قوم کو تقسیم کرنے والے ۔؟

ایک وقت تھا کہ حکمران مذہبی جماعتوں اورعلماء پرالزامات عائدکرتے تھے کہ یہ مذہبی منافرت اورفرقہ واریت پھیلارہے ہیں آج یہ وقت آگیاہے کہ مذہبی جماعتیں حکمرانوں پرالزام عائدکررہی ہیں کہ حکمران مسلکی منافرت پھیلارہے ہیں اورحقیقت بھی یہ ہے کہ حکمرانوں نے ہمیشہ سیاسی مقاصدکے لیے مذہبی کارڈاستعمال کیا ،جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی ترجمان سابق سینیٹر حافظ حسین احمد، ملی یکجہتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ابوالخیر زبیر، جمعیت علمائے اسلام (س)کے سربراہ مولانا حامد الحق حقانی،سابق وزیرمملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات،ڈاکٹرراغب نعیمی ،علامہ راشدمحمود سومرو ودیگرنے خصوصا صوبہ سندھ کے حکمرانوں کی جانب سے مختلف مسالک کی جماعتوں میں فرقہ واریت اور منافرت پھیلانے کی مبینہ کوششوں کی سخت مذمت کی ہے۔کہاہے کہ حکومت نے مذہبی حوالوں سے متضاد فیصلے کئے اور ان نامساعد حالات میں ملک کے اندر بڑی مشکلوں سے کسی حد تک قائم اتحاد و یکجہتی کی فضا کو سبوتاژ کرنے کی شعوری کوشش کی گئی،

ملک میں پہلے ہی سیاسی افراتفری کاماحول ہے اب حکومت کی طرف سے مذہبی منافرت اورمسلکی تعصب کامظاہرہ کیاگیاہے کروناوائرس کے پھیلنے کے بعد سختی سے مساجداورمدارس کوبندکیاگیامساجدمیں نمازیوں کومحدودکیاگیا، اعتکاف پرپابندی عائدکی گئی صدرمملکت اوروزیرمذہبی امورمساجد میں جا جا کر سماجی فاصلہ سینٹی میٹروں میں ماپتے رہے ایس اوپیزکی خلاف ورزی کرنے پرعلماء کوگرفتارکرکے ان پرمقدمات بنائے گئے ،تبلیغی جماعت کے خلاف نفرت انگیزمہم چلائی گئی،تبلیغی جماعت کے کئی ارکان کومساجدمیں بندکردیاگیا علماء نے بادل نخواستہ تمام پابندیاں ملک وقوم کے وسیع ترمفادمیں قبول کیں مگرایسے میں خصوصی طورپرسندھ حکومت اورپنچاب کے بعض شہروں میں حکومت کی طرف سے یوم علی رضی اﷲ عنہ کے موقع پرمذہبی جلوس نکالنے کی اجازت دیناکیاقوم کومذہبی طورپرتقسیم کرنے کااقدام نہیں ؟جن جلوسوں میں ایس اوپیزکی پابندی کاخیال بھی نہیں رکھا گیا،حکمرانوں کارویہ خلفشارکاباعث بن رہاہے ۔

قوم کے ساتھ سنگین مذاق کیاجارہاہے حکومتی ایوانوں سے ایک وبااورآزمائش کے دنوں میں متنازع اقدامات سمجھ سے بالاترہیں ،مذہبی جماعتوں میں اس حوالے سے شدیدتحفظات وتشویش پائی جاتی ہے دیگرمذہبی جماعتوں کااپنے قائدین پردباؤبڑھ گیاہے کہ وہ مساجداورمدارس کے حوالے سے جلدفیصلہ کریں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے کہاہے کہ حکومتی اقدامات مجبورکررہے ہیں کہ جمعۃ الوداع ، عیدالفطراورختم قرآن کی تقاریب واجتماع منعقدکیے جائیں ،مساجد کے ساتھ ایک رویہ اور بازاروں مارکیٹوں، منڈیوں کے ساتھ دوسرا رویہ قابل تشویش ہے ایسا لگ رہا ہے کہ کرونہ کو بہانہ بناکر مذہب کو نشانہ بنایا جارہا ہے،مفتی محمدتقی عثمانی نے بھی ایک بیان میں کہاہے کہ کروناکی وبادن بدن پھیل رہی ہے ان حالات میں غیرمعینہ مدت تک نہ اب کاروبارزندگی کوبالکل روکاجاسکتاہے اورنہ ہی اجتماعی عبادات کوبندرکھاجاسکتاہے ۔

