ڈاکٹر غلام شبیر رانا
بر صغیر میں عہد سلاطین میں ارد و زبان اور دکنی زبان و ادب اور فنون لطیفہ
میں جذبہ ٔ انسانیت نوازی ،خلوص ،دردمندی اورایثارکے ایسے دور کا آغاز ہوا
جس کی پہلے کوئی مثال موجود نہ تھی ۔شعر و ادب میں تعمیر و ترقی کے غلغلے
بلند ہوئے ۔ ہر سُوانسانیت کے وقار و سر بلندی ،بے لوث محبت اوربے باک
صداقت کے چرچے عام تھے۔دکن سے شمالی ہند کی جانب ولی محمد ولی ؔ نے جس ادبی
سفر کا آغاز کیا وہ اس خطے میں مقیم ذوق سلیم سے متمتع باشندوں کے قلوب کو
مرکزِ مہر و وفا کرنے کا وسیلہ بن گیا ۔ جہاں تک مطالعۂ احوال اور تحقیق کا
تعلق ہے ولی محمد ولی ؔ کے عرصۂ حیات پر بھی محققین میں اتفاق نہیں ہو
سکا۔رام بابو سکسینہ نے کے مطابق ولی محمد ولی ؔ چھہتر سال( 1668-1744 )
زندہ رہا ۔وکی پیڈیا میں ولی محمد ولیؔ کاعرصۂ حیات ( 1667-1707) ہے ۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے تاریخ اد ب اُردو جلد اول صفحہ 539پر ولی محمد ولیؔ کی
تاریخ وفات 1720ء لکھی ہے ۔اپنے دامن میں یقین،عزم،محبت ،وفا،اتفاق،دوستی،یگانگت،خلوص،مروّت
اورعجزو انکسار کے گل ہائے رنگ رنگ لیے ولی محمد ولی ؔ جب پہلی مرتبہ مغل
بادشاہ اورنگ زیب کے عہد حکومت میں 1700 ء میں دہلی پہنچا تواس کے ذوقِ
سلیم کی مظہر تخلیقی فعالیت سے اس علاقے کے قارئین ادب کا قریہ ٔ جاں مہک
اُٹھا ۔اردو زبان افکارِ تازہ سے مزین نئی فکر ی منہاج اور مضبوط و مستحکم
بنیاد عطا کرنے کی بنا پر ولی محمد ولی ؔ کو اُردو زبان کا چاسر (
1343-1400: Geoffrey Chaucer )بھی کہا جاتاہے ۔ ولی محمد ولیؔ سے پہلے دکنی
شاعری میں مہ جبیں محبوب کے حسن و جمال کا احوال ،عشوہ و غمزہ و ادا کی
چال،جنس و جنوں کے خیال ،پیمانِ وفا،وعدہ شکنی ،محسن کُشی ،ہر جائی پن ،وصل
کے لمحات ،رقیب کے مناقشات اور ہجر و فراق کے وبال جیسے قلبی و روحانی
کیفیات کے مظہر تجربات سے تہی خارجی نوعیت کے موضوعات عام تھے۔ دکن سے دہلی
کی جانب ولی محمد ولی ؔ کے یہ یادگار سفر( 1720&1722) وسیلہ ٔ ظفر ثابت
ہوئے ۔ان کے بعد سر زمین دکن اور شمالی ہند کے فکری فاصلے کم ہو گئے
اورمعتبر ربط کو پروان چڑھانے میں مدد ملی۔دکنی زبان کے شعر و ادب میں
سراپا نگاری،حیات و کائنات ،قلب و روح ،ارضیت و مادیت ،انسانیت و روحانیت
اور جذبات و احساسات کے موضوع پر جو مسحور کن انداز جلوہ گر ہے وہ فارسی
ادب کی خوشہ چینی کا ثمر ہے ۔ طویل عرصہ تک اس خطے میں دکنی زبان کے ادب
میں عشق کو زندگی کے جملہ معاملات میں محوری حیثیت حاصل رہی ہے۔دکنی زبان
کے تخلیق کاروں نے عشق کو عملی زندگی کی ایک اٹل اور نا گزیر صداقت کے رُوپ
میں دیکھا اور خرد کی گتھیوں کو سلجھانے کے سلسلے میں بالعموم جذبۂ عشق ہی
پر انحصار کیا ۔اُن کا خیال تھا کہ رنگ ،خوشبواورحسن و خوبی کے تمام
استعارے عشق ہی کے مرہون منت ہیں ۔دہلی پہنچنے کے بعد ولی محمد ولی ؔ نے
