کورونا وائرس اور حج بیت اﷲ

سعودی عرب کی مساجد میں نماز تراویح کی ادائیگی پر پابندی کے دوران عید الفطر کی تعطیلات میں 24 گھنٹے کرفیو کے نفاذ کا اعلان کردیا گیا ہے۔جس سے رواں سال حج کے حوالے سے صورتحال غیر واضح ہو تی جا رہی ہے۔ عید الفطر کی 5 روزہ تعطیلات (23 مئی سے 27 مئی تک) ریاست بھر میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ رہے گا۔یہ بھی واضح کیاگیا ہے کہ مکہ مکرمہ کے علاوہ رمضان کے اختتام تک ریاست کے تمام شہروں اور علاقوں میں لوگوں کو صبح 9 سے شام 5 بجے کے درمیان آزادانہ طور پر نقل مکانی کرنے کی اجازت ہو گی۔ مگران 8 گھنٹوں کے دوران لوگوں کو احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ مکہ مکرمہ میں مکمل کرفیو نافذ رہے گا۔ لوگوں سے سماجی فاصلے سے متعلق اقدامات پر عمل پیرا ہونے اور 5 یا زائد افراد کے اجتماعات پر پابندی کا کہا گیا ہے۔ سعودی حکام کے مطابق کورونا وائرس کے مریضوں میں 21 فیصد خواتین ہیں ، 89 فیصد بالغ، 8 فیصد بچے اور 3 فیصد 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگ ہیں۔دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 48 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔سوا تین لاکھ کے قریب لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ سعودی عرب میں 42 ہزار سے زائد افراد وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ 15 ہزار سے زائد مریض صحتیاب اور 264 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ دو روز قبل سعودی عرب میں ایک ہی دن میں ایک ہزار 912 ریکارڈ نئے کیسز سامنے آئے تھے۔تصدیق شدہ نئے کیسوں میں سے 35 فیصد سعودی شہری تھے۔ 24 مارچ کو سعودی عرب میں وائرس سے پہلی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی۔کورونا وائرس کے عدم پھیلاؤ کے لیے اس سال رمضان المبارک کے دوران مساجد میں نماز تراویح کی اجازت نہیں دی گئی۔وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے حفاظتی تدابیر کے طور پر لوگوں کو نماز تراویح گھروں میں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ۔مساجد میں نمازوں کی ادائیگی اس وقت تک معطل رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے کہ جب تک کورونا وائرس کی وبا کا اختتام نہیں ہوجاتا۔اب انڈونیشیا نے بھی سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وائرس کے تناظر میں سالانہ اسلامی عبادت حج سے متعلق اجازت دینے کا فیصلہ کرے۔ گزشتہ برس دنیا بھر سے تقریباً 25 لاکھ سے زائد عازمین نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب کا سفر کیا تھا۔ حج ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ کرنا فرض ہے۔تاہم رواں سال صورتحال کافی مختلف ہے کیونکہ کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کو متاثر کیا ہوا ہے اور اسی وجہ سے مارچ کے مہینے میں عمرے کو معطل کردیا گیا ۔ سعودی عرب نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ کووڈ 19 کے تناظر میں عارضی طور پر اپنی تیاریوں کو مؤخر کردیں۔

