ارتغرل غازی ایک ترکش سیریز ہے جسے پاکستان ٹیلی ویژن کے
تحت پاکستان میں نشرکیا جا رہا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں اس سے قبل
کوئی ترکش سیریز نہیں دکھائی گئی بلکہ پچھلے کئی عرصے سے متعدد نجّی چینلز
پہ ترکی کے کئی ڈرامے نشر ہوئے اور مقبول ہوئے اور عوام میں ان ڈراموں کی
پسندیدگی دیکھنے کو ملی اور جسے پسند نہیں آئے تو اس کی جانب سے کوئی تنقید
بھی منظرِ عام پہ نہیں آئی لیکن ارتغرل غازی وہ واحد ڈرامہ ہے ترکی کا جس
نے نشر ہوتے ہی کامیابی کے جھنڈے گھاڑنے شروع کر دیے عوام میں بہت جلد
مقبول ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ آج کل کے باقی ڈراموں کی طرح نہیں بلکہ ایسی
حقیقت پہ مبنی داستان ہے جس کا لبِّ لباب دینِ اسلام کی سر بلندی ہے ،
ارتغرل جیسے بہادر جنگجو کی کہانی جس نے حق کی راہ کو ہی اپنی منزل بنایا
اور کسی تخت و تاج کی خواہش کے بغیر جانے کتنے ہی کافر ، ماکر ، کاذب
باسشاہ زِیر کیے اور اسلام کا پرچم بلند کیا ۔۔
اس سیریز کو پی ٹی وی پہ دکھانے کی فیصلہ وزیر آعظم عمران خان نے ترکی کے
وزیر اعظم رجب طیب اردوگان سے مل کر کیا ، یہ ڈرامہ نشر ہونے سے پہلے نیوز
چینلز کی چہماگوئیوں کی زینت بنا رہا کہ کپتان اس کو کیوں دکھانا چاہتے ہیں
کیا یہ صحیح فیصلہ ہے وغیرہ وغیرہ ، خیر یہ ڈرامہ پہلی رمضان المبارک سے
رات آٹھ بجے دکھایا جانے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ڈرامہ عوام میں خاص
طور پہ نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہوگیا عوام کی مر زور فرمائش پہ یوٹیوب
پہ اس کا چینل بنا دیا گیا جس کے ویوز مٰیں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے ،
یعنی یہ بات تو صاف ظاہر ہوگئی کہ ہمارے نوجوان ایک ایسے مواد کو دیکھنا
پسند کر رہے ہیں جہاں دیں کی سر بلنی کا درس مل رہا ہے ۔۔
لیکن جہاں اس ڈرامے کی مقبولیت بہت ذیادہ ہے وہاں کچھ لوگ ایسے بھی موجود
ہیں جو اس ڈرامے کو پاکستان میں نشر کرنے کے سخت مخالف ہیں ، وہ نامور طبقہ
جو کئی برس سے پاکستان فلم انڈسٹری پہ راج کر رہا ہے اور ان کے مواد میں ہر
وہ بیہودگی دیکھنے کو ملی ہے جو اس معاشرے میں نہیں دکھائی جانی چاہیے مگر
دکھائی گئی آج وہ لوگ عمران خان کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہ ہمیں اپنے مواد کو فروغ دینا چاہیے ، تو بھئی یہ بھی بتا دیں کہ آپ کا
کونسا مواد عوام کو دکھائیں جس میں مختصر کپڑے پہںے ہیں ، یا جس میں بارش
میں ہیرو ہیروئن کو بھیگتا دکھایا ہے یا جس میں اولاد کو ماں باپ سے نا
فرمانی سکھائی جا رہی ہے کہ پسند شادی کی لیے ماں باپ کو چھوڑ کر چلے جاؤ
یا انہیں ہی گھر سے نکال دو ، بیوی شوہر اور شوہر بیوی کو دھوکہ دے اور
طلاق کے بعد ساتھ رہنے کے خواہش مند ہوں ، کیا ہمیں یہ مواد دکھانا چاہیے ،
آواز اٹھانی تھی تو تب کیوں نا اٹھائی جب ترکی کے ڈرامے نجّی ٹی وی پہ نشر
ہوتے تھے ۔ آج پاکستان کے آرٹسٹ طبقے کو فکر لا حق ہے کہ اگر ترکی کے
اداکار پاکستانی عوام میں اتنے مقبول ہو گئے تو ہمارے ڈرامے کون دیکھے گا ،
تو جناب یہ خیال تب کیوں نہیں آتا جب ہولی ووڈ اور بولی ووڈ کی فلمیں
پاکستانی سنیما گھرروں میں لگتی تھی تب کیوں خاموش رہے جب پاکستان کے فنکار
بھارت میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے تب کیوں نہیں کہا کہ ہمارے آرٹسٹ ہیں
ہمارے ہی ملک میں کام کریں تب تو انہیں لیجنڈز کا نام دیا گیا اور کہا گیا
کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ، آج جب ایک اسلامی تاریخ پہ مبنی کہانی اور
کردار عوام میں پذیرائی حاصل کر رہے ہیں تو اپنا وہ مواد یاد آگیا جو صرف
نام نہاد ہے ۔
لاک ڈاؤن کے باعث عوام گھروں میں قرنطینہ ہیں اور بیشتر وقت سوشل میڈیا پہ
گزارتے ہیں اور ایسے میں انہیں اگر ایسا کچھ دیکھنے کو ملے جو حقائق پہ
مبنی ہو ، جو جذبہِ ایمانی کو تازہ کرے تو کیا ہی اچھی بات ہے ، مگر آٹے
میں نمک کے برابر ہی سہی وہ لوگ موجود ہیں جو سوچ کے ساتھ ساتھ مذہب کو بھی
لبرل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔ استغفراللہ ۔۔
|