صدقۂ فطر روزے دار کے لیے لغویات سے پاکی اور مسکینوں کے لیے کھانا

صدقۂ فطر دراصل اللہ تعالیٰ کے ان بندوں کی عیدی کا سامان ہےجو معاشی حالت کے اعتبار سے کمزور ہیں، تاکہ وہ بھی عید کے دن سب کے ساتھ خوشیاںمنا سکیں۔ دوسری طرف اس میں ادا کرنے والوں کے لیے اپنی کمیوں و کوتاہیوں کا کفارہ بھی ہے۔ یعنی وہ مال؛جسے مسلمان عید کے دن اپنے آپ کو پاک کرنے کی نیت سے مسلمان محتاجوں کو دیتے ہیں، جس سے روزے میں پیدا شدہ خلل؛ جیسے لغویات یا فحش باتوں وغیرہ کی تلافی مقصود ہوتی ہے، اسے صدقۂ فطر کہتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ صدقۂ فطر ایک عبادت ہے جس کی ادایگی میں اظہارِ مسرت کے ساتھ غُربا کی امداد بھی مقصود ہے اور روزے میں جو کچھ کوتاہی سرزد ہوئی ہے، اس کا کفارہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں سکراتِ موت کے وقت آسانی اور عذابِ قبر سے نجات اس میں مضمر ہے۔ جو شخص صاحبِ نصاب نہ ہو یعنی جس پر صدقۂ فطر واجب نہ ہو، وہ بھی ادا کرکے فضیلت حاصل کر سکتا ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ)
صدقۂ فطر کیا اور کیوں؟
سعید بن مسیبؒ اور عمر بن عبد العزیزؒ کہا کرتے تھے کہ آیتِ قرآنی {قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی} (الاعلیٰ) میں ’تزکی ‘سے یہی صدقۃ الفطر مراد ہے۔چناں چہ عام فقہا نے صدقۃ الفطر کو زکوۃ ہی کی طرح فرض قرار دیا ہے ، بلکہ ابن قدامہ ؒ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، البتہ چوںکہ اس کی فرضیت قرآن یا متواتر حدیث سے ثابت نہیں، اس لیے احناف اس کوا واجب قرار دیتے ہیں، نہ کہ فرض۔ غرض صدقۃ الفطر کے ضروری ہونے پر تمام ہی فقہا و محدثین کا اتفاق ہے۔ (کتاب الفتاویٰ)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہﷺنے فرمایا: صدقۂ فطر روزے دار کے لیے لغو بات چیت، گالی گلوج سے پاکی اور مسکینوں کے لیے کھانا ہے۔(ابوداؤد)یہاں فرض سے مراد صدقۂ فطر کو مقرر کرنا ہے، اس لیے کہ لغت میں فرض کے معنی مقرر کرنا آتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: فَنِصفُ مَا فَرَضتُم۔ پس اس کا آدھا، جو تم نے مقرر کیا تھا۔(بدائع الصنائع)
صدقۂ فطر کے فضیلت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺنے صدقۂ فطر کو لغو اور بیہودہ بات سے روزے کو پاک کرنے اور مسکینوں کی پرورش کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ جو شخص نمازِ عید سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرے گا وہ قبول کیا جائے گا، اور نماز کے بعد بھی ادا کرے گا تو وہ بھی ایک صدقہ ہوگا دوسرے صدقات کی مانند۔ ‏‏‏‏(ابوداؤد)
صدقۂ فطر کا حکم
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہﷺنے صدقۂ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو، غلام اور آزاد، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے (غرض یہ کہ ہر) مسلمان پر فرض کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ نماز سے نکلنے سے پہلے اسے ادا کردیا جائے۔ (بخاری)
صدقۂ فطر کی مقدار
اصل تو صدقۂ فطر کی مقدار یہی ہے کہ ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَوْ دیا جائے، جیسا کہ بخاری شریف کی مذکورہ بالا حدیث میں گزرا، البتہ بعد میں حضرات صحابہ وغیرہ نے دوسرے اناجوں میں سے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کی قیمت کے برابر دینے کو جائز قرار دیا ہے۔ جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک صاع جو یا کھجور سے موازنہ کرکے ارشاد فرمایا: میرے خیال میں گیہوں کا ایک مُد دومُدکے برابر ہے،یعنی نصف صاع گیہوں ، ایک صاع جو یا کھجور کے برابر ہے،کیوں کہ ایک صاع چار مُد کا ہوتا ہے۔(بخاری)
صدقۂ فطر واجب ہونے کی شرطیں