دہلی میں مقیم اُس عہد کے معمر ادیب اور فارسی زبان کے شاعر شاہ سعداﷲ گلشن
سے ملاقات کی ۔شاہ سعداﷲ گلشن نے ولی محمد ولیؔ کو فارسی زبان کی کلاسیکی
شاعری سے استفادہ کرنے اور فارسی شاعری کے مضامین کو اپنے شعری اسلوب میں
جگہ دینے کا مشورہ دیا ۔قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ولی محمد ولی ؔ نے اس
مشورے پر عمل کیا اور اپنے اسلوب میں حقیقت اور مجاز کے امتزاج سے نیا رنگ
اور نیا آ ہنگ سامنے لانے کی سعی کی ۔ اس منفرد تجربے سے اس عہد کی شاعری
کو غم ِ جہاں ،غمِ یار اور غمِ روزگار جیسے وسیع موضوعات پر اظہار خیال کا
موقع میسر آیا۔تخلیق کار کے دِل پر اُترنے والے سبھی موسموں کی مرقع نگاری
سے اس شاعری نے سحر نگاری کی صورت ختیار کر لی ۔ ولی محمد ولی ؔ کو سیر و
سیاحت سے گہری دلچسپی تھی اس لیے اس نے دہلی کے سفر کے بعد برہان پور ،احمدآباد،گجرات
اور بر صغیر کے کئی اہم تاریخی مقامات کی سیاحت بھی کی ۔سیرو سیاحت کایہ
شوق ولی ؔ کی ادبی فعالیتوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوا ۔ اپنے اس شوق کے
بارے میں اورنگ آباد میں جنم لینے والے ولی محمد ولیؔ نے کہا تھا :
ع : ہوا ہے سیر کا مشتاق بے تابی سوں من میرا
جہاں گردی اور جہاں بینی کے اِس شوق نے ولی محمد ولی ؔ کو نئے ماحول سے آ
شنا کیا اور اس کے معجز نما اثر سے ولی محمد ولی ؔ کی شخصیت میں وسعت نظر
،و سیع القلبی،خلوص و مروّت سے مزین ہمہ گیر تعلقات اور انسانی ہمدردی کے
جذبات کو مزید نمو ملی ۔دورانِ سفر متعدد مقامات پر اس حساس شاعر کا واسطہ
متعدد مسافر نواز ،مخلص ،مونس اور ادب پرور احباب سے پڑا ۔اس کے اثرات ولی
محمد ولی ؔ کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ تخلیق ادب کے والے سے ولی محمد ولی ؔ
کے لیے یہ سفربہت مفید ثابت ہوئے ۔کئی تراکیب ،محاورات ،ضرب الامثال
،تشبیہات ،استعارات اور علامات کاتعلق سفر کے تجربات سے ہے ۔ان میں سفر
،ہجرت،وصل ،غربت ،جدائی ،یادیں ،فراق،کرب ،راحت،رخصت،گلگشتِ چمن ،موجِ دریا
،سیر صحرا،موج رفتار اور منزل شامل ہیں ۔ان سب کو ایک ایسے نفسیاتی کُل کے
رُوپ میں دیکھا جا سکتا ہے جس سے لا شعور کی حرکت و حرارت کو مہمیز و متشکل
کرنے میں مدد ملتی ہے ۔دہلی شہر سے والہانہ محبت اورقلبی وابستگی کی جو
کیفیت ولی محمد ولی ؔ کی شاعری میں موجود ہے وہ اسی سفر کاکرشمہ ہے ۔ اکثر
محققین کاخیال ہے کہ ولی محمد ولیؔ کے دِل میں دہلی کی محبت رچ بس گئی تھی
۔
ممتا ماہر تعلیم اور محققسیدہ جعفر نے ولی محمد ولی ؔ کے درج ِ ذیل شعر کو
ہندوستان کے قدیم اورتاریخی شہر سے ولی محمد ولیؔ کی محبت کا بر ملا اعتراف
قرار دیتے ہوئے دہلی کے عیاش اور مطلق العنان بادشاہ محمد شاہ رنگیلا( عرصہ
ٔ حیات : 1702-1748عہد حکومت :1719-1748)کو ایک شعر میں یہ پیغام دیا ۔
دِل ولی ؔ کا لے لیا دِلّی نے جِیت
جا کہو کو ئی محمد شاہ سوں (1)
محمد حسین آزاد ؔ (1827-1910 )نے اپنی تصنیف آب حیات میں ولی محمد ولیؔ
