سچ ایک آزمائش

اِس دنیا میں ایک سچا انسان گھڑی گھڑی امتحان سے گزرتا ہے خصوصا اس جگہ جہاں جھوٹ کا چلن عام ہو...جہاں سچ لوگوں کو مخمصے میں ڈال دے...سواری والے سے کرائے پر بحث ہو یا دکان دار سے بھاؤ تاؤ... نوکری کے لئے سی_وی کی تزئیں و آرائش ہو چاھے انٹرویو کے بے قرار لمحات....کاروبار کا حساب کتاب ہو یا حکومتی اداروں سے کوئ کام...شادی کے معاملات ہوں کہ تجہیز و تدفین کے عبرتناک مراحل...ہر جگہ جھوٹ سائے کی طرح ساتھ ساتھ چلتا ہے...

ہم جانتے ہیں کہ اِسی دنیا کے ایک خطے میں رہنے والے انسانوں کی روشِ اظہار و بیان دوسرے خطوں میں بسنے والے آدم و حوا سے مختلف نظر آتی ہے...ایسا کیوں ہے...دراصل یہ ملکوں کے نظامِ انتظام و انصرام کا اختلاف ہے...ایک نظام جھوٹ کو برداشت نہیں کرتا لہذا سچائ کی راہیں ہموار کرتا ہے...دوسرے نظام کو سچ میں اپنے مفادات کی ہار نظر آتی ہے چنانچہ وہ جابجا رکاوٹیں کھڑی کر دیتا ہے...ایسے ماحول میں دنیا تو دنیا دین کے کام بھی جھوٹ کی آمیزش سے گدلا جاتے ہیں...آخر مجبور و بے بس کے قدم کب تک نہ ڈگمگائیں گے...اور صرف اِس پر ہی کیا موقوف... قوی امکان ہے کہ مذکورہ بالا خطۂ صدق کے باسی اگر کسی خطۂ دروغ میں رہائش پذیر ہو جائیں تو نظامِ کم ظرف و کم نگہہ کے زیرِ اثر وہ بھی بدل جائیں...ان کی بھی ہوا اکھڑ جائے کیونکہ انسانوں کی عظیم اکثریت بھیڑ چال کا شکار رہتی ہے... یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ایسا نظام دے جہاں انہیں جھوٹ کا سہارا نہ لینا پڑے اور مرشدِ ضمیر کی بتائ ہوئ راہِ حق پر چلنا جوئے شیر لانے کے مترادف نہ ہو...

بر سبیلِ تذکرہ یہ بھی دھیان رہے کہ سچ کا اظہار حکمت کا متقاضی ہے...محض دل کی بھڑاس نکال لینا کوئ کمال نہیں...موقع محل کی اپنی ایک اہمیت ہے ....بات حق ہو تو اسے دل میں گھر بھی کرنا چاھئے جو کہ قرآنی حکم "و قولوا بالناس حسنا(اور لوگوں سے اچھی بات کہو)" پر عمل کئے بغیر ممکن نہیں...

یہ بھی عام مشاھدہ ہے کہ بہت سے لوگ سچ بولنے سے قصدا گریز کرتے ہیں ...ان کا موقف ہوتا ہے کہ سچ بولنے سے انہیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے...گویا ان کے نزدیک راست گوئ ایک کاروبار ہے اگر نفع بخش ہو تو قبول ورنہ مسترد...لیکن تاریخِ انسانی ہمیں بتاتی ہے کہ سچ کا پھل کبھی میٹھا ہوتا ہے اور کبھی کڑوا...اور اس تناسب کا فیصلہ حکیمِ مطلق کے اختیار میں ہے ...تاریخِ صدق و صفا میں کبھی سقراط زہر کا پیالہ پی کر امر ہوتا نظر آتا ہے تو کبھی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی سچائ سے متاثر ہو کر ڈاکوؤں کا سردار ولئ کامل کے مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے...اور ان سب سے بڑھ کر پیغبرِ خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی راست گوئ سے کبھی دشمنِ جاں, جاں نثار بن جاتے ہیں تو کبھی طائف کی زمین اسی رھبرِ حق پر تنگ ہو جاتی ہے...الغرض سچ ایک آزمائش ہے....ایمان کا امتحان ہے... سود و زیاں سے بالاتر اظہارِ محبت ہے... اور اِس پر قرآن یوں مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے:

"خدا فرمائے گا کہ آج وہ دن ہے کہ راست بازوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ابدالآباد ان میں بستے رہیں گے خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں یہ بڑی کامیابی ہے " ﴿۱۱۹ سورہ مائدہ﴾


 

Yasir Farooq
About the Author: Yasir Farooq Read More Articles by Yasir Farooq: 25 Articles with 39366 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.