کورونا وائرس کی وباء سے ہر شعبہ زندگی بری طرح متاثر
ہو ا اور ہو رہا ہے ۔ شعبہ تعلیم کی بات کی جائے تو وہ بھی اس وقت نہایت
سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ سب سے پہلے ان مسائل کو تعلیمی مدارج کی روشنی
میں دیکھتے ہیں اور پھر اپنے کالم کی جانب بڑھتے ہیں: (۱) پہلی سے آٹھویں
جماعت تک طالب علم پندرہ جولائی تک گھروں میں رہیں گے، یعنی نیا تعلیمی سال
تعلیمی ادارے کھل جانے کے بعد شروع ہوگا۔ اگرچہ ملک بھر میں ان جماعتوں کے
امتحانات ہوچکے تھے یا ہو رہے تھے یا پھر امتحانات کی تیاریاں جاری تھیں
لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے سارا سلسلہ معطل ہوگیا۔ سکولوں نے اپنے تمام طلباء
کو اگلی جماعتوں میں پروموٹ کیا ،اس عرصہ کو موسم گرما کی تعطیلات تصور
کرکے چھٹیوں کا کام ترتیب دیا اور بعض سکولوں نے سوشل میڈیا کو بطور تعلیم
استعمال کر کے لیکچر اَپ لوڈ کر نے کا مفید سلسلہ بھی شروع کیا ۔ یہ اس
لہٰذا سے بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ طالب علم گھروں میں بیٹھ کر تعلیمی
سرگرمیوں میں مصروف رہیں۔(۲) سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری جماعت کے طالب علم
جن کا تعلیمی سال مکمل ہوچکا تھا اور امتحانات ہونے جارہے تھے۔ خیال رہے ان
جماعتوں کے امتحانات ثانوی اور اعلیٰ تعلیمی بورڈ لیتی ہے اور اس وقت چالیس
لاکھ طالب علم ملک بھر کے بورڈوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ
بورڈوں نے اپنے امتحانات ملتوی کیے اور اَب ان کی منسوخی کا اعلان کرنے کے
ساتھ نویں ، دسویں ، گیارہویں اور بارہویں جماعت کے طلباء کے لئے پروموشن
کا لائحہ عمل بھی طے کردیا ہے۔(۳) یونیورسٹی اور کالجوں کے وہ طالب علم جو
کہ بی ایس ، ایم ایس یا ایم فل ، پی ایچ ڈی ، بی اے یا بی ایس سی اور ایم
اے یا ایم ایس سی میں زیرتعلیم ہیں جن کے سمسٹر یا سال ضائع ہونے کا خدشہ
ہے۔ ایچ ای سی کی گزشتہ دنوں وائس چانسلرز میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ
ان طلباء کے لئے جامعات یکم جون سے آن لائن کلاسوں کا انتظام کریں اور آن
لائن امتحانات کے ذریعے اگلی جماعتوں میں ترقی دی جائے۔ یہاں یہ بات قابل
غور ہے کہ بنا امتحان کسی کو اگلی جماعت میں ترقی نہیں دی جائے گی۔ہمارے
کالم کا عنوان اسی سے متعلق ہے۔سب پہلے دو واقعات بتانا ضروری سمجھتا ہوں
جن سے ہمیں ہمارے ہاں ٹیکنالوجی اور آن لائن کلاسوں کی صورت حال کو سمجھنا
آسان ہو جائے گا۔ اول ، یہ سنہ 2002 کی بات ہے جب ایک ضلعی انتظامیہ کا
سربراہ کمپیوٹر سیکھنے کے لئے ایک ادارے میں گیا۔یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا
جب ہمارے پڑوسی ملک میں پرائمری ایجوکیشن میں جو کمپیوٹر پروگرام سکھائے
جاتے تھے وہ ہمارے ہاں گریجویٹ سطح پر پڑھائے جارہے تھے۔اُس ضلعی انتظامیہ
