امسال کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے لگائے گئے
سمارٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے رمضان المبارک کے پہلے اور دوسرے عشرہ میں
بازاروں میں خریداروں کا رش ویسا دیکھنے کو نہیں ملا جیسا کہ ہمارے ہاں عید
کی تیاری کے لئے دیکھا جاتا تھا البتہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیاں تو دھرلے سے
جاری تھیں کہ حکومت پاکستان نے لاک ڈاؤن کو کاغذوں اور نوٹیفکیشن میں مزید
نرم کرنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے
ملک بھر میں چھوٹی مارکیٹیں ہفتے اور اتوار کو بھی کھلی رکھنے اور شاپنگ
مالز بھی کھولنے کا حکم دے دیا ہے ،دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا
کہ کیا وبا نے حکومتوں سے وعدہ کر رکھا ہے وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آئے
گی؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں منطق بتائی جائے، کیا وبا نے حکومتوں
سے وعدہ کر رکھا ہے وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آئے گی، کیاحکومتیں ہفتہ
اتوار کو تھک جاتی ہیں، کیا ہفتہ اتوار کو سورج مغرب سے نکلتا ہے، ہم
تحریری حکم دیں گے ہفتے اور اتوارکو تمام چھوٹی مارکیٹیں کھلی رکھی جائیں
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ عید پر رش بڑھ جاتا ہے، ہفتے اور اتوار کو بھی
مارکیٹیں بند نہ کرائی جائیں، آپ نئے کپڑے نہیں پہننا چاہتے لیکن دوسرے
لینا چاہتے ہیں، بہت سے گھرانے صرف عید پر ہی نئے کپڑے پہنتے ہیں اس موقع
پر عدالت نے پورے ہفتے بھی ملک بھر کی تمام چھوٹی مارکیٹیں کھولنے کا حکم
دیا جب کہ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ایس او پیز کے مطابق شام 5 بجے
تمام مارکیٹس بند کی جائیں گی،چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ملک بھر
کے شاپنگ مالز کھولنے کا حکم دے رہے ہیں، ایس او پی پر مالز میں زیادہ بہتر
عملدرآمد ہوسکتا ہے۔عدالت نے ملک بھرکے شاپنگ مالزکھولنے کے حوالے سے صوبوں
کو وفاق سے اجازت لینے کی بھی ہدایت کردی۔دوران سماعت این ڈی ایم اے کی
رپورٹ پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اربوں روپے کی رقم ماسک اور
دیگر چھوٹی اشیا پر خرچ کی گئی ہے، کورونا کے حوالے سے اربوں روپے خرچ
ہوچکے ہیں، یہ کہاں جا رہے ہیں؟ رقم کا حساب رکھا جائے۔نمائندہ این ڈی ایم
اے نے بتایا کہ ہمارے لیے 25 ارب مختص ہوئے ہیں، یہ تمام رقم ابھی خرچ نہیں
ہوئی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 25 ارب تو آپ کو ملے ہیں، صوبوں کو الگ ملے
ہیں اور احساس پروگرام کی رقم الگ ہے۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ 500
ارب روپے کورونا مریضوں پر خرچ ہوں تو ہرمریض کروڑ پتی ہوجائے گا، یہ سارا
پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ اتنی رقم لگانے کے بعد بھی اگر 600 لوگ جاں بحق ہوگئے
تو ہماری کوششوں کا کیا فائدہ؟ کیا 25 ارب کی رقم سے آپ کثیر المنزلہ
عمارتیں بنا رہے ہیں؟ ۔ سانچ کے قارئین کرام ! 25رمضان المبارک(19مئی2020)
کو ملک بھر میں تقریباتمام مارکیٹس کھل چکی ہیں ،رمضان المبارک کا آخری
عشرہ جہاں اﷲ تعالی کی رحمتیں سمیٹنے کے لئے خشوع و خضوع کے ساتھ عبادات کا
حکم دیتا ہے وہیں حقوق اﷲ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم بھی
ملتا ہے ہمارے معاشرہ میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں پیشہ ور گداگروں
کی ٹولیاں بازاروں ،گلی محلوں ،چوراہوں،مساجدکا رْخ کرلیتی ہیں ان پیشہ ور
گداگروں کی وجہ سے مستحق اور ضرورت مند افراد مالی مدد سے محروم ہو جاتے
ہیں زکوۃ ،صدقات ،فطرانہ،خیرات بڑی تعداد میں ماہ مقدس رمضان المبارک میں
دیا جاتا ہے اِسی بات کو ذہن میں رکھ کر پیشہ ور گداگر ٹولیوں کی شکل میں
مختلف علاقوں کا رْخ ہی نہیں کرتے بلکہ بعض تو باقاعدہ دھونس زبر دستی کے
ساتھ صدقہ ،فطرانہ وصول بھی کر لیتے ہیں زکوۃ ،صدقات ،فطرانہ سے اکثر مستحق
افراد کے محروم رہ جانے کی وجہ یہ پروفیشنل گداگر بنتے ہیں جو زور زبر دستی
صاحب حثیت اور درد دل رکھنے والوں سے خیرات ، صدقات ،فطرانہ حاصل کر لیتے
ہیں ،ان پیشہ ور گداگروں میں معصوم بچے ،خواتین جن میں اکثریت نوجوان
خواتین کی دیکھنے کو ملتی ہے ،حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اکرم ﷺ لوگوں کو منبر پر صدقہ اور سوال سے بچنے کے لیے خطبہ دے رہے
تھے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر
والے ہاتھ سے مراد خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ
ہے (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب ما تجوز فیہ المسئلہ)، حضرت ابو ہریرہ سے
روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا ’’ جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال
کرتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے۔ اب چاہے تو وہ کم کرے یا زیادہ اکٹھے
کر لے (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب النھی عن المسئلہ)، حضرت انس سے روایت ہے
کہ ایک انصاری نے آپﷺ کے پاس آ کر سوال کیا آپ ﷺنے اس سے پوچھا ’’ تمہارے
گھر میں کوئی چیز ہے؟’’ وہ کہنے لگا ’’ہاں ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ ہے’’ آپﷺ
نے فرمایا : یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ’’ وہ لے آیا تو آپﷺ نے ان کو
ہاتھ میں لے کر فرمایا کون ان دونوں چیزوں کو خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا
’’ میں ایک درہم میں لیتا ہوں’’ آپ ﷺنے فرمایا ایک درہم سے زیادہ کون دیتا
ہے؟’’ اور آپ ﷺنے یہ بات دو تین بار دہرائی تو ایک آدمی کہنے لگا ’’ میں
انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں’’ آپﷺ نے دو درہم لے کر وہ چیزیں اس آدمی کو
دے دیں اب آپ ﷺنے اس انصاری کو ایک درہم دے کر فرمایا" اس کا گھر والوں کے
لیے کھانا خرید واور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ جب وہ
کلہاڑی لے آیا تو آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ٹھونکا پھر
اسے فرمایا جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یہاں لا کر بیچا کرو اور پندرہ دن کے
بعد میرے پاس آنا۔پندرہ دن میں اس شخص نے دس درہم کمائے چند درہموں کا کپڑا
خریدا اور چند کا کھانا اور آسودہ حال ہوگیا پندرہ دن بعد آپﷺ نے فرمایا یہ
تیرے لیے اس چیز سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال کرنے کی وجہ سے تیرے چہرے
پر بْرا نشان ہو(نسائی کتاب الزکوٰۃ)۔سانچ کے قارئین کرام !گداگر کاہل اور
کام چور ہونے کے ساتھ ساتھ شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ کر عزت نفس بیچ کر
کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے۔حجۃ الوداع کے موقع پر دو افراد حضور پاک ﷺ کی
خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺاس وقت صدقات تقسیم فرما رہے تھے ان دونوں نے بھی
مانگا آپ ﷺ نے ایک نظر دونوں پر ڈالی دیکھا کہ تندرست توانا اور کمانے کے
لائق ہیں آپ ﷺنے فرمایا" اگر میں چاہوں تو اس میں سے تم دونوں کو بھی دے
سکتا ہوں لیکن سن لو کہ اس میں کسی مال دار اور کمانے کے لائق تندرست و
توانا کا کوئی حصہ نہیں ہے" ( ابوداؤد)۔آپ ﷺنے فرمایا "مانگنا ایسے شخص ہی
کے لیے جائز ہے جو کنگال و فقیر ہو یا سخت پریشان حال مقروض ہو، جو لوگ ان
حالات کے بغیر مانگتے ہیں ان کے منہ پر روز قیامت گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ
ہوگی سارا چہرہ زخموں سے بھرا ہوگا "(بخاری و مسلم)۔آپ ﷺنے فرمایامانگنا
تین اشخاص کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں، ایسا محتاج جس کی بے چارگی نے اسے
زمین پر ڈال دیا ہے، ایسا شخص جس کے ذمے بھاری قرض ہے جس کے اتارنے کی اس
میں استطاعت نہیں، یا کسی خون والے کے لیے (خون بہا ادا کرنے کے لیے ) جس
کی ادائیگی اس کے لیے سخت مشقت اور تکلیف کا سبب ہو( ترمذی، ابوداؤد)۔وطن
عزیز پاکستان میں 98% مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ جس دین کے وہ
پیروکار ہیں اس کی تعلیمات میں اورآخری نبی حضرت محمد ﷺکے ارشادات میں واضح
طور پر گداگری کی ممانعت فرمائی گئی لیکن ہزاروں کی تعداد میں مسلمان
گداگرماہ رمضان کے آخری عشرہ میں اور عید الفطر کے موقع پر جگہ جگہ موجود
ہوتے ہیں حکومت پاکستان نے بارہا گداگری کے خلاف کاروائی کا عزم کیا اور
پروفیشنل گداگروں کے خلاف ڈھیلے ڈھالے سے انداز میں ایکشن بھی لیا گیالیکن
پھر بھی گداگر وں کی تعداد کم نہ ہو سکی،ان گداگروں میں اکثریت اْن بچوں کی
ہوتی ہے جو اغوا ہوجاتے ہیں پھر ان بچوں میں سے اکثر کو معذور بنا کر اس
پیشے میں دکھیل دیا جاتا ہے وطن عزیز میں گداگری اب باقاعدہ ایک پیشہ بن
چکا ہے ان پیشہ ور لوگوں نے اپنے اپنے علاقے بانٹ رکھے ہیں کوئی بھی ایک
علاقہ چھوڑ کر دوسرے کی کمائی والی جگہ پر نہیں جاسکتا اس سے انتظامیہ اور
گداگروں کے خلاف کام کرنے والے ادارے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود کاروائی سے
گریزاں نظر آتے ہیں گداگری ایکٹ کے تحت اِکا دْکا کاروائیاں کر کے انتظامیہ
مکمل خاموش ہو جاتی ہے ٭
|