مسلسل لاک ڈاؤن کے دوران متعدد دینی مسائل میں غور و خوض
کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ عام حالات میں جس طرح عبادات انجام دی جاتی تھیں،
اِن مخصوص حالات میں متعدد مسائل میں مخصوص انداز میں انجام دی جا رہی ہیں۔
چوں کہ اب عید الفطر تک لاک ڈاؤن کا سلسلہ دراز ہو گیا ہے،اب سوال یہ ہے
کہ ان حالات میں نمازِ عید کس طرح ادا کی جائے گی؟اس کا اجمالی جواب یہ ہے
کہ نمازِ عید کے درست ہونے کی تمام شرطیں وہی ہیں جو نمازِ جمعہ کی ہیں،
سوائے خطبے کے۔جمعے میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنّت، اس لیے موجودہ
اضطراری حالت میں امام کے علاوہ جہاںتین بالغ مَرد موجود ہوں، وہ باجماعت
عید کی نماز ادا کر لیں۔ خطبہ دیکھ کر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی خیال
رہے کہ خطبہ شروع ہونے کے بعد اس کا سننا واجب ہو جاتا ہے۔ جہاں اتنے لوگ
موجود نہ ہوں، یا جمع ہونے پر پابندی ہو تو اُن کے لیے بہتر ہے کہ وہ چار
رکعتیں چاشت کی نیت سے پڑھ لیں، البتہ یہ رکعتیں نمازِ عید کے قایم مقام
نہیں ہوں گی۔
مختصر یہ کہ درجِ ذیل امور کا لحاظ رکھا جائے؛(۱) نماز سے پہلے یا بعد ایسا
کوئی کام نہ کیا جائے جس سے حکومتی قوانین کی خلاف ورزی لازم آتی ہو (۲)حکومت
اور ماہرین کی بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر کا لحاظ رکھا جائے(۳) مقامی
زبانوں میں کیے جانے والے بیانات کا سلسلہ فی الحال موقوف رکھا جائے تاکہ
اجتماع کا وقفہ کم سے کم ہو(۴)عید کی نماز کے لیے اذان و اقامت نہ کہی
جائے(۵)عید کی دو رکعتیں چھے زائد تکبیروں کے ساتھ پڑھی جائیں(۶)دعا نماز
کے بعد کی جائے، خطبے کے بعد نہیں(۷)عید کا خطبہ نماز کے بعد دیا جائے گا
اور اسے کتاب میںدیکھ کر بھی پڑھا جا سکتا ہے(۸)عید کے لیے خطبہ مسنون ہے،
لیکن خطبے کے لیے منبر شرط نہیں، دونوں خطبوں کے درمیان کسی کُرسی وغیرہ پر
بیٹھنا کافی ہوگا۔
عیدگاہ کی حیثیت
عید کی نماز ادا کرنے کی اصل جگہ عیدگاہ ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ
حضورﷺ نے (نمازِ عید) بجز ایک بار کے- کہ عذرِ بارش کی وجہ سے مسجد میں ادا
فرمائی تھی، ہمیشہ میدان ہی میں تشریف لے جاتے تھے، حتیّٰ کہ جن پر عذرِ
شرعی سے نماز بھی نہ تھی اُن کے لے جانے کا اہتمام فرماتے تھے، چناں چہ بہ
کثرت احادیث وارد ہیں۔ پس جس امر کاحضور ﷺ کوقولاً وفعلاً اہتمام ہو، اس کے
خلاف کا قولاً وفعلاً اہتمام کرنا صریحاً مخالفت سنت کی ہے، جس کے گناہ
ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔[امداد الفتاویٰ]نیز عید گاہ آبادی سے باہر ہونا
سنتِ مؤکدہ ہے اوربغیر عذر آبادی سے باہر عیدگاہ میں نمازِ عید نہ پڑھ کر
آبادی کے اندر مسجد یا میدان میں پڑھنا خلافِ سنت ہے، جس پر ترکِ سنت
ِمؤکدہ کا گناہ ہوگا۔[ فتاوی محمودیہ،احسن الفتاویٰ]اور ممبئی جیسے گھنی
آبادی والے بڑے شہروں میں عید کی نماز مسجدوں میں ادا کی جاتی ہے اس کا
سبب یہ ہے کہ یہاں عیدگاہ ہی نہیں، ایسے میں اگر کھلے میدان میں نمازِ عید
ادا کی جائے تو بھی یہ عیدگاہ کے حکم میں نہیں،اس لیے کہ آبادی سے باہر
عیدگاہ یا میدان اور صحرا میں نمازِ عید ادا کرنے کا اصل مقصد شوکتِ اسلام
