دُنیا ترقی کرتے کرتے چاند پر پہنچنے کا دعویٰ کرتی
ہے۔مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہودی نے مسلمان کی سائنسی تحقیق پر
برجمان ہو کر میڈیکل کی ڈگر ی دینا شروع کی، جسے ایم بی بی ایس کہا جاتا ہے
اور مسلم سائنسدانوں اور ان کی کتب کو نشان ِ عبرت بنا دیاگیا۔انسان نے خود
کو بچانے اور انسان کو ہی تباہ کرنے کے لیے بے پناہ مہلک ہتھیار ایجاد کیئے،
تو ثابت ہوتا ہے کہ انسان انسان کا ازل سے ہی دشمن چلا آرہا ہے خواہ دُنیا
کی سلجھی ہوئی کوئی قوم ہو یا جنگل کے قانون والی، ذہنی کیفیت ایک ہی ہے،
اپنے حقوق سے تجاوز کرتے ہوئے دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا۔ جراثیمی،
کیمیکل والے ہتھیار وں کی ایجاد ایک عجیب ایجاد ہے۔ دسمبر 2019میں کورونا
جنم لیتا ہے یا اس کو ایجاد کیا جاتاہے لیکن کورونا نے پوری دُنیا کو ہلا
کر رکھ دیا،کہیں جعلی تو کہیں اصلی کہیں ڈالر کا لالچ تو کہیں امداد کا
لالچ، عام محافل میں زیر بحث ہے،کورونا کی بدولت تمام دُنیا میں SOPs مرتب
ہو گئیں، جن ممالک نے کورونا کو تسلیم نہیں کیا وہاں زندگی معمول کے مطابق
گزر رہی ہےSOPs اور لاک ڈاؤن نے عجیب صورت پیدا کر دی ہے، جس سے عام آدمی
کی زندگی مفلوج ہو گئی۔ اگر کوئی SOPsتیار نہ ہو سکیں تو قوم کے مستقبل کے
لیے یعنی آج کا طالب علم،کورونا نے نہ صرف بچوں کا مستقبل تباہ کردیا بلکہ
پوری کی پوری قوم تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا۔ تعلیم سے وابستہ مخلص اور
مجبور لوگ کورونا کو کچھ اس طرح کہتے ہیں، کورونا تیرا ککھ نہ ریوے، تینوں
کیڑے پین، رب تینو نرینہ اولاد توں محروم رکھے، تواپنی موت اپے مرجاویں،
تیرے بچیاں دا وی مستقبل تباہ ہو وے، جیویں ساڈی قوم دے بچیاں دا کیتا،
مرجان جوگیا،ساڈا کھلواڑ کیتا تیرا وی ہووے، تیری وی اولاد چوں کوئی ڈاکٹر
یا انجینئر نہ بنے، تینوں ہور کیڑے پین، تیری جد مک جاوے، تیرے پچھے رون
والا کوئی نہ ہووے، تینڈا وی سنگھ خشک ہووے، تیرا ایمون سسٹم وی کم نہ کرے،
تیرے وزیر مشیر وی ساڈے جئے ہون جناں قوم دے مستقبل نوں ہنیریاں چ سٹ دِتا،
جا تیرا وی ایکسیڈنٹ ہووے، ڈاکٹر تیری اولاد نوں کورونا دس کے قرنطینہ سنٹر
لے جان، توں پچھے بیٹھا ریویں، تیرے نیڑے کوئی نہ لگے، ساڈے وانگوں
کلکاریاں ماریں۔ مرن جوگیا۔پاکستا ن میں سب مراکز کو ایک SOPکے چورن دے کر
کھول دیا، بڑے بڑے تجارتی مراکز پریشر میں آکر کھول دیئے گئے، کیا بازاروں،
دکانوں، اور شاپنگ مراکز میں ان مرتب کردہ SOPsپر کوئی عمل درآمدنظر
آیا،نہیں بالکل نہیں، ٹرانسپورٹ کھولنے کا کہا گیا لیکن ٹرانسپورٹرز نے
اپنے مطالبات کے مطابق ٹرانسپورٹ کھولی، ملز مالکان کا سٹاک شدہ مال سیل
آؤٹ ہو گیا، مارا گیا ریٹیلر،پاکستان میں سرکاری ادارے کھولنے پر زور اس
لیے نہیں دیا جار ہا ہے، کیونکہ ان کو بغیرکچھ کیے وقت پر سیلری مل رہی ہے۔
سرکاری سکول ٹیچرز اوسطاً۰۸ فیصد ایسے ہیں جو سکول کھولنے یا بچوں کے بہتر
مستقبل کے حق نہیں، پاکستان میں ایک ایساطبقہ بھی ہے جو کمینے کورونا کی
وجہ سے بُری طرح متاثر ہو رہا ہے، وہ ہے پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر، ایک تو یہ
ریاست کے ساتھ شر ح خواندگی میں اضافہ کرنے اوربے روزگاری کو ختم کرنے کے
ساتھ ایک باشعور قوم تیار کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے، تعلیمی سسٹم
میں وہ چھوٹے اور عام سکول جو گلی محلوں میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں،
بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں، ان کے چولہے ٹھنڈے ہو چکے ہیں، والدین فیسیں دے
نہیں رہے، حکومت ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا رویہ رکھے ہوئے ہے، جن
پرائیویٹ سکول میں ان کے بچے پڑھتے ہیں شاید تمام سکولوں کو اسی طرز کا
سمجھتے ہیں، لیکن افسوس ہوتا ہے حکومت وقت ایک ایسے طبقے کی طرف سے آنکھیں
بند کیے ہوئے ہے جو نہ تو بھیک مانگ سکتا ہے اور نہ ہی کسی لائن میں کھڑے
ہو کر راشن لے سکتا ہے، احساس پروگرام ان پر لاگو نہیں جبکہ اس پروگرام میں
بیوروکریٹس کی بیگمات بھی آتی ہیں، خاص طور پر وہ سکول اونرز جن کی بلڈنگ
کرایہ پر ہے، وہ بہت بڑی مشکل کا شکار نظر آرہے ہیں، اگر حکومت وقت نے ان
کے لیے کچھ نہ کیا تو یہ اپنی موت آپ مر جائیں جنہیں بعد میں کورونا کیسا
کمینہ کہہ کر گھر والو ں سے دور لاوارثوں کی طرح دفن کر دیا جائے گا، ان کی
آواز سننے اور بلند کرنے والا کوئی موجود نہیں، اے وقت کے حکمرانوں دُنیا
میں تو چھٹکار ا حاصل کر لوگے لیکن رب العزت کی عدالت میں یہ ساری
ناانصافیاں منظر عام پر ہوں گی، غریب کا ہاتھ تمہارے گریبانوں پر ہو گا۔
بچو اس برے وقت سے، ایسے تعلیم یافتہ اور خاموش طبقہ کے لیے کوئی
SOPsتیارکرتے سکول کھولنے کی اجازت دی جائے اور ان کی زندگی کی ڈوبتی ہوئی
ناؤ کو سہار ا دو۔ کورونا کیسا کمینہ ہے جو SOPsمرتب کرنے نہیں دے رہا۔
اللہ رب العز ت ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے
کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
|