یہ اُن بچوں کا ذکر نہیں ہے، جن کو وفاقی حکومت نے
صوبائی حکومتوں کے مشورے سے اگلی کلاس میں پرموٹ کر دیا ہے۔ یہ وہ بچے ہیں
جو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن سے الحاق شدہ سکولوں میں زیر تعلیم ہیں، جسے
اختصار کے ساتھ ’’پیف‘‘ (PEF) کہا جاتا ہے۔ پیف کے تیس لاکھ بچوں کا مستقبل
داؤ پر لگایا جارہا ہے۔ یہ حکومت کا ایک خود مختار ادارہ ہے، جو معرضِ وجود
میں تو 1992ء میں آیا جب میاں نواز شریف پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے اور پنجاب
میں انہوں نے اپنے ایک مخلص ساتھی چوہدری غلام حیدر وائیں کو وزیراعلیٰ
بنوایا۔ یہ ادارہ نجی سکول بنانے کے لئے فنڈز مہیا کرنے کے لئے بنایا گیا
تھا، تاہم کامیابی نہ ہونے پر غیر فعال ہوگیا۔ اس کو دوبارہ زندگی چوہدری
پرویز الہٰی کے دور میں اس وقت ملی جب 2006ء میں ایسے نجی سکولوں کو اپنے
ساتھ الحاق کی آفر کی گئی جن کی فیس بہت کم تھی۔ ڈاکٹر اﷲ بخش ملک اس کے
پہلے ایم ڈی مقرر ہوئے اور شاہد حفیظ کاردار پہلے چیئرمین۔ سکول کا وزٹ
ہوتا، بچوں کا امتحان لیا جاتا ، کامیاب ہونے والوں کو ’’گود‘‘ لے لیا جاتا۔
پھر کیا تھا، فیز پر فیز آنے لگے، پہلے فیز میں محض دس، دوسرے میں 54اور
پھر سیکڑوں سے بات ہزاروں تک پہنچ گئی۔ ڈاکٹر اﷲ بخش ملک نے مانیٹرنگ کا
ایسا نظام قائم کیا کہ مانیٹر سکول سے پانی کا گلاس بھی نہیں پئے گا۔ ان
سکولوں کا سال میں ایک مرتبہ امتحان ہوتا ہے، مانیٹرنگ کا بہترین بندوبست
بھی موجود ہے۔2019ء میں پنجاب کے چار تعلیمی بورڈز میں میٹرک کے امتحان میں
پیف سکولوں نے ٹاپ کیا ہے۔
میاں شہباز شریف کے دور میں بھی نہ صرف یہ سلسلہ جاری رہا بلکہ چار ہزار سے
زائد سرکاری پرائمری سکول جو ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکے تھے انہیں پیف کے
حوالے کر دیا گیا، جہاں تیس طلبا اور دو استاد تھے، وہاں اب دو سو سے زائد
طلبا موجود ہیں۔ یوں ان سکولوں میں بچوں کی تعداد بھی چار لاکھ سے زائد ہے۔
تاہم سابقہ حکومت نے ہی اِ ن سرکاری سکولوں کے لئے ’پیما‘ کے نام سے الگ
ادارہ بنا دیا تھا۔ اس وقت پیف کے زیر اہتمام بارہ ہزار سے زائد سکول ہیں
اور پیما کے چار ہزار سے اوپر۔ چھ برس قبل پیف سکولوں کی فیس ایک سو روپے
اضافہ کے ساتھ ساڑھے پانچ سو روپے ہوئی تھی، ابھی تک یہی فیس چلی آرہی ہے۔
طویل تعارفی تمہید کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اپنے ہاں بے شمار لوگوں کو
پیف کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں، مگر تنقید اور تبصرے میں وہ
لوگ خود کفیل ہیں۔موجودہ حکومت جب سے آئی ہے، تین مواقع ایسے آئے ہیں کہ
پیف سکولوں کو ملنے والی رقم کو تین تین ماہ تک مختلف حیلے بہانوں سے موخر
کیا گیا۔ حتیٰ کہ سالِ رواں میں بھی تین ماہ سے سکولوں کو پے منٹ نہیں ملی۔
اس التوا کے پیچھے بظاہر تکنیکی وجوہات کم اور ذاتی وجوہات زیادہ دکھائی
دیتی ہیں۔ پنجاب کے وزیرتعلیم ڈاکٹر مراد راس نے ہر قیمت پر تہیہ کیا ہوا
