کرونا وائرس اور پولیس کا کردار

کیمسٹری کے علم کے ذریعے سے کرونا وائرس کے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہے کیا؟ کرونا وائرس کوئی زندہ جاندار نہیں۔ بلکہ ایک پروٹین مالیکیول ہے۔ جسکی بیرونی تہہ پر چربی Lipid ہوتی ہے۔ چونکہ یہ زندہ نہیں، لہذا اسے مارا نہیں جاسکتا۔بلکہ تحلیل/ تباہ Disintegrate Dissolve کیا جا سکتا ہے۔ کیمسٹری کے قانون کے مطابق ایک جیسی چیزیں ایک جیسی چیزوں کو تحلیل کرتی ہیں۔ Like Dissolves Like توکرونا وائرس کو 65% الکوہل کے ساتھ کوئی بھی صابن اور 25 سے 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم پانی کافی ہے۔ گرم پانی، صابن یا الکوحل سے کل از کم 20 سیکنڈ تک ہاتھ دھونے سے کرونا Multiply ھونے کی بجائے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ کرونا وائرس نقصان کا عمل اس وقت شروع کرتا ہے۔جب اُسے Multiplication کے لیے ساز گار ماحول میسر آتا ہے۔ جبکہ Disintegration کی صورت میں یہ فعال نہیں رہتا۔ کرونا وائرس کی افزائش کے لیے اسے ساز گار ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیساکی ناک میں رطوبت، لہابِ دہن وغیرہ۔ کرونا وائرس پروٹین مالیکیول ہونے کی وجہ سیمختلف چیزوں پر اسکی عمر ان چیزوں کی ساخت پر منحصر ہوتی ہے۔ کرونا وائرس کی جسمانی ساخت کمزور ہوتی ہے۔ صرف اِسکی بیرونی چربی کی تہہ اسے مضبوط بناتی ہے۔ چربی کی یہ تہہ ٹوٹ جائے تو کرونا وائرس کا وار موثر نہیں رہتا۔ اِس لیے گرم پانی، صابن اور الکوہل سے ہاتھ دھونے سے اسکی بیرونی تہہ ٹوٹ جاتی ہے اور اسے Multiply ہونے کا موقع نہیں ملتا۔فطری قانون کے مطابق حرارت چربی کو پگھلا دیتی ہے اور جب گرم پانی، صابن یا الکوہل 65% استعمال کیا جاتا ہے تو اِسکی چربی کی بیرونی تہہ ٹوٹ جاتی ہے اور اندر سے یہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ چربی کی بیرونی تہہ کے ٹوٹ جانے سے خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ کپڑوں، لکڑی اور دھاتوں پر اسکی عمر 3 گھنٹے سے 72 گھنٹے تک ہوتی ہے۔ لہذا اِن چیزوں کو جھاڑنے یا ہلانے کی صورت میں کرونا وائرس ھ?وا میں پھیل جاتا ہے۔ جو آسانی سے ناک یا منہ کے ذریعے آپکے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔ ٹھنڈا موسم اور اندھیرا کرونا وائرس کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ اسلیے کوشش کیجیئے کہ ایئر کنڈیشنز نہ چلایا جائے اور گھر کی لائٹیں ا?ن رکھی جائیں۔ کپڑے دھونے کے لیے 20 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر گرم پانی استعمال کیا جائے۔ اگر آپکے گھر میں کارپٹس بچھی ہیں تو اُن پر پانی نہ گرنے دیجیے۔ کسی بھی سطح کو چھونے کے بعد مثلا گاڑی کا دروازہ، گھر کا دروازہ یا کوئی اور چیز، اپنے ہاتھوں کو فوری طور پر دھو لیجیئے۔ کھانا کھانے سے پہلے اور فورا بعد یہی عمل دھرائیں۔ یہ کرونا وائرس نظر نہیں آتا۔ اس لیے احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے اس سے بچا جاسکتا ہے۔

کرونا وائرس Ncovid 19 سے قبل یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی بھی ملک خود کو ہی اپنا مقاطعہ بھی کر سکتا ہے۔ خود ہی پوری دنیا سے اپنا ہر قسم کا رابطہ منقطع کر سکتا ہے اور اپنے ہی پورے کے پورے شہر کو قید خانے میں تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ دنیا بھر میزن لاک ڈاون میں بتدریج نرمی لائی جارہی ہے۔ یعنی شہروں کو اپنے کام کے مقامات پر جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب پرانے معمولات بحال ہو جائیں گے۔ جس طرح نائن الیون کے بعد جو پابندیاں لگائی گیئں تھیں وہ ختم نہیں کی گیئں بلکہ اُن میں سختی ہی لائی گئی۔ بلکل اِسی طرح اب دنیا قبل از کرونا والے مرحلے میں دوبارہ سے واپس نہیں جا پائے گی۔ جہاں جہاں لاک ڈاون میں نرمی کی جارہی ہے۔ وہاں وہاں یہ امر واضع کیا جا رہا ہے کہ اب وہ کرونا کےZone A سے نکل کر Zone B میں جارہے ہیں۔ جہاں پر ماسک، جسمانی فاصلے سمیت ساری احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔

جب میں یہ تحریر لکھ رہا ھوں۔ اُس وقت تک پاکستان میں کرونا مریضوں کی تعداد 32647 ھو چکی ہے اور 724 اموات رپورٹ ہوچکی ہیں۔ انہی واقعات کو بغور دیکھتے ہوئے IGP پنجاب شعیب دستگیر صاحب نے کہا کہ لاک ڈاون میں نرمی کے بعد صوبہ بھر میں بالخصوص بڑے شہروں مرکزی شاہرات کی ٹریفک مینجمینٹ پر بطور خاص توجہ دی جائے اور شہریوں کی سہولت کے لیے ٹریفک کے ہموار بہاو اور روانی کو برقرار رکھنے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لاکر جامع حکمتِ عملی کے تحت اقدامات کئے جائیں۔ جبکہ چیف ٹریفک آفیسرز خود فیلڈ میں نکل کر جائزہ لیتے رہیں۔ دورانِ اجلاس ایڈیشنل IG ٹریفک پنجاب صاحبزادہ شہزاد سلطان نے IG پنجاب کو مختلف پروجیکٹس، پیشہ ورانہ امور اور مجموعی کارکردگی کے متعلق بریفنگ دی۔ جس پر IG پنجاب نے احکامات دیتے ہوئے کہا کہ ٹریفک پولیس اور پنجاب پولیس انتہائی اہم فورس ہے۔ لہذا شہریوں کی سہولت اور ٹریفک کی بلا تعطل روانی کے لیے بہتر پلاننگ اور وسائل کے بہتر استعمال کو یقینی بناتے ہوئے پیشہ ورانہ امور سر انجام دیئے جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سڑکوں پر بیشتر حادثات ڈرائیور کی لا پرواہی، ناقص آلات اور تیز رفتاری کے باعث پیش آتے ہیں۔
 
لہذا CTOS ٹریفک میں کمی کے حوالے سے تمام پہلووں کو مد نظر رکھ کر جامع حکمتِ عملی کے تحت اقدامات کریں اور PHP ٹریفک پولیس اور ڈسٹرکٹ پولیس کی بنائی گئی مشترکہ ٹیموں کی براہ راست خود نگرانی کریں۔ دورانِ اجلاس ایڈیشنل IG اسٹیبلشمنٹ پنجاب بی اے ناصر صاحب بھی موجود تھے۔ مزید انھوں نے کرونا وائرس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ہمارے تمام تر سیکیورٹی ادارے نہایت ہی خوبصورتی اور ذمہ داری سے الرٹ رہے اور الرٹ ہیں۔ جن میں محکمہ پولیس سرِفہرست ہے۔ لوگوں کو گھروں میں محفوظ رہنیکی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ منہ پر ماسک اور ھاتھوں پر گلوز پہننے کی تلقین کر رہے ہیں اور آپس کے میل جول میں بھی فاصلہ رکھنے کا بھی کہا گیا اور ہاتھ جوڑ کر درخواست بھی کرتے رہے کہ خدارہ اپنے گھروں میں رہیں، تاکہ اِس موزی مرض کرونا وائرس سے محفوظ رہیں۔

اپنی جانوں کے لیے اور اپنے گھر والوں کی صحت اور زندگی کے لیے۔ بعض مقامات پر تو پولیس کے افسران نے خود لوگوں میں فری ماسک اور حفاظتی تدابیر کے بروشرز تقسیم کئے اور کرتے نظر آ رہے ہیں تاکہ اِس موزی وبا کرونا وائرس سے بچا جا سکے۔

کرونا وائرس سے بچاو کی جہاں بہت ساری تدابیریں کی گئیں، وہاں پر ایک یہ بھی کام کیا گیا کہ ساریملکِ پاکستان میں کلورین مِلا اسپرے کیا گیا۔ تاکہ اس موزی مرض کرونا وائرس کے جراثیموں سے محفوظ رہا جا سکے۔ پاکستان کے تمام تر سیکیورٹی ادارے ہائی الرٹ نظر آئے، وہاں پر فرنٹ لائن میں محکمہ پولیس کے آفسران، فوج، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف بھی، 1122 ایمرجنسی کے لوگ فرنٹ لائن پر دفاع کرتے رہے۔ خواص طور پر محکمہ پولیس پولیس کے نوجوان ہر جگہ فرنٹ پر رہے۔ شاہراہوں پر اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر اپنی ڈیوٹی بخوبی انداز میں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ جبکہ دوسرے لوگ اپنے گھروں میں محفوظ زندگیاں گزار رہے ہیں۔ سیلوٹ پیش کرتے ہیں اِن تمام اداروں کے آفسران و نوجوانوں کو، جو ہماری زندگیوں کی خاطر، ہماری صحت کی خاطر اور ملکِ پاکستان کی عزّت و وقار کی خاطر، اپنی جانوں / زندگیوں کی پرواہ کئے بغیر کھڑے رہے۔

میرا یہ ایمان ہے کہ کرونا وائرس بھی اﷲ پاک کی ایک مخلوق ہے اور اُسکے حکم کی پابند ہیاور اُسی کے حکم سے پھیل رہا ہے اور اُسی کے حکم سے علاج بھی دریافت ھو گا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ 100 افراد میں سے تقریباً 3 % لوگ فوت ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تو جب دنیا میں اِس کا علاج ہی ممکن نہیں تو باقی 97% لوگوں کو صحت کون دے رہا ہے۔ ہم الحمداﷲ مسلمان ہیں اور ہمیں اﷲ پاک پر بھروسہ ہونا چاہیے اور اُسی سے مدد مانگیں۔ پانچ وقت کی نماز پڑھیں اور اﷲ پاک سے ڈریں، کوئی بھی وائرس آپ تک نہیں آئے گا اور اُن لوگوں کے لیے دعا خیر کریں۔ جولوگ آپکی حفاظت کے لیے باہر کھڑے ہیں۔ اﷲ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ھو۔ آمین

Mehr Ishtiaq
About the Author: Mehr Ishtiaq Read More Articles by Mehr Ishtiaq: 31 Articles with 21413 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.