آجکل پرائیویٹ سکولوں کے حوالے سے کچھ ایشوز سننے کو مل
رہے ہیں جن میں والدین کو سکول انتطامیہ سے شکایت ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے
اپریل و مئی کے مہینوں کیلیئے دی گئی فیس میں گنجائش نہیں دے رہے ہیں
پرائیویٹ سکولوں کے ٹیچرز کو اپنی انتطامیہ سے شکایت ہے کہ ان کو تنخواہیں
نہیں دی جا رہی ہیں جبکہ سکول انتظامیہ کو شکایت ہے کہ والدین فیسوں کے
ھوالے سے ان سے تعاون نہیں کر رہے ہیں سبھی اپنی اپنی جہگہ پرٹھیک ہیں جہاں
تک تعلق ہے سکول انتطامیہ اپنے ٹیچرز کو تنخواہیں نہ دینے کا تو اس حوالے
سے سکول انتطامیہ اپنے ٹیچرز کے ساتھ زیادتی برت رہی ہے ان کو اس بات کا
خیال کرنا چاہیئے کہ بعضٹیچرز کے گھروں کے چولہوں کا انحصار صرف انکو ملنے
والی تنخواہوں پر ہے کیا کسیبھی ادارے میں کام کرنے والے ملازمین کو چھٹیوں
کی تنخواہیں نہیں دی جاتی ہیں ہر ادارے میں چھتیوں کی گنجائش موجود ہے اور
خاص طور پر موجودہ وقت میں جوچھٹیاں دی گئی ہیں وہ تو ہنگامی حالات کی وجہ
سے ہیں اگر پرائیویٹ سکولز انتظامیہ چھٹیوں کی فیسیں بچوں سے لے رہی ہے تو
اپنے ٹیچرز کو تنخواہیں ادا کرنا بھی ان کی اخلاقی و قانونی زمہ داری بنتی
ہے جہاں پر پورا سال سکول انتطامیہ پیسے کماتی رہی ہے وہاں پر اگر چند ماہ
کیلیئے اپنے پاس سے ہی خرچ کرنے پڑ گئے ہیں تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے
اپنے ٹیچرز کو تنخواہیں دینے سے ان پر کوئی بھی بہت بڑی مصیبت نہیں آ ٹپکے
گی ایسے حالات سے دوچار افراد کی مد د کرنا تو ویسے بھی ثواب کا کام ہے
پرائیویٹ سکول انتطامیہ اس ثواب سے کیوں محروم ہونے جا رہی ہے پرائیویٹ
سکول انتطامیہ کو چاہیئے کہ وہ اپنے ٹیچرز سے اس طرح کی زیادتی روا نہ
رکھیں اور اپنے اداروں کے غریب ٹیچرز کو ان کی تنخواہیں ادا کریں اس عمل سے
الﷲ پاک کی زات بھی ان سے خوش ہو گی ا اور جب غریب ٹیچرز کے گھروں کے چولہے
جلیں گئے تو وہ اور ان کے بچے بھی سکول انتظامیہ کو دعائیں گئے اور وہ اپنی
انتظامیہ کے کردار سے متاثر ہو کر اور زیادہ محنت کریں گئے ہاں اگر سکول
انتطامیہ کو کوئی بڑی مجبوری درپیش ہے تو وہ بجائے اس کے ہر ٹیچر سے الجھیں
یا ان کو کام سے فارغ کرنے کی دھمکیاں دیں بلکہ ان کو آرام و پیار سے اپنے
پاس بٹھا کر ان کے ساتھ اپنی مجبوری بیان کریں اور ان کو اس بات پر متفق
کریں کہ ابھی ان کے حالات تھوڑے درست نہیں ہیں جونہی ان کے مالی معاملات
کچھ بہتر ہوئے تو ان کو ان کی تنخواہیں ادا کر دی جائیں گی دوسری طرف ٹیچرز
کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے سکولوں کی انتظامیہ کو بدنام کرنے
اور ان سے پھڈا ڈالنے کے بجائے ان کے ساتھ بیٹھ کر اپنی مجبوری ظاہر کریں
اور ان کو اپنی تنخواہوں کی ادائیگی کے حوالے سے قائل کریں ان کے ساتھ
افہام و تفہیم سے معاملات چلائیں تعلقات خراب کرنے سے مکمل گریز کریں سکول
انتظامیہ بھی انسان ہوتی ہے وہ بھی اتنے طالم نہیں ہیں کہ کسی ٹیچر کو اس
کی تنخواہ ادا نہ کریں وہ ضرور ان کی تنخواہیں ادا کریں گئے وہ بھی درد دل
رکھتے ہیں سکول انتطامیہ جب اپنے ٹیچرز کے ساتھ معاملات خراب نہیں کرے گی
تو اس کو اپنے سکول میں زیر تعلیم بچوں کے والدین کی طرف سے بھی اچھا
رسپانس ملے گا دوسری طرف بہت سے والدین کو اس حوالے سے شکایات ہیں کہ سکول
انتطامیہ گورنمنٹ کی طرف سے ماہ اپریل اور مئی کے دوران دی گئی فیسوں میں
گنجائش کو پس پشت ڈال رہے ہیں اور والدین اور طلبہ و طالبات سے فیسیں کم
نہیں لے رہے ہیں پوری فیس کا مطالبہ کر رہے ہیں سکول انتطامیہ کو چاہیئے کہ
فیسوں کے حوالے سے گورنمنٹ نے جو ہدایات جاری کر رکھی ہیں ان پر عملدرآمد
یقینی بنائیں والدین کو بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ ان کے بچے جس سکول میں
زیر تعلیم ہیں اس سکول کی انتظامیہ سے الجھنیں سے پرہیز کریں سکول انتظامیہ
کے پاس جا کر تسلی سے ان کے ساتھ بات چیت کریں اور فیسوں کے حوالے سے
گورنمنٹ نے جو ہدایات جاری کر رکھی ہیں ان پر عمل پیرا ہونے کیلیئے ان کو
قائل کریں ان کو دھمکیاں یا ان کے خلاف کسی بھی دیگر کاروائی یا شکایت سے
گریز کریں سکول انتظامیہ کوبھی گورنمنٹ کی ہدایات پر عمل پیرا کرنا چاہیئے
اگر ان دو ماہ کیلیئے فیسوں میں تھوڑی کمی کر دیں تو کوئی حرج نہ ہو گا
باقی ماہ فیسیں پوری ملتی رہیں گی ان سے وہ اپنے گھاٹے پورے کر سکتے ہیں
لیکن کم از کم مشکل کے ان دو ماہ کیلیئے ضرور گنجائش دیں غریب والدین کے
ساتھ بھر پور تعاون جاری رکھیں ان کواپنا گرویدہ بنائیں کیوں کہ ان کے بچے
صرف ایک د وماہ کیلیئے نہیں بلکہ ایک لمبے عرصے تک ان کے سکولوں میں زیر
تعلیم رہیں گئے ان چھوٹے موٹے مسائل کو الجھائیں نہ بلکہ ان کو آسان بناتے
ہوئے ان کے حل کی طرف توجہ دی جائے بہت تھوڑے وقت کی بات ہے پھر تمام حالات
معمول پر آ جائیں گئے امید ہے پرائیویٹ سکولز انتطامیہ معاملات کو بہتری کی
جانب لے جانے میں کامیاب ہو جائے گی
|