دکنی کے اسلوب اورشخصیت کے بارے میں لکھاہے :
’’باوجودیکہ اس کی زبان آج بالکل متروک ہے مگر دیوان اب تک ہر جگہ مِلتا ہے
اور بِکتا ہے ۔
یہاں تک کہ پیرس اور لندن میں چھپ گیاہے ۔اس میں علاوہ ردیف وارغزلوں کے
رباعیاں،
قطعے،دو تین مخمس ،قصیدے،ایک مثنوی ،مختصر معرکۂ کربلا کے حال میں،ایک شہر
سورت کے ذکر میں
ہے ۔واسوخت اُس وقت میں نہ تھا۔اس فخر کا ایجاد میرؔ صاحب کے لیے چھوڑ گئے
،بادشاہ یا کسی امیر کی
تعریف بھی نہیں۔شایدخواجہ میر دردؔ کی طرح تعریف کرنی عیب سمجھتے تھے ۔لیکن
کبھی کبھی خواجہ حافظ کی طرح
بادشاہِ وقت کے نام سے اپنے شعر کوشان و شکوہ دیتے تھے چنانچہ ولی ؔکی
تصنیفات میں سے ایک غزل میں
کہتے ہیں :
دِل ولیؔ کا لے لیا دِلّی نے چِھین
جاکہو کوئی محمد شا ہ سوں (2)
تاریخ ادب سے وابستہ تاریخی حقائق کے عمیق مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ
شعر ولی محمد ولیؔ دکنی کا نہیں ۔مغل بادشاہ محمد شاہ کاسال جلوس 1131ہجری
(1719عیسوی )ہے جب کہ ولی محمد ولیؔ دکنی سال 1119ہجری (1708عیسوی )میں
ساتواں در کھول کر زینہ ٔ ہستی سے اُتر
کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار چکا تھا ۔ ممتاز محقق قاضی
عبدالودود نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ یہ
شعر ولی محمد ولی ؔ دکنی کا نہیں بل کہ یہ شعر مضمون ؔ کا ہے ۔اصل شعر اس
طرح ہے :
اِس گدا کا دِل لیا دِلی نے چھین
جا کہو کوئی محمد شاہ سوں (3)
ولی محمد ولیؔ دکنی کے اصل نام کے بارے میں بھی اردو تحقیق اب تک کسی حتمی
نتیجے تک نہیں پہنچ سکی ۔اس شاعر کے جو نام اب تک سنے جارہے ہیں ان میں
محمد شمس الدین ،شاہ ولی اﷲ ، شمس ولی اﷲ،محمد ولی،میاں ولی محمد اور ولی
محمد شامل ہیں ۔
بر صغیر میں اٹھارہویں صدی عیسویں کے آ غاز میں یورپی اقوام کی آمد کے بعد
اس خطے میں کھڑی بولی ہی کو اپنایا گیا ۔برطانوی استعمار کے بعد بھی
انتظامیہ نے کھڑی بولی کو رابطے کی زبان کا درجہ دیا۔ دکن کی سر زمین سے
ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ کی جن مساعی کا آغاز ہوا وہ رن لائیں اور شمالی
ہند میں بھی ان کی باز گشت سنائی دی ۔سنیتی کمار چیٹر جی کا خیال ہے کہ یہ
دکن ہی تھا جہاں سے تخلیق ادب کو نئے آفاق تک رسائی کا موقع ملا اور شمالی
ہند کے لیے ایک لائق تقلید مثال پیش کی۔بر صغیر میں ادبیات کی تاریخ کے
طالب علموں کے لیے یہ امر حیران کن ہے کہ دکنی ادبیات اور دکنی مصنفین کے
بارے میں تحقیق کی صورت حال اب تک بالعموم غیر امید افزا رہی ہے ۔دکنی زبان
کے ارتقا اوراس قدیم زبان کے ادب کے فروغ میں دلچسپی رکھنے والے سرابوں کی
صعوبتیں برداشت کرکے راستے سے بھٹک کر سفاک ظلمتوں میں ٹامک ٹوئیے مارتے
پھرتے ہیں ۔ بر صغیر کے نو آموزمحققین نے کاتا اور لے دوڑا کی روش اپنا
رکھی ہے۔ دکنی ادب پر عاجلانہ تحقیق کی غیر محتاط روش اور تہی دامنی جو عجب