جس شخص میں درجِ ذیل تین شرطیں پائی جائیں اس پر صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے:(۱)مسلمان ہو، کافر پر صدقۂ فطر واجب نہیں (۲)آزاد ہو، غلام پر صدقۂ فطر واجب نہیں(۳)قرض اور اصل ضروریات اور اہل و عیال کی ضروریات کے علاوہ نصاب کا مالک ہو، لہٰذا اس شخص پر جو قرض اور حوائجِ اصلیہ سے زائد نصاب کا مالک نہ ہو، اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں ۔(دار قطنی)یعنی جس آزاد اور مکلف مسلمان کے پاس لازمی ضروریات کے علاوہ اتنی قیمت ، یا اتنی قیمت کا مال ہو، جس پر زکوٰۃ واجب ہوسکے، اس پر صدقٔہ فطر ادا کرنابھی واجب ہوتا ہے۔ صدقۂ فطر اور زکوٰۃ کے و جوب میں یہ فرق ہے کہ زکوٰۃ میں مالِ نامی ہونا لازمی ہے اورصدقٔہ فطر میں یہ ضروری نہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ اس وقت واجب ہوتی ہے، جب کہ مال پرپورا سال گزر جائے اور صدقٔہ فطر سال گزرنا شرط نہیں ۔اگر کسی کے پاس ایک شوال کی صبح صادق طلوع ہونے کے وقت اتنا مال موجودہو تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہو جائے گا، البتہ صدقٔہ فطر میں بھی زکوٰۃ کی طرح مال کا قرض اور ضرورتِ اصلیہ سے زائد ہونا ضروری ہے، ورنہ صدقٔہ فطر واجب نہیں ہوگا۔(مراقی الفلاح مع الطحطاوی )
حوائجِ اصلیہ کیا کیا ہیں؟
مندرجۂ ذیل چیزیں حوائجِ اصلیہ میں داخل ہیں:(الف) رہائشی مکان(ب) گھر کا سازوسامان (ج) پہننے کے کپڑے (د) سواری (ہ) وہ آلات و سامان جس سے وہ اپنے حصولِ معاش میں مدد لیتا ہو۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ)سونا یا چاندی یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر نقدی یا مالِ تجارت یا گھر میں روز مرہ استعمال کی چیزوں سے زاید سامان یا ان پانچوں یا ان میں سے بعض کا مجموعہ (نصاب کے بقدر) ہو تو صدقۂ فطر واجب ہے۔ تین جوڑوں سے زائد لباس اور ریڈیو اور ٹی وی جیسی خرافات انسانی حاجت میں داخل نہیں، اس لیے ان کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے گی۔(احسن الفتاویٰ)
صدقۂ فطر واجب ہونے کا وقت
صدقۂ فطر کے وجوب کے لیے فقط عید کے دن طلوعِ فجر کے وقت نصاب کا مالک ہونا شرط ہے۔(بدائع الصنائع)اور عیدالفطر کی صبح صادق طلوع ہونے کے بعد صدقٔہ فطر واجب ہوتا ہے، لہٰذا اگر کوئی طلوعِ صبحِ صادق سے پہلے مر گیا یا مالدار غریب ہوگیا، تو اس پر صدقٔہ فطر واجب نہیں ہوگا۔ نیز طلوعِ صبح صادق سے پہلے کوئی شخص مسلمان ہوا یا فقیر مال دار ہوا یا بچہ پیدا ہوا تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہوگا اور اگر کوئی طلوعِ صبح صادق کے بعد غریب ہوگیا تو اس کے ذمے سے صدقٔہ فطر ساقط نہیں ہوگااور طلوعِ صبح صادق کے بعد کوئی بچّہ پیدا ہوا یا کوئی مسلمان ہوا تو ان پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوگا۔(تاتارخانیہ)
صدقۂ فطر کس کس کی جانب سے؟
صاحبِ نصاب شخص کے لیے درجِ ذیل افراد کی جانب سےصدقۂ فطر نکالنا ضروری ہے:(۱) اپنی جانب سے(۲) اپنے چھوٹے محتاج بچّوں کی طرف سے (۳) اگر اولاد مال دار ہو تو صدقۂ فطر اُنھی کے مال سے نکالا جائے گا۔(مسلم)شوہر پر ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کی طرف سے صدقۂ فطر نکالے لیکن اگر بیوی پر احسان کرے تو جائز ہے۔ اسی طرح والد پر بڑی اور باشعور اولاد کی جانب سے صدقۂ فطر نکالنا واجب نہیں ، لیکن اگر وہ ان پر احسان کرے تو ایسا کرے جائز ہے، ہاں اگر اولاد محتاج و مجنون ہو تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر نکالنا اس پر واجب ہے۔(الجوہرۃ النيرۃ)خلاصہ یہ کہ ہر صاحبِ نصاب پر اپنی طرف سے اور جو نابالغ اولاد خود کسی نصاب کی مالک نہ ہو ان کی طرف سے ان کے والد پر صدقٔہ فطر ادا کرنا واجب ہے، اور اگر وہ بچے خود نصاب کے مالک ہوں تو ان کے مال میں سے صدقٔہ فطر ادا کیا جائےگا ۔عاقل بالغ اولاد کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا والد پر ضروری نہیں ہے، لیکن اگر وہ بچے باپ کی پرورش میں رہتے ہوں اور باپ ان کی طرف سے صدقٔہ فطر ادا کردے تو درست ہوجائے گا، البتہ اگر کوئی بچہ عقل کے اعتبار سے کمزور یا پاگل ہو تو اس کی طرف سے بھی صدقٔہ فطر ادا کیا جائے گا، اگرچہ وہ بڑی عمر کا ہو۔ بیوی کا صدقٔہ فطر شوہر پر واجب نہیںلیکن اس کی طرف سے ادا کردے تو ادا ہوجائےگا، خواہ بیوی سے اجازت لی ہو یا نہ لی ہو۔(ہندیہ،الرد المحتار علی الدر)