ہے کہ اِن سکولوں کو پریشان اور ناکام کر کے ہی دم لینا ہے، چونکہ یہ ادارہ
اسمبلی سے منظور شدہ ہے، اس لئے وہ اپنے کسی حکم یا کارروائی سے اسے ختم
نہیں کر سکتے۔ گزشتہ اکتوبر نومبر میں تمام سکولوں کے تمام طلبا کی مکمل
ویری فیکیشن ہوئی تھی۔ بچوں کی تعداد کے مطابق پے منٹ آتی رہی، مگر فروری
میں آنے والی ادائیگی میں ظالمانہ کٹوتیاں لگا دی گئیں، کسی کو کوئی خبر
نہیں کہ اس کی پے منٹ میں سے نصف یا کم وبیش کس مد میں کاٹ لی گئی وہ بھی
گزشتہ پانچ ماہ کی۔ اب مارچ سے مئی تک پے منٹ نہیں آئی، وزیر موصوف نے قوم
کو اطلاع دی ہے کہ ’’۔۔۔پیف میں بڑے گھپلے ہوئے ہیں، میں ٹیکسوں کا ایک
روپیہ اِدھر سے اُدھر نہیں ہونے دوں گا، پونے تین لاکھ کے قریب بچے جعلی
ہیں، سب کا حساب اورا حتساب ہوگا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ‘‘۔ غیر حاضر یا غیر
تصدیق شدہ بچوں کو بھی ’’فیک‘‘ قرار دے کر ادائیگیاں روک دی گئی ہیں۔
جہاں چھ برس سے ساڑھے پانچ سو روپے فیس ہو، وہاں ’’لوٹ مار‘‘ کا کتنا تصور
ہو سکتا ہے؟ اتنی کم فیس والے سکول بھی وزیر موصوف کے بقول ’مافیا‘ ہیں۔ دو
برس سے ان کے اضافی داخلے بند ہیں۔ مختلف طریقوں سے دھمکیاں جاری ہیں۔
سرکاری سکول کے ایک بچے پر دوہزار روپے یا کم وبیش خرچ آتا ہے، سرکاری سکول
کے ایک بچے کے خرچ پر پیف میں تین بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، وہ بھی نسبتاً
معیاری تعلیم۔ سوشل میڈیا پر پیف کو ختم کرکے یہ فنڈ سرکاری سکولوں پر
لگانے کے مشورے دیئے جارہے ہیں، جبکہ سرکاری سکول سفید ہاتھی کا روپ دھار
چکے ہیں۔ پیف سکولوں پر اساتذہ کی کم تنخواہ پر بھی تنقید کی جاتی ہے، پیف
کی طرف سے کم از کم نصف پے منٹ سٹاف پر لگانے کی ہدایت ہے، جس پر لازمی عمل
کیا جاتا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ پیف سکول اساتذہ کے لئے پے منٹ کاالگ
سے بندوبست کر ے، تاکہ ان سکولوں پر لگنے والا استحصال کا الزام بھی ختم ہو
سکے۔ اس وقت پیف سکول مالکان سخت دباؤ میں ہیں، ٹیچرز کی پے منٹ نہیں ہوئی،
مالکان مکان کے کرائے نہیں ملے اور سکولوں والوں کے اپنے معاملات بھی الجھے
ہوئے ہیں۔ ایسے میں نوبت یہاں تک آئی ہے کہ رمضان المبارک میں سخت گرمی کے
باوجود یہ سکولوں والے اپنے طلبا، اساتذہ اور اپنی بقا کی خاطر پنجاب
اسمبلی کے سامنے احتجاج کرنے پر مجبور ہیں،سپیکر چوہدری پرویز الہٰی نے
کمیٹی بنائی تھی، جس میں وزیر موصوف نے آنا مناسب نہیں جانا، پیف سکول
مالکان کا مطالبہ ہے کہ ان کی تین ماہ کی ادائیگی فی الفور کی جائے،
کٹوتیاں ہر قیمت پر واپس کی جائیں، پے منٹ میں اضافہ کیا جائے، اور دیگر
مسائل کو سکول کھلنے تک ملتوی کیا جائے۔ وزیر تعلیم صاحب ! آپ کے سرکاری
سکولوں میں مزید تیس لاکھ بچوں کی گنجائش نہیں ہے، ویسے بھی عوام کو آپ کے
سکولوں پر اعتماد نہیں۔ یہ فریاد کون سنے گا، وزیراعلیٰ پنجاب؟ سپیکر
چوہدری پرویز الہٰی؟ان تیس لاکھ بچوں کا وارث بننے کے لئے کوئی تیار ہے؟
|