عید کارڈز کی روایت دم توڑ چکی۔۔۔۔۔

رمضان المبارک میں عبادتوں کے طفیل اللہ عزوجل مسلمانوں کو عید کی صورت میں تحفہ عطا کرتا ہے۔جس کوعیدالفطر کہتے ہیں۔ جس کو منانے کے لیے رمضان المبارک کے آغاز سے ہی تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں۔ ماضی میں اپنے پیاروں، رشتے داروں، عزیزواقارب اوردوست واحباب کو عیدکارڈز ارسال کرنے کی روایت انھیں تیاریوں کا حصہ ہوا کرتی تھی، جوجدید ٹیکنالوجی کی نذر ہوگئی ہے۔ جس طرح بچپن کی اور بہت سییادوں کی مٹھاس آج بھی محسوس ہوتی ہے،اسی طرح عیدکارڈز بھیجنے کی روایت بھی دل ودماغ پر انمٹ نقوش چھوڑگئی ہے، جس کو جب بھییاد کریں تو محبت، خلوص اوررشتوں کی سچائی کا ایک احساس ہوتا ہے، جو آج ڈھونڈنے سے مشکل ہی ملتا ہے۔ عیدکارڈ بھیجنے اورعیدکارڈ ملنے کے لمحات بھیجنے اور وصول کرنے والے دونوں کے لیے باعث مسرت ہوا کرتے تھے۔

شوا ہد سے معلوم ہوتا ہے کہ برِصغیر پاک و ہند میں عید کارڈ بھیجنے کی روایت کا آغاز انیسویں صدی کے آخری سالوں میں ہوا۔ ویسے تو کئی دولت مند مسلمان گھرانے صدیوں سے سجاوٹ والے خطاطی شدہ پیغامات بھیجا کرتے تھے، لیکن عید کارڈز کی وسیع پیمانے پر دستیابی اور ان کا ڈاک کے ذریعے بھیجا جانا انیسویں صدی کے اواخر میں ہی شروع ہوا۔

رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی ملک بھرکے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کی مارکیٹوں اور بازاروں میں خصوصی اسٹالز سج جاتے تھے، مہینے کے وسط اور آخری عشرے تک پہنچتے پہنچتے ان کی خریداری اپنے عروج کو پہنچ جاتی تھی۔ عید کارڈز کے ساتھ گفٹ بھی فروخت ہوا کرتے تھے، جن میں چین، لاکٹ، پرفیوم، پین، رومال، گھڑی اور دیگرگفٹ پیک شامل ہو ا کرتے تھے۔ اپنے دوستوں اور عزیزواقارب کی جانب سے ملنے والے عیدکارڈز کا بہت سے افراد باقاعدہ ریکارڈ رکھتے تھے۔ جب بھی دوستوں کییادیں تازہ کرنا ہوتیں تو پرانے عید کارڈز نکال کر دیکھ لیا کرتے تھے اور عید کارڈ کے ساتھ پرخلوص تحفے میں ملنے والی اشیاء کو بھی عید کے موقعے پر بہت شوق سے پہنا جاتا تھا۔

ایک بہت حسین دور تھا جب رمضان کے آخری عشرہ میں عید کی تیاری کے ساتھ ساتھ عید کارڈز خریدنے کی بہت خوشی ہوتی تھی۔ میرے بچپن کی ایک بہترینیاد میں ہے، میں اور میری بہن اپنے والد کے ہمراہ عید کارڈز لینے جایا کرتے تھے اور وہاں لوگوں کا ایک ہجوم ہوتا تھا جو اپنے دوستوں ،اساتذہ اور کزنز کے لیے عید کارڈز کی خریداری میں مصروف نظر اتے تھے

عید کارڈز 5 روپے سے 100 روپے تک مختلف قیمتوں میں ہوتے تھے جن میں کارٹونس اور پھولوں سے بھرے کارڈز نظر اتے تھے ۔ کوئی اپنے دوستوں کے لیےچھوٹا تو کوئی بڑا عید کارڈ لیتا ۔ ہر ایک اپنے دل کی خوائش کے مطابق عید کارڈ اور اسکے ساتھ کوئی تحفہ خرید تا

ان عید کارڈز میں سب اہم چیز اس زمانے میں لکھے جانے والے وہ اشعار تھے، جو پتہ نہیں شاعری کے اصولوں پر پورا اترتے تھے بھی کہ نہیں اور ان کے شاعروں کا بھی کچھ علم نہیں ہوتا تھا، لیکنیہ شعر برسوں تک عید کارڈز پر لکھے جاتے رہے،،جو لکھنے اور پڑھنے والے کے چہرے پر ہنسی بکھیر دیتے تھے امید ہے آپ کو بھی کچھ شعر یاد ہوں گے۔
دبے میں دبا ڈبے میں کیک
میری سہیلی لاکھوں میں ایک