قوم پہلے ہی تقسیم تھی اسے مزیدتقسیم کرنے کایہ عمل ملک وقوم کے مفادمیں نہیں ملک میں اس وقت لسانیت ،قومیت کے نام پربی ایل اے ،پی ٹیم ایم سازشوں میں مصروف ہیں ایسے میں مذہبی اورمسلکی طورپرملک وقوم کوتقسیم کرنے والے اس ملک کے خیرخواہاں نہیں ہوسکتے،ایک طرف حکمران انڈیاکے حملے کی خبریں سنارہے ہیں تودوسری ان کی طرف سے اسے اقدامات کیے جارہے ہیں کہ جس سے اتجاویکجہتی کی فضامکدرہورہی ہے ۔

وزیرستان میں مبینہ طورپردولڑکیوں کی ایک نازیباویڈمنظرعام پرآنے کے بعد انہیں غیرت کے نام پرقتل کرنے پرہنگامہ کھڑاہوگیاہے ان لڑکیوں کاتعلق جنوبی وزیرستان سے تھا اور وہ کچھ عرصہ قبل شمالی وزیرستان کے علاقے شام پلین گڑیوم منتقل ہوئی تھیں دونوں لڑکیوں کی لاشوں کو رات کے وقت ان کے خاندان والوں نے ایک نامعلوم مقام پر دفنا دیا،سابق قبائلی علاقوں میں ،جو اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں، اس سے پہلے بھی غیرت کے نام پر اس قسم کے واقعات ہوتے تھے، مگر اس وقت کے ایف سی آر قانون کے تحت قتل ہونے والوں کی رپورٹ سامنے نہیں آتی تھی۔خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد پہلی بار غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے ایف آئی آر درج ہونا شروع ہوئی ہے،مذکورہ واقعہ میں ملوث دوملزمان کوگرفتارکرلیاگیاہے

اس واقعہ کے بعد حسب معمول پی ٹی ایم نے واویلاشروع کردیاہے ،لال پرچم لہرانے اورمیراجسم میری مرضی کانعرہ لگانے والی آنٹیاں میدان میں آگئی ہیں ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ (ڈبلیو ڈی ایف)نامی تنظیم کی عہدے داروں عالیہ بخشال، عصمت شاہ جہاں، ممتاز تاجک اور نرگس خٹک نے اپنے بیان میں فوراالزام عائدکردیاکہ لڑکیوں کو قتل کرنے پر اکسانے والے علاقے کے طاقت ور لوگوں کو حکومتی پشت پناہی حاصل ہے۔حالانکہ اس واقعہ سے قبل بادشاہی خان محسودنامی شخص باقاعدہ طورپروپیگنڈہ کرکے لوگوں کولڑکیوں کے قتل پرابھارتارہاہے بتایاجاتاہے کہ بادشاہی خان نامی شخص کاتعلق پی ٹی ایم سے ہے ۔اس کی گرفتاری کاکوئی مطالبہ نہیں کررہامگرحکومت اورریاست کوفوراذمے دارٹھرایاجارہاہے ،