گُل کِھلا رہی ہے اس کی ایک مثال پیش کی جا رہی ہے تا کہ ثبوت اور تنقید کی
روشنی میں تاریخ ادب سے وابستہ حقائق تک رسائی کی کوئی صورت پیدا ہو سکے ۔
اردوزبان کے ممتا زمحقق نصیر الدین ہاشمی(1895-1964) کی اہم کتاب ’ دکن میں
اردو ‘ میں درج ذیل غزل کو بیجا پور کے ملک الشعرا محمد نصرت نصرتی ؔ کی
تخلیق بتایا گیا ہے۔ حمد ، نعت،مناجات ، قصائد و غزلیات کے اس یگانۂ روزگار
شاعر نے عشقیہ مثنوی گلشن عشق ،علی نامہ اورتاریخ سکندری لکھ کر دکنی ادب
کی ثروت میں قابل قدر اضافہ کیا ۔ اس غزل کے مطلع اور مقطع سے شعری تخلیق
کے بارے میں تمام صورت حال واضح ہے۔ ادبی تخلیقات کے اجتماعی مواد اور
انفرادی اسلوب میں دلچسپی رکھنے والے ادب کے سنجیدہ قارئین کے لیے یہ
تقابلی مطالعہ اِحتساب ِ ذات کے نئے امکانات سامنے لا سکتاہے :
پیا بِن پیالہ پیا جائے نا
پیا باج یک تِل جیا جائے نا
غواصیؔ نہ دے توں دیوانے کو ں پند
دیوانے کوں پند دیا جائے نا (4)
سید احتشام حسین رضوی (1912-1972) کی کتاب ’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ ‘کے
مطابق محولہ بالا غزل گولکنڈہ میں قطب شاہی سلطنت کے پانچویں سلطان اور
بھاگ متی کے شوہر محمد قلی قطب شاہ ( عرصہ ٔ اقتدار : 1580-1611 ،عرصہ ٔ
حیات : 1566-1612) کی تخلیق ہے۔ذیل میں اس غزل کے مطلع اور مقطع سے حقیقت
واضح ہو جائے گی اور زمانہ ماضی کے ذہن اور شعور کو حقیقی تناظر میں دیکھنے
کی صورت پیدا ہو گی۔
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج اِک تِل جیا جائے نا
قطب شہ نہ دے مجھ دوانے کو پند
دوانے کو کچھ پند دیا جائے نا (5)
ڈاکٹر جمیل جالبی ( 1929-2019) کی تصنیف ’’تاریخ ادب اردو ‘‘ کی جلد اول
میں درج ذیل شعر محمد قلی قطب شاہ کی تخلیق قرار دیا گیا ہے :
پیا باج پیالا پیا جائے نا
پیا باج ایک پل جیا جائے نا (6)
اس صورت حال کو دیکھ کر خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اس موضوع پر اپنے تاثرات
کیسے زیب قرطاس کیے جائیں اور ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس نوعیت کی مبہم
آراکے بارے میں گل افشانی ٔ گفتار کااندازکیاہو گا؟
دکنی زبان اور ادب اس خطے کی تاریخ اور تہذیب کی پہچان ہے ۔سیلِ زماں کے
مہیب تھپیڑوں کی زد میں آکر اقوام کی قوت و ہیبت ،جاہ و حشمت اور سطوت کے
سفینے تو غرقاب ہو سکتے ہیں مگر تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت اندیشۂ
زوال سے نا آ شنا ہے ۔ تاریخ کا مطالعہ ذہن و ذکاوت کو صیقل کر کے فکر و
خیال کو مہمیز کرتا ہے ۔تاریخی حقائق کی تحقیق او رتجزیے سے اذہان کی تطہیر
و تنویر کا اہتمام ہوتا ہے ۔مطالعہ ادب میں بھی تاریخی حقائق کو بہت اہمیت
حاصل ہے ۔قارئین کے ذہن و شعور کو فہم و ادراک سے متمتع کرنے میں تاریخ اور
اس کا پیہم رواں عمل کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔
لسانیات کے ارتقا کو سمجھنے کے لیے تخلیق ادب اورتخیل میں جو گہر ا تعلق ہے
