موت سب سے بڑی سچائی اور سب سے تلخ حقیقت ہے۔ نہ کوئی
چھوٹا، نہ کوئی بڑا، نہ امیر، نہ کوئی غریب، نہ ہی معزز، نہ کوئی حقیر ، نہ
حکمران، نہ رعایا، نہ عالم، نہ جاہل ، نہ مرد اور نہ ہی عورت، کسی کو بھی
اس سے رستگاری نہیں۔ بلا شبہ موت اس دنیوی اور فانی زندگی کی انتہا ہے،
لیکن اخروی ابدی اور لافانی زندگی کی ابتدا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ
يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ
فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴾. (سورة
آل عمران، آية: ١٨٥)
ترجمہ: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہیں تمہارے اجر قیامت کے دن
ہی پورے دیے جائیں گے، پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل
کردیا گیا، تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا، اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کے
سامان کے سوا کچھ نہیں۔ (سورہ آل عمران، آیت: ۱۸۵)
البتہ یہ ایک فطری امر ہے، کہ جب کوئی اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے، تو اس کی
وجہ سے دل کو بڑا صدمہ پہنچتا ہے، اور خاص کر جب جانے والے سے آپ کے
احساسات و جذبات کا گہرا تعلق ہو، تو پھر اس کی جدائیگی بہت صبر آزما اور
تکلیف دہ ہوتی ہے۔ آج ہند و پاک کے سارے مسلمان، بالخصوص پوری علما برادری
کے لیے یہ انتہائی رنج و غم کی بات ہے کہ کئی نسلوں کے استاد، فقيہ النفس،
محدث جلیل اور نبیرۂ اسلاف حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمة
اللہ علیہ، شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند آج بتاریخ 19 مئی بہ مطابق 25
رمضان المبارک، بروز منگل، بوقت چاشت، اللہ کو پیارے ہوگئے......... إنَّا
لله وإنا إنا إليه راجعون۔
حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ ان نابغۂ روزگار علما میں سے تھے، جو صدیوں میں
کبھی ایک پیدا ہوتے ہیں۔ آپ اسلامی علوم و فنون کے متبحر عالم تو تھے ہی،
ساتھ ہی میں اللہ تعالی نے آپ کو بے پناہ تدریسی کمال اور افہام و تفہیم کا
اثر انگیز انداز عطا کیا تھا۔ پیچیدہ پیچیدہ مسائل کو بالکل عام فہم زبان
میں اس طرح بیان کرتے اور گفتگو ایسی مرتب ہوتی کہ ہر طالب علم کے لیے اس
کو سمجھنا انتہائی آسان ہوجاتا تھا۔ موضوع سے زیادہ نہ کوئی گفتگو کرتے اور
نہ ہی بلاوجہ گفتگو میں طوالت کو پسند کرتے تھے۔ اور آپ کی تحریروں میں بھی
آپ کا وہی انداز صاف جھلکتا ہے۔ آپ اپنی زندگی میں عام مولویانہ پر تکلف
روش سے پرے ایک سادگی پسند انسان تھے۔ آپ ایک علم دوست، تنقیدی مزاج کے
حامل، انتہائی صالح عالم با عمل تھے۔ نیز آپ نظم و ضبط کے پابند انتہائی
اصولی انسان تھے۔ ہمیشہ طلبا کو علم کے اندر تخصص، اور تفقہ پر بہت زیادہ
زور دیتے تھے۔ بارہا درس میں آپ نے اس بات کا رونا رویا ہے کہ ایک طویل
عرصے سے دارالعلوم کو جس معیار کے مفتی کی ضرورت ہے، وہ دستیاب نہیں ہیں،
اور دو چند جو اس قابل ہیں، وہ دارالعلوم میں اپنی خدمات انجام دینے سے
گریزاں ہیں۔ آپ اس حوالے سے طلبا کو پڑھنے اور اپنے اندر اختصاص پیدا کرنے
پر خوب جوش اور غیرت دلاتے تھے۔ ایک استاد کی حیثیت سے آپ بلاشبہ ایک
انتہائی مخلص و مشفق اور باکمال استاد ثابت ہوئے ہیں۔ یقیناً ان کی رحلت سے
دارالعلوم سمیت پورے علمی اور دینی حلقہ میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے، جس کی
بھرپائی بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالی حضرت والا کو غریق رحمت فرمائے، جنت میں
انبیا و شہدا کا ہم نشیں بنائے اور جملہ پس ماندگان کو صبر جمیل عطا
فرمائے۔۔۔آمین یا ربالعالمین۔۔۔
|