کے سربراہ نے کمپیوٹر سیکھنے کی وجہ یہ بتائی کہ وہ ایک ٹریننگ کے سلسلے
میں ملک سے باہر گئے تھے۔ جہاں ٹریننگ کے دوران اُنہیں کام کرنے کے لئے نوٹ
بُک کمپیوٹر دیئے گئے۔ کمپیوٹر کی الف ب تو دور کی بات ، انہیں آن کرنا تک
نہیں آتا تھا۔ جب ٹریننگ میں بریک ہو تی یا دن کااختتام ہو جاتا تواس کے
لئے فلپائنی دوست کمپیوٹر پر ڈاکومنٹ سیٹ کر دیتا تھا۔اُن کا کہنا تھا کہ
وہ دن بڑی شرمندگی سے گزارے ، اُس کے بعد اُس نے تہیہ کیا کہ کمپیوٹر کا
استعمال لازمی سیکھوں گا۔ دوم ، یہ سنہ 2011 کی بات ہے کہ پاکستان کی ایک
یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی ( آن لائن ) پروگرام تجرباتی بنیادپر شروع کیا۔ اس
پروگرام کا مقصد یہ تھا کہ طالب علم گھر بیٹھے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ اس
تجربے کے لئے انہوں نے کمپیوٹر سائنس مضمون کا انتخاب کیا کیوں کہ اس کے
طالب علم کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی زیادہ سدھ بدھ رکھتے ہیں۔
داخلے کے لئے ٹیسٹ اور انٹرویو ہوئے جن میں پانچ طالب علم کامیاب قرار پائے
جن کا تعلق اسلام آباد ، صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختون خوا سے
تھا۔یونیورسٹی نے تدریسی عملہ بیرون ِ ممالک سے ہائیر کیالہٰذا کلاسوں کا
ٹائم ٹیبل مختلف ممالک کے ٹائم زون میں فرق کی وجہ سے جلد تیار نہ ہوسکا۔
آخر کار شام سات بجے کاوقت اساتذہ اور طالب علموں کی باہمی مشاورت سے طے پا
گیا۔اگلا مسئلہ آن لائن کلاسوں کے لئے ویڈیو کانفرسنگ کی سہولت کا تھا۔
طالب علموں سے کہا گیا کہ وہ اپنی قریبی جامعات سے رابطہ کریں اور اس سہولت
کے استعمال کے لئے درخواست دیں۔ طالب علموں نے اپنے تئیں کوششیں کیں لیکن
جامعات نے کورا جواب دیا۔ اُنہوں نے یہ پیش کش بھی سامنے رکھی کہ وہ اپنی
فیکلٹی اور طالب علموں کو ان کورسوں میں شریک کریں تاکہ وہ باہر دنیا کے
اساتذہ کی صلاحیتوں سے مستفید ہوسکیں لیکن یہ پیش کش بھی کارگر ثابت نہ
ہوئی۔ مایوسی کے اس عالم میں تدریس کے لئے روایتی میسنجر کو استعمال کرنے
کا فیصلہ کیا گیا جو آڈیو وڈیو سپورٹ کرتا ہو ۔کلاسوں کا سلسلہ نہایت
کسمپرسی کی حالت میں چل پڑا ۔۔۔ یونیورسٹی کا یہ تجربہ ناکامی سے دوچار
ہوااور انہوں نے دوبارہ آن لائن داخلے نہیں کروائے۔ یاد رہے کہ اکیسویں صدی
میں قدم رکھتے ہی ہم نے سائنس و ٹیکنالوجی پر زیادہ پیسہ خرچ کیا۔ صوبائی
سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ قائم کئے ، نئی جامعات بنائیں اور
سکولوں و کالجوں میں آئی ٹی بلاک و لیبارٹریاں تعمیر کیں لیکن آج ان سب کی
کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایساطریقہ کار نہیں ہے کہ گھر
بیٹھے طالب علموں کو آن لائن پڑھایا جاسکے۔