صدقۂ فطر ادا کرنے کا وقت
بہتر یہ ہے کہ عیدالفطر کی صبح صادق طلوع ہونے کے بعد عید کی نماز پڑھنے سے پہلے صدقٔہ فطر ادا کرے، لیکن رمضان المبارک میں بھی صدقٔہ فطر ادا کرنا بلا اختلاف درست ہے۔ اگر کسی پر صدقٔہ فطر واجب تھا لیکن کسی وجہ سے ادا نہیں کرسکا، یہاں تک کہ عیدالفطر کا دن بھی گذر گیا، تو اس سے صدقۂ فطر ساقط نہیں ہوگا، بلکہ موت سے پہلے پہلے ادا کرنا لازم ہوگا۔(ہندیہ)
اشیاے منصوصہ و غیر منصوصہ
چار چیزیں ایسی ہیں، جن کا صدقۂ فطر کے حوالہ سے نصوص میں ذکر آیا ہے، وہ حسبِ ذیل ہیں:(۱) گیہوں (۲) جَو (۳)کھجور (۴) کشمش/ مُنَقّٰی۔صدقۂ فطر کی مقدار ایک فرد کی طرف سے گیہوں یا آٹے سے آدھا صاع ، یا کھجور، منقّٰی/کشمش یا جو سے ایک صاع ہے۔ اگر کوئی شخص دیگر غلّوں سے صدقۂ فطر نکالنا چاہے تو یہ بھی جائز ہے ، لیکن اس پر ضروری ہے مقدار میں اسی حساب کو ملحوظ رکھے۔مثلاً فطرے میں چاول دینا جائز ہے ،مگر وزن اس کا مقرر نہیں بلکہ نصف صاع گندم کی جوقیمت ہو، اتنی قیمت کے چاول دے یاقیمت ہی دے دے۔ (امدادالاحکام)یعنی اشیاے منصوصہ پر غیر منصوصہ کو قیاس کرنا درست نہیں بلکہ غیر منصوص میں قیمت کا اعتبار ہوگا۔پس اگر غیر منصوص سے کوئی شخص ادا کرنا چاہے تو منصوص کی قیمت لگا کر دراہم یا دنانیر دے دے یا اتنی قیمت کی کوئی اور شے۔ (فتاویٰ محمودیہ ) حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اور حضرت ابو سعید خدریؓوغیرہ صدقۂ فطر کھجور و کشمش سے ادا کیا کیا کرتے تھے۔(بخاری)
صدقۂ فطر کے مصارف
صدقۂ فطر کے مصارف بعینہٖ وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں، اور ارشادِ ربانی ہے: إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ، الایۃ۔(التوبہ) اس لیے الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ان آٹھوں اقسام پر اسے تقسیم کرنا جائز ہے جن میں مال کی زکوٰۃ صرف کی جاتی ہے۔
امام، مدرسین و ملازمین کو دینا
اکثر جگہ امامِ مسجد صدقۂ فطر کو اپنا حق سمجھتا ہے اور دینے والے یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ نماز پڑھاتا ہے ، اس صورت میں امامت کا معاوضہ ہو جاتا ہے، اس لیے امام کو نہیں دینا چاہیے۔(فتاویٰ محمودیہ)البتہ اگر تنخواہ کے علاوہ دیا جاتاہے اور امام غریب، مستحقِ زکوٰۃ وصدقات ہے تو ان کو یہ سب دینا درست رہے گا، ہاں اگر غریب، مستحقِ زکوٰۃ نہ ہو تو ان کو یہ صدقات لینا درست نہیں رہے گا۔ ان کے اندر ونی حالات سے اس کا اندازہ ہو سکتا ہے اور جس صورت میں زکوٰۃ و صدقاتِ واجبہ کا ان کو دینا ولینا درست رہے گا، اس صورت میں ان کے پیچھے نماز بلاکراہت صحیح ودرست رہے گی، ورنہ بکراہت ادا ہوگی۔(نظام الفتاویٰ)
صدقۂ فطر کی قضا
حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ صدقۂ فطر کے وجوب میںتوسیع ہے، پوری عمر میں جب بھی ادا کرے گا ادا ہی ہوگا، قضا نہ ہوگا، لیکن مستحب یہ ہے کہ عیدگاہ جانے سے پہلے ادا کر دے اور اگر مر گیا اور اس کے وارث نے ادا کر دیا تو جائز ہے۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ) البتہ اس وقت بھی ادا ہی شمار ہوگا، قضا نہیں کہیں گے۔ (فتاویٰ محمودیہ)
٭٭٭٭
 

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347387 views (M.A., Journalist).. View More