عید آئی ہے زمانے میں
میری دوست گر گئی ہے غسل خانے میں

چاول چنتے چنتے نیند آگئی
صبح اٹھ کے دیکھا تو عید آگئی

گرم گرم روٹی توڑی نہیں جاتی
آپ سے دوستی چھوڑی نہیں جاتی

ان اشعار کے علاوہ پوسٹ کارڈز اور عید کارڈز پر عمومی طور پر یہ تہنیتی جملے بھی لکھے جاتے تھے: ’’میری اور میرے گھر والوں کی جانب سے آپ کو دلی عید مبارک قبول ہو‘‘، ’’میری دعا ہے اللہ آپ کوایسی ہزاروں عیدیں دیکھنا نصیب کرے‘‘، ’’میرے اور میرے گھر والوں کی طرف سے آپ اورآپ کے گھر والوں کو سویوں والی میٹھی عید مبارک ہو۔‘‘ وغیرہ وغیرہ

عید کے موقعے پر عیدکارڈز ہی اپنے پیاروں کو عیدکی مبارک باد کہنے کا اہم ذریعہ ہوتے تھے۔ عیدکارڈز کی ایک بہت بڑی انڈسٹری ہوا کرتی تھی۔ اشاعتی ادارے سارا سارا سال عید کارڈز کی تیاری اور ڈیزائننگ پر کام کرتے تھے۔ اشاعتی اداروں کے درمیان عید کارڈز کی فروخت کے حوالے سے ایک مقابلے کا سا سماں دیکھنے کو ملتا تھا۔ عید کے موقعے پر عید کارڈز کی بہتات کے باعث محکمہ ڈاک ان عید کارڈز کی ترسیل کے لیے خصوصی انتظامات کیا کرتا تھا۔ خاص طور پر لوگ دوسرے شہروں اور بیرون ملک بسنے والے دوستوں اور رشتے داروں کو عام ڈاک اور ائیر میل کے ذریعے عید کارڈ پورے اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے۔ عید کے قریب کے دنوں میں ڈاک خانوں کا عملہ باقی کام چھوڑ کر صرف اور صرف عید کارڈ بذریعہ پارسل/ رجسٹرڈ اور عام ڈاک میں بک کرنے اور رسیدیں کاٹنے میں مصروف عمل ہوتا تھا۔

اس وجہ سے عید کے دنوں میں محکمہ ڈاک کا کام بھی معمول سے بڑھ جاتا تھا اور انھیں عوام الناس کے لیے باقاعدہ ہدایت نامہ جاری کرنا پڑتا کہ بروقت عید کارڈز کی ترسیل کے لیے فلاں تاریخ تک عید کارڈ سپرد ڈاک کردیے جائیں۔ عید کارڈزکا کاروبار ٹھپ ہونے کے باعث محکمہ ڈاک خانہ جات کو لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، کیونکہ عیدکارڈز کی ترسیل کے دوران ٹکٹوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور بہت سے لوگ عید کے موقعے پر اسٹال وغیرہ لگا کے عارضی طور پر اس سے وابستہ ہو جاتے تھے-

عید کارڈ کی روایت کا ختم ہونا مہنگائی کے سبب نہیں، بلکہ موبائل فون اور سوشل میڈیا کے دور کی وجہ سے ہے۔ اب موبائل فون اور سوشل میڈیا تک عام رسائی کی بدولت لوگ ان ذرایع سے عید مبارک کے پیغامات بھیجنے کو زیادہ سہل اور موزوں سمجھتے ہیں اور عید کارڈ کے تکلفات میں نہیں پڑتے۔ اب عید کارڈز کی جگہ موبائل فونزکی ایس ایم ایس میسیجنگ و ایم ایم ایس سروس نے لے لی ہے۔

اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ عید کارڈ خریدنے مارکیٹ جائے اور پھر اسے اپنے عزیزو ں کو پہنچائے۔ اب نہ وہ زمانہ رہا، نہ عید کارڈز بھیجنے کا رواج، اب عید کارڈ کی صرف خوبصورت یادیں رہ گئی ہیں۔ وہ صرف کارڈز نہیں تھے، جو ہم اپنے پیاروں کو اس وقت بھیجتے تھے، بلکہ اس میں چھپا وہ پیار اور خلوص تھا، جو تیزرفتار زندگی میں اب کہیں کھوگیا ہے۔

آج انسان اس خلوص اور جذبہ محبت سے محروم ہے، جو عیدکارڈ کے ذریعے کئی دنوں میں ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتے ہوئے ہم تک پہنچا کرتا تھا
 

Areeba Abdul rauf
About the Author: Areeba Abdul rauf Read More Articles by Areeba Abdul rauf: 4 Articles with 4040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.