یہ دونوں واقعات پچھلی دو دہائیوں میں ہمارے سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی
کے تعلیم میں استعمال میں عدم دل چسپی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ ہم نے اس
عرصہ میں سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹیاں بنائیں ، اُن کو جدید کمپیوٹروں
اور لیپ ٹاپ لیبارٹریوں سے آراستہ کیا ، ڈیجیٹل لائبریریاں فراہم کیں ،
ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ اور نیٹ ورک کی سہولیات دیں ، باہر دنیا کیجامعات کے
ساتھ ایم اویو ز سائن کروائے اور وڈیو لنک کے ذریعے ان کا رابطہ بنایا لیکن
یہ تمام سہولیات مہیا کرنے کے باوجود ہم نے اپنے کلاس روم لیکچر رریکارڈ
نہیں کیے، مؤثر لرننگ مینجمنٹ سسٹم (LMS ) پورٹل نہیں بنائے ، مختلف
موضوعات پر سیمینار اور کانفرنسوں کو ڈیجیٹل فارمیٹ میں قید نہیں کیااور
کلاس روم مباحثوں کو محفوظ نہیں بنایا، یعنی ہم نے ای لرننگ پر توجہ ہی
نہیں دی۔ اوراَب اس مشکل گھڑی میں ہم آن لائن کلاسوں اور امتحانات کے لئے
منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ چلیں ، انہی حالات میں ہم ایچ ای سی کی ہدایات کے
مطابق یکم جون سے آن لائن کلاسوں کا آغاز کرتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں پانچ
چیزوں کی ضرورت پڑے گی ۔ (۱) استاد ، جو کہ ہمارے پاس موجود ہیں ۔ (۲) طالب
علم ، یہ بھی موجود ہیں اور یہ تمام جتن انہی کے لئے کیے جارہے ہیں۔ (۳)
نصاب ، یہ بھی موجود ہے ۔ (۴) طریقہ ہائے تدریس اور تدریسی مہارتیں، یہ
ہمارے اساتذہ کے لئے ایک نیا چیلنج ہوگا کیوں کہ اَب روایتی کمرہ ٔ جماعت
نہیں ہوگی بلکہ آن لائن طریقہ ہائے تدریس اور مہارتوں کے سہارے طالب علموں
کو پڑھانا ہوگا پس اس کے لئے ایچ ای سی کی جانب سے تمام جامعات کے اساتذہ
کے لئے تربیتی ورکشاپس کا انتظام کیا جائے کیوں کہ روایتی طریقوں سے پڑھانا
سود مند ثابت نہیں ہوگا۔ ( ۵) کمیونیکشن سافٹ وئیر اور انٹرنیٹ کی سہولت،
موبائل نیٹ ورک کی آمد سے پی ٹی سی ایل کی سروس دیہات میں تقریباً نوّے
فیصد ختم ہو چکی ہے اور جب کہ شہری علاقوں میں جزوی طور پر موجود ہے۔ ہمارے
پچاس فیصد سے زائد طالب علموں کا تعلق دیہات سے ہو گاجہاں موبائل سگنلز
اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ کال پہ بات کرنا دشوار ہوتا ہے تو وہاں سے طالب علم
آن لائن کلاسوں میں کیسے شرکت کرسکیں گے؟ اس کے علاوہ کمیونیکشن سافٹ وئیر
کو انسٹال کرنے کے لئے کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ یا اینڈرائڈفون اوران تمام آلات
کے لئے الیکٹرک سٹی کی ضرورت پڑے گی۔ اُمید ہے کہ ایچ ای سی اور جامعات ان
تمام باتوں کو مدنظر رکھ آن لائن کلاسوں کا اجراء کریں گی تاکہ تمام طلباء
یکساں طور پر مستفید ہوں اور اُن کا تعلیمی سمسٹر یا سال ضائع ہونے سے
بچایا جاسکے۔
|