کی جان نہیں لینا کیونکہ زندگی دینے اور
لینے کا اختیار صرف اللہ کو ھے آپ ایسا کریں گے تو یہ بہت بڑا ظلم ھوگا،
اور اللہ کے اختیار میں داخل اندازی ھے جو اسے پسند نہیں، دوسرا کسی کی عزت
نہیں چھینانا کیوں کہ عزت و آبرو کا احترام اور جان کی حرمت کعبے سے بھی
زیادہ رکھی گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطبہ میں بڑی وضاحت کے
ساتھ انسانی جان اور عزت کی حفاظت کا درس دیا۔پھر جمالی صاحب گویا ھوئے کہ
کسی کا رزق نہیں چھینانا کیوں کہ رزاق اللہ کی ذاتِ مبارکہ ھے۔یہ وہ بڑے
گناہ ھیں جن کی معافی کا پیمانہ براہ راست انسانیت کے ساتھ جڑا ھے۔اللہ
تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم کہا ھے اس کی ذاتِ مبارکہ میں کسی کو شریک کرنا
بھی بڑا گناہ ہے تاھم شرک چھوڑ کر اللہ کی واحدانیت کا دل و زبان سے اقرار
کرنا معافی کا باعث ہے، والدین کے ساتھ بدسلوکی، حسد بغض، کینہ، عہد کا
توڑنا ، سرعام شعائر اسلام کا مذاق اڑانا، جھگڑا، فساد کا باعث بننا ، ناپ
تول میں کمی، سود لینا، اور حقوق انسانی کو پامال کرنا بھی بڑے گناہ ھیں ان
سے توبہ کر کے چھوڑ دینا نجات کا باعث بن جاتا ہے مگر جان، عزت اور رزق
چھیننے جیسے گناہ اسی تناظر میں دیکھے جائیں گے۔اللہ اپنے فضل وکرم کی صفت
کو ھمیشہ ھاوی رکھتا ہے کیونکہ انسان اس کی بہترین تخلیق اور اس سے وہ محبت
کرتا ھے اور محبت کا تقاضا ہے کہ رحمان کا مطیع رہنا ہے ، شیطان کا نہیں،
پھر تو دوستی، محبت نہ ھوئی، انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا نفس ھے جو
خواھشات نفسانی، اور حرص و طمع میں گھیر کر انسان کو ظاہری و باطنی حرام
کاری پر مجبور کرتا ہے انسان کی سب سے بڑی جنگ، آزمائش اور امتحان اس کا
نفس ھے جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر شیطان بیٹھا ہے اور سر سبز و شاداب خواب
دیکھا کہ انسان کی باطنی آنکھ کی بینائی چھین لیتا ہے اور جب آنکھ کھلتی ہے
تو بہت دیر ہو چکی ھوتی ھے مگر اے بندے پھر بھی اگر ھدایت تم تک پہنچ گئی
ھے تو لوٹ آ میں معاف کرنے والا ھوں، رب کی اس پکار کو سننے والے سر جھکا
دیتے ہیں اور سرکش اور اکڑ جاتے ہیں جن کے لیے دنیا اور آخرت میں رسوائی کے
سوا کچھ نہیں! اللہ نہ کرے کہ ھم رسوا ھونے والوں میں سے ھوں بس اپنے رب سے
عہد باندھنے اور اس کی استقامت کے لیے کوشاں رہنے کا نام توبہ کی اصل ھے اس
لئے پہلے توبہ اور پھر وفاداری۔۔۔سفر کٹھن لیکن منزل عظیم ھے کیونکہ کہ رب
العالمین بہت عظیم اور اس کی نادر و بے مثال تخلیق انسان بھی عظیم ھے!!!
|