کا مظاہرہ ہے اور عیدگاہ آبادی کے اندر آجانے سے یہ مقصد فوت ہوجاتا
ہے،لہٰذا وہاں نماز پڑھنا اور شہر کی مسجدوں میں نماز پڑھنا ایک ہی جیسا
ہے۔’محمود الفتاویٰ‘ میں ہے: آبادی کے مکانات سے باہر میدان میں عید کی
نماز پڑھنا مسنون ہے، اس لیے اگر کھلی جگہ ہی میں پڑھنا ہے تو آبادی سے
باہر کوئی کھلی جگہ اس کام کے لیے پسند کرلی جائے، تاکہ یہ سنت ادا ہو،
باقی آبادی کے اندر رہ کر مسجد یا مسجد سے باہر میدان میں یکساں ہے۔[محمود
الفتاویٰ مبوب]
عیدین کی نماز کا حکم
عیدین کی نماز حنفیہ کے یہاں صحیح اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق واجب ہے اور
حنفیہ کے یہاں واجب سے مراد فرض و سنّت کا درمیانی درجہ ہے۔ شافعیہ و
مالکیہ سنتِ مؤکدہ اور حنابلہ فرضِ کفایہ ہونے کے قائل ہیں۔[الموسوعۃ
الفقہیۃ الکویتیۃ]
نمازِ عیدین صحیح ہونے کی شرطیں
جو چیزیں نمازِ جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہیں، وہی نمازِ عیدین کے صحیح
ہونے کے لیے بھی شرط ہیں، البتہ خطبہ اس سے مستثنیٰ ہے؛ یعنی خطبہ جمعے کے
صحیح ہونے کے لیے شرط ہے، لیکن نمازِ عیدین کی صحت کے لیے خطبہ شرط نہیں،
سنّت ہے۔[الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ]
لاک ڈاؤن میں نمازِ عید
لاک ڈاؤن کی صورت میں جس طرح جمعے کی نماز ادا کی جا رہی ہے، اسی طرح
نمازِ عید بھی ادا کر لی جائے۔ شہروں میں -جہاں عید و جمعہ واجب ہے- وہاں
چار پانچ لوگ مسجد میں باجماعت نماز ادا کر لیں اور دیگر حضرات اپنے مکانات
وغیرہ پر رہ کر باجماعت نماز کا اہتمام کریں۔ اگر چار بالغ مرد ہوں تو وہ
جمعہ و عید کی نماز باجماعت ادا کر سکتے ہیں، اگر اس سے کم ہوں تو جمعے کے
دن ظہر اور عید کے دن چاشت کی چار رکعتیں پڑھ لیں۔[در مختار]
نمازِ عیدین کا وقت
نمازِ عیدین کا اشراق سے لے کر زوال تک رہتا ہے، لیکن عید الفطر میں تھوڑی
تاخیر اور عیدالاضحی میں تھوڑی جلدی پسندیدہ ہے۔[شامی] ’فتاویٰ رحیمیہ‘میں
ہے کہ عیدین کی نماز کا وقت طلوعِ آفتاب کے تقریباً پندرہ منٹ کے بعد شروع
ہوجاتا ہے، لیکن جماعت کا وقت ایسا مقرر کرنا چاہیے کہ لوگ عید کی تیاریاں
کرکے سہولت سے عید گاہ میں حاضر ہوسکیں۔ [ قدیم]
نمازِ عیدین میں اذان و اقامت
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے عید کی نماز
بغیر اذان و اقامت کے پڑھی اور پھر اسی طرح ابوبکر و عمر نے بھی (یعنی اپنے
دورِ خلافت میں) پڑھی ۔ [ابوداود] اس لیے نمازِ عیدین کے لیے اذان و اقامت
نہیں کہی جائے گی، رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے آج تک اسی پر توارث چلا آرہا
ہے۔[المحیط البرہانی]
نمازِ عیدین کا طریقہ
امام اورمقتدی دونوں پہلے نماز کی نیت کریں۔ نیت کے بعد امام بلند آواز سے
اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھائے اور پھر ناف کے نیچے باندھ لے
اور مقتدی آہستہ سے اللہ اکبر کہہ کر ایسا ہی کریں۔ پھر (امام اور مقتدی)
سب ثنا پڑھیں۔ ثنا کے بعد امام بلند آواز سے تکبیر کہہ کر اپنے دونوں
ہاتھوں کو کانوں کی لَو تک لے جائے اور چھوڑ دے۔ مقتدی بھی آہستہ آواز سے
تکبیر کہہ کر ایسا ہی کریں۔ پھر ایک اور مرتبہ امام اور مقتدی ایسا ہی
کریں۔ پھر ایک مرتبہ امام اور مقتدی تکبیر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھائیں
اور اس بار ہاتھ چھوڑے نہیں بلکہ باندھ لیں۔ اب امام آہستہ سے تعوذ(اعوذ
باللہ)، تسمیہ (بسم اللہ) اور اس کے بعد بلند آواز سے قرأت کرے اور مقتدی
خاموش کھڑ ے رہیں۔ پھر امام کے ساتھ رکوع، سجدہ وغیرہ کرکے حسبِ دستور پہلی
رکعت پوری کریں۔ دوسری رکعت میں کھڑے ہوکر پہلے امام قرأت کرے پھر رکوع
میں جانے سے پہلے تین مر تبہ تکبیر کہے اور ہر مرتبہ ہاتھ کانوں تک اٹھا کر
چھوڑ دے۔ مقتدی بھی ایسا ہی کریں۔ پھر چوتھی مرتبہ امام تکبیر کہہ کر رکوع
میں چلا جائے اور مقتدی بھی ایسا ہی کریں، اور آگے حسبِ دستورنماز مکمل
کریں۔[حلبي کبیر]
نمازِ عیدین میں سجدۂ سہو
نمازِ عیدین میں مجمع زیادہ ہونے کے سبب سجدۂ سہو واجب ہوجانے پر بھی فتنے
سے بچنے کے لیےسجدۂ سہو نہ کرنے کاحکم کتبِ فقہ و فتاویٰ میں لکھا ہوا ہے،
لیکن لاک ڈاؤن میں جب کہ مجمع کثیر نہ ہو اور سجدۂ سہو کرنے میں کسی فتنے
کا بھی اندیشہ نہ ہو اور سجدۂ سہو واجب ہو جائے، تو سجدۂ سہو کرنا ہوگا،
کیوں کہ یہاں رخصت کی علّت باقی نہیں ہے۔[مستفاد از محمود الفتاویٰ مبوب]
نمازِ عیدین کے بعد دعا
جس طرح دیگر نمازوں کے بعد دعا کی جاتی ہے، اسی طرح عید کی نماز کے بعد بھی
کی جا سکتی ہے، لیکن اس کا وقت نماز کے بعد ہے، نہ کہ خطبے کے بعد۔ یعنی
عیدین کی نماز کے بعد مثل دیگر نمازوں کے دعا مانگنا مستحب ہے ، خطبے کے
بعد دعا مانگنے کا استحباب کسی روایت سے ثابت نہیں ہے۔ اور عیدین کی نماز
کے بعد دعا کرنے کا استحباب ان ہی حدیثوں و روایات سے معلوم ہوتا ہے جن میں
عموماً نمازوں کے بعد دعا مانگناوارد ہوا ہے اور دعا بعد الصلوٰۃ مقبول
ہوتی ہے ۔ حصنِ حصین میں وہ احادیث مذکور ہیں اور ہمارے حضراتِ اکابر کا یہ
ہی معمول رہا ہے ۔بندے کے نزدیک جو علما عیدین کی نماز کے بعد دعا مانگنے
کو بدعت یا غیر ثابت فرماتے ہیں، وہ صحیح نہیں ہے، کیوں کہ عموماً نمازوں
کے بعد دعا کا استحباب ثابت ہے، پھر عیدین کی نمازوں کا استثناکرنے کی کوئی
وجہ نہیں ہے اور وہ احادیث معروف و مشہور مشکوٰۃ شریف و حصنِ حصین میں
مذکور ہیں، ان کی نقل کی ضرورت نہیں ہے۔ [فتاویٰ دارالعلوم دیوبند]
عیدین میں خطبہ دینا اور سننا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں عید کی نماز میں رسول اللہ
ﷺ، ابوبکر، عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ شریک ہوا ہوں، یہ تمام لوگ
خطبے سے پہلے نماز پڑھتے تھے۔[بخاری]اس لیے عیدین کا خطبہ پڑھنا مسنون
ہے،جو کہ عید کی نماز کے بعد پڑھا جائے گا۔عیدین کے خطبوں میں یہ بھی مستحب
ہے کہ پہلے خطبے کی ابتدا میں نو مرتبہ تکبیر جہر کے ساتھ لگاتار پڑھے اور
دوسرے خطبے میں سات مرتبہ۔[درِ مختار]موجود مصلیان غور سے خطبہ سنیں، کیوں
کہ جب خطبہ پڑھا جائے اور کوئی شخص وہاں موجود ہو تو اس پر خطبہ سننا واجب
ہوجاتا ہے، اس وقت کلام وغیرہ کرنا ناجائز اور شور مچانا سخت گناہ
ہے۔[البحر الرائق]
معذور شخص کے لیے چاشت کی نماز
جو شخص نمازِ عید باجماعت ادا کرنے سے معذور ہو، وہ تنہا دو یا چار
رکعتیںچاشت کی نیت سے پڑھ سکتا ہے۔ افضل یہ ہے کہ چار رکعتیں پڑھے۔ لیکن اس
میں نمازِ عید کی طرح زائد تکبیریں نہیں کہی جائیں گی،نیز یہ نماز واجب اور
ضروری نہیں ہے۔[شامی]
|