سعودی حکام نے ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا کہ آیا وہ رواں سال حج کی اجازت دیں گے یا نہیں۔ رواں سال حج جولائی کے آخر میں ہوگا۔ اس سلسلے میں رمضان المبارک کے ختم ہونے سے قبل فیصلہ ہونا چاہیے۔جس کا اعلان ابھی تک نہیں کیا گیا۔توقع ہے کہ حج ہونے یا منسوخ ہونے سے متعلق باضاطبہ فیصلے کا اعلان جلد کیا جائے گا۔ انڈونیشیا دنیا کی سب سے بڑا مسلم آبادی والا ملک ہے اور اس کے کم از کم 2 لاکھ 31 ہزار شہری حج کے لیے رجسٹرڈ کرواتے ہیں جو کسی بھی ملک کی جانب سے سب سے بڑی نمائندگی ہے۔ انڈونیشیا نے سعودی سفری حکام کے ساتھ رہائش، نقل و حرکت اور دیگر معاہدوں کو روک لیا ہے۔

ابھی تک کسی ملک نے کوئی معاہدے پر دستخط یا سعودی عرب میں حج سروسز کے لیے بیعانہ ادا نہیں کیا۔ حج ریاست سعودی عرب کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی وبا کی وجہ سے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اجتماعی عبادات کی ادائیگی میں شدید مشکلات درپیش ہیں اور تقریباً تمام مذاہب کے پیروکاروں نے اجتماعی عبادات کو عارضی طور پر معطل کردیا ہے۔دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح مسلمانوں کی اجتماعی عبادات کو بھی عارضی طور پر محدود کردیا گیا ہے، سعودی عرب نے کورونا وائرس کی وجہ سے عمرے کی ادائیگی پر عارضی پابندی لگا رکھی ہے۔ دنیا بھر میں اسلامی ممالک نے نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی عارضی طور پر جزوی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ دنیا بھر کے لاکھوں مسلمان جلد ہی شروع ہونے والے فریضہ حج کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں، کیوں کہ تاحال سعودی عرب کی حکومت نے کسی بھی ملک کے ساتھ حج کا معاہدہ نہیں کیا۔سعودی عرب کی حکومت ہر سال حج کا سیزن شروع ہونے سے قبل دنیا کے تمام ممالک سے حج انتظامات سے متعلق معاہدے کرتی ہے اور یہ معاہدے اسلامی مہینے ماہ رمضان سے ایک ماہ قبل ہی کردئیے جاتے ہیں، مگر اس بار کورونا وائرس کی وجہ سے مذکورہ معاہدے نہیں ہو سکے۔ سعودی حکومت نے گزشتہ ماہ تمام ممالک کو فی الحال حج معاہدے نہ کرنے کی درخواست کی ، جس کے بعد دنیا بھر کے لاکھوں مسلمان پریشان ہیں کہ اس بار وہ فریضہ حج ادا کر سکیں گے یا نہیں؟یہ وہ سوال ہے جو دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے ذہن میں اٹھ رہا ہے اور تقریباً دنیا بھر کے 25 لاکھ کے قریب افراد اس حوالے سے بہت پریشان ہیں، کیوں کہ تقریباً ہر سال 22 سے 25 لاکھ مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں۔اس سال حج کی ادائیگی کی اجازت ہوگی یا نہیں، اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ تاحال سعودی حکومت نے بھی اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی اور ساتھ ہی سعودی عرب میں بھی کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔سعودی حکومت کی جانب سے تمام ممالک کو حج معاہدے نہ کرنے کی درخواست کے بعد تاحال یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اس سال مسلمانوں کو حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب آنے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں؟۔ سعودی عرب نے عمرے کو عارضی طور پر معطل کر رکھا ہے۔ ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ حکومت نے گزشتہ ماہ 4 سے 5 اپریل کو ملک کے متعدد علاقوں میں کرفیو بھی نافذ کردیا تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں پر کورونا سے متعلق معاملات تاحال نازک ہیں۔ اگر آئندہ چند ہفتوں میں کورونا وائرس کی وبا پر قابو پالیا گیا تو سعودی عرب کی حکومت فریضہ حج کی اجازت دے سکتی ہے۔ اگر معاملات پر قابو نہ پایا جا سکا تو بد قسمتی کے ساتھ اس سال لاکھوں مسلمان فریضہ حج ادا نہیں کر سکیں گے اور اگر ایسا ہوا تو ایسا پہلی بار نہیں ہوگا بلکہ اس سے قبل بھی ایسا ہو چکا ہے۔ ماضی میں بھی جنگوں اور بیماریوں کی وجہ سے کئی بار حج کو منسوخ کیا جا چکا ہے اور سب سے پہلے 930 ہجری میں حج کو ایک جنگی حملے کے بعد منسوخ کیے جانے کی تاریخ ملتی ہے۔ 930 ہجری میں خلافت عباسیہ کے دور میں ایک فرقے کی جانب سے حج کی ادائیگی کے دوران حاجیوں پر حملہ کرنے کے بعد حج کو آئندہ 10 سال تک منسوخ کردیا گیا تھا۔ 38 سال بعد 968 میں بھی وبا کے پھوٹ پڑنے کی وجہ سے حج کو منسوخ کردیا گیا تھا جب کہ سال ایک ہزار سے لے کر 1030 تک کے درمیان بھی حج کی ادائیگی کے لیے محدود ممالک کے لوگ پہنچے تھے، کیوں اسی عرصے کے دوران متعدد ممالک میں قحط اور بیماریاں پھوٹ پڑی تھیں۔اور تقریباً نصف صدی بعد 1099 اور 1100 کے آغاز میں ایک بار پھر فریضہ حج کی ادائیگی میں خلل پڑا، کیوں کہ اس وقت مسلمان ممالک میں جنگوں کا آغاز ہوا چکا تھا اور اسی وقت ہی صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا جو تقریباً 200 سال تک رہا اور اس دوران کئی بار حج کو منسوخ کیا گیا۔ صلیبی جنگوں کے دوران مکمل طور پر حج کو منسوخ نہیں کیا گیا۔ کشیدگی کی وجہ سے کئی مسلمان ممالک سے لوگ فریضے کی ادائیگی کے لیے نہیں جا سکے تھے۔اسی طرح صلیبی جنگوں کے اختتام کے بعد بھی کشیدہ حالات، بیماریوں، قحط سالی اور جنگوں کی وجہ سے بھی حج کو منسوخ کیا گیا ۔ کئی ممالک سے عازمین فریضے کی ادائیگی کے لیے مقدس مقامات کی جانب رخ نہ کر سکے۔ مصر کے مذہبی علما نے تاریخ اسلام کی روشنی میں بتایا کہ حکام کو سیاسی یا حفاظتی بنیادوں پر حج کو منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے اور ایسا غیر اسلامی نہیں ہوگا۔ اگر سعودی حکومت حج کو منسوخ کردیتی ہے تو غیر مذہبی نہیں ہوگا اور ایسے احکامات موجود ہیں جن میں انسانوں کو کہا گیا ہے کہ خود کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ اگر اس سال حج کی اجازت نہ دی گئی تو اگرچہ یہ سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا، تاہم اسلامی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہوگا بلکہ اس سے قبل بھی متعدد بار فریضہ حج کو منسوخ کیا جا چکا ہے۔سعودی عرب کے 1930 میں قیام سے قبل جنگوں اور بیماریوں کی وجوہات کی بنا پر متعدد بار فریضہ حج کو منسوخ کیا گیا۔ متعدد بار مکمل طور حج پر پابندی عائد کرنے کے بجائے حج کے بعض رکن ادا کرنے پر پابندی عائد کی گئی۔آخری بار حج کے کچھ ارکان کو بیماریوں اور وباؤں کی وجہ سے 1883 میں منسوخ کردیا گیا تھا۔ اس سال مکمل طور پر حج پر پابندی نہیں تھی۔ 1918 میں آنے والی خطرناک وبا اسپینش فلو کے دوران بھی فریضہ حج پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ اس وبا سے دنیا بھر میں تقریباً 5 کروڑ انسان لقمہ اجل بنے ۔اگر اس سال 2020 میں وبا کے باعث سعودی حکومت فریضہ حج کی اجازت نہیں دیتی تو گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ لاکھوں مسلمان فریضہ کی ادا ئیگی سے قاصر ہوں گے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 556270 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More