وزیرستان سے آنے والی اطلاعات کے مطابق جس لڑکے کے ساتھ یہ نازیبا ویڈبنائی گئی ہے وہ مبینہ طورپرپی ٹی ایم کاکارکن ہے اورجس لڑکے نے یہ ویڈیوبنائی وہ بھی لال ٹوپی والاہے حیرت ہے کہ ان لڑکوں کوگرفتارکرنے کی بجائے ان لڑکیوں کوقتل کردیاگیا اوران ملزمان کوغائب کردیاگیا ہے ،پشتون تحفظ موومنٹ کی گلالئی اسماعیل امریکہ میں بیٹھ کر چیخیں مار رہی ہے، پشتون علاقوں میں اسقاط حمل کی حوصلہ افزائی کرنیوالی آج وزیرستان کی بچیوں کے لئے رو رہی ہے۔ملالہ کے والدضیاء الدین یوسفزئی کی غیرت بھی جاگ گئی ہے ، وہ بھی شورمچارہاہے کہ کہیں اس مہم میں وہ پیچھے نہ رہے جائے ۔

محسن داوڑ بھی واویلا کررہاہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی ،اس لئے ان بچیوں کا قتل ہوا۔حالانکہ ریاست نے ذمے داری کامظاہرہ کرتے ہوئے اس واقعہ کی ایف آئی آرد رج کی ہے ملزمان کوگرفتارکیاہے مگرپی ٹی ایم پتانہیں کون سی ریاست کی بات کررہے ہیں ؟ قوم پرست ریاست مخالف تو تھے ہی مگر اب مذہب بیزاری میں بھی اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ اب تو کھلم کھلا شعائر اسلام کا مذاق بھی اڑانے لگے ہیں۔اوراس واقعہ کی آڑمیں مذہب کوتنقیدکانشانہ بناناشروع کردیاہے ۔

پی ٹی ایم نے مظلوم لڑکیوں کوانصاف دلانے کی بجائے اسے سیاسی پوائنٹ سکورننگ کے لیے استعمال کرناشروع کردیاہے حالانکہ اس واقعہ کی بڑی ذمے دارخود پی ٹی ایم ہے جس کے رہنماء علی وزیردوماہ قبل اسلام آبادمیں میراجسم میری مرضی کی مہم چلارہے تھے اورمختلف یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم معصوم نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کو اس مارچ میں شرکت کرنے پرآمادہ کررہے تھے یہ عورت مارچ دراصل بے حیائی مارچ تھا آج اسی مہم کے نتیجے میں ان لڑکیوں کاقتل ہواہے علی وزیراوران کے ساتھی ایک طرف آزادی کے نام پرقبائلی روایات کوپامال کررہے ہیں تودوسری طرف ایسے واقعات کواچھال کرملک وقوم کوتقسیم کرنے کاسبب بن رہے ہیں ۔

قبائلی بنیادی طور پر قدامت پسند ہیں، ان کی صدیوں پرانی روایات ہیں۔ وہ ہر چیز پر سمجھوتہ کرسکتے ہیں مگر اپنی روایات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ ان دولڑکیوں کی قاتل پی ٹی ایم ، گلالئی اسماعیل اور عصمت شاہ جہاں جیسی عورتیں ہیں جو این جی او فنڈ کیلئے ہر وہ قدم اٹھا سکتی ہیں جس سے بھلے پشتون اقدار تباہ ہوں یا ان کی ثقافت کی دھجیاں اڑا دی جائیں، ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اس طرح کے واقعات سے ملک وقوم پرکیااثرپڑتاہے ،ایک طرف یہ لوگ قبائلی علاقوں میں ترقی کے مخالف ہیں تعلیمی ادارے اورسڑکیں نہیں بننے دیتے ،قیام امن کے لیے فوج کے اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تودوسری جب اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں توبیرون دنیاسے فنڈزاکٹھاکرنے کے لیے آسمان سرپراٹھالیتے ہیں ،قوم کوتقسیم کرنے اوربیرون ایجنڈہ مسلط کرنے والے قوم کے خیرخواہ نہیں ایسے عناصرکو لگام ڈالناہوگی ۔
 

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 81240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.