اُسے سمجھنا نہایت ضروری ہے ۔اسی تعلق کے اعجاز سے تخلیقی فعالیت تصوراتی
مواد سے متمتع ہوتی ہے ۔عملی زندگی کے تجربات ،مشاہدات اور تخیلات کے ادب
اور فنون لطیفہ پر دُوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔فکر و خیال کی دنیا کے
انداز بھی نرالے ہوتے ہیں جہاں ہر لحظہ نیا طُور نئی برق تجلی کی کیفیت
تخلیقی عمل کو مہمیز کرتی ہے ۔اس کے معجز نما اثرسے تکلم کے سلسلے اور
اسالیب بیان میں جدت اور تنوع کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ مستشرقین نے بر
صغیر میں بولی جانے والی زبانوں کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے دی ہے ۔اُن
کی فکر پروراور بصیرت افروز تحریروں میں مسائل ِ زیست ،معاشرتی اور سماجی
زندگی کے نشیب وفراز ، تعلیم و تربیت ،ادیان عالم،تاریخ اورتخلیق ادب کے
بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا گیاہے وہ اُن کی وسیع النظری کی دلیل ہے
۔اُنھوں نے ادب کو زندگی کی تنقید کے حوالے سے دیکھااور اس کے دائرہ کار
کووسعت دی۔ مثال کے طورپر میتھیو آ رنلڈ نے فرانسیسی زبان کے ادب کوکلاسیک
کی روح کے قریب قرار دیا۔ فرانسیسی تنقید کو نیا آ ہنگ عطا کرنے والے نقاد
بولو Nicolas Boileau-Despréaux (Nicolas Boileau : 1636-1711))نے اپنی
تحریروں میں جس مثالی کلاسیکیت کا ذکر کیا ہے اس میں فرد کو غیر معمولی
اہمیت کاحامل قراردیاگیاہے مگر میتھیو آ ر نلڈ کی کلاسیکیت اس سے مختلف
نوعیت کی ہے ۔ میتھیو آ رنلڈ نے رومانی آزادی کو تو بہ نظر تحسین دیکھا مگر
اس کے ساتھ ہی اس نے یونانی مفکرین کے زیر اثر رہتے ہوئے رومانی آزادی میں
توازن کو بر قرارکھنے پر اصرارکیاہے ۔ اردو اور دکنی زبان کے کلاسیکی ادب
کا استحسان کرتے وقت میتھیو آ رنلڈ کے تنقیدی خیالات کامطالعہ کریں تو جو
اہم امور سامنے آتے ہیں ان کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ معاشرتی
زندگی میں اصلاح کو پیش نظر رکھتے ہوئے میتھیو آ رنلڈ کا خیال ہے کہ ادب
اور فنون لطیفہ کی اہمیت و افادیت سائنس و ٹیکنالوجی سے وابستہ علوم سے
کہیں بڑھ کر ہے ۔ میتھیو آ رنلڈنے علم و ادب کی جولاں گاہ کو لامحدود قرار
دیا۔اس کا خیا ل تھا کہ ادب کو جغرافیائی حدود کے حصار میں بند کر ناکسی
صورت میں ممکن ہی نہیں ۔ادب کی فضائیں زندگی سے تہی نہیں بل کہ اس کے سامنے
سیکڑوں اور آ سمان بھی ہیں ۔ادب کو رنگ ،نسل ،زبان اور کسی خاص خطے سے
وابستہ کرنا اس کی حقیقی قدر و قیمت کو کم کر دیتاہے ۔فکر انسانی کو میتھیو
آ رنلڈ بحرِ بے کراں سمجھتاہے اسے کسی جزیرے کے مانند سمجھنا ایام کا مرکب
بن کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنے کے مترادف ہے ۔ میتھیو آ ر نلڈ نے
ادب میں جمود ،بے عملی اور بے حسی کے خاتمے کی غرض سے جرأت اظہارکی اہمیت
کو اجاگر کیا۔ ادب کی آفاقی اور کائناتی اہمیت کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں
رفتگاں کی یاد اور ان کی تخلیقات کی خوشہ چینی کرتے ہوئے ممتازجرمن شاعر
گوئٹے ( :1749-1832 Johann Wolfgang von Goethe)کی طرح میتھیو آ رنلڈ کی
مساعی کو ہر عہد میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ میتھیو آ ر نلڈکی گوئٹے سے
قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کا سبب یہ ہے کہ اس جرمن شاعر نے قدیم ثقافت
اورازمنہ قدیم کے شعرا کی تقلید کو ہمیشہ اپنا نصب العین بنایا ۔ ہر قسم کے
امتیازات اور تعصبات کو پس پشت ڈال کر وسیع النظر ی کا ثبوت دیتے ہوئے اس
عالمِ آب و گِل کے مظاہر اوریہاں کی اشیاکی حقیقت اور ان کی ماہئیت کی تہہ
تک پہنچنے اوراس کی لفظی مرقع نگاری کرنے کا جو انداز گوئٹے نے اپنا یا وہ
میتھیو آ ر نلڈکو بہت پسند تھا ۔انسان کامل کو جو تصور میتھیو آ ر نلڈنے
پیش کیا اس سے یہ تاثر ملتاہے کہ وہ قدیم مفکرین کے افکار سے متاثر ہے
۔اردو اور دکنی کے قدیم تخلیق کاروں نے انسان کو مجموعی اور کلی حیثیت سے
دیکھنے کی سعی کی جب کہ نئے دور میں انسان کی شخصیت کا صرف جزوی مطالعہ کیا
جاتاہے ۔ مرزااسداﷲ خان غالبؔ نے سچ کہا تھا:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
دکنی ادب کا مطالعہ کرتے وقت عالمی کلاسیک کے مسلمہ معائر سے آگاہی نا گزیر
ہے ۔تنقیدی مباحث کے حوالے سے میتھیو آ ر نلڈ نے نقاد کی ذہانت ،دیانت
،ہرقسم کی عصبیت سے پاک انصاف پسندی ، لچک ،وسعت نظر ،حریت ِ فکر اور جرأت
ِ اظہار کو صحت مند تنقید کے لیے ناگزیر قراردیتاہے ۔ انسان شناسی میں ادب
کے کردار کو زیر بحث لاتے ہوئے میتھیو آ ر نلڈنے اس امر کی جانب متوجہ
کیاہے کہ ادب انسان کی شخصیت اور کردارکی تعمیر و تشکیل کا فریضہ انجام
دیتاہے ۔یہ ادب ہی ہے جو تعلیم و تربیت ،انسان کامل کی تشکیل ،عرفان ذات کی
صلاحیت ،خود آ گاہی کے اوصاف ،تجربات و مشاہدات کے بعد سوچ بچار ،مسائل
زیست کی تفہیم اور آثار ِ مصیبت کے احساس سے متمتع کرتاہے ۔تخلیق ادب میں
مواد اور ہئیت کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔میتھیو آ ر نلڈنے ادب پارے میں مواد
اور ہئیت کاتوازن اور اعتدال پر زور دیا۔اس کاخیا ل تھاکہ اگر تخلیق فن کے
لمحوں میں ایک تخلیق کار ارتکازِ توجہ سے مواد اور ہئیت کی وحدت کو یقینی
بناتاہے تو ادب پارہ روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی
اثرآفرینی کے اعجاز سے پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کالوہا منو ا لیتاہے ۔جب
تخلیق کار اس طرح ید بیضا کا معجزہ دکھاتاہے تو ایسا ابد آ شنا ادب پارہ
تخلیق ہوتاہے جو لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیتاہے ۔تاریخ کے مسلسل عمل
پر نظر رکھتے ہوئے میتھیو آ ر نلڈنے قدیم ادب کے استحسان پر بھی توجہ د
ی۔اس کا خیال ہے کہ ہمارے اسلاف نے اس کائنات کے تمام مظاہر اور اشیا کی
حقیقی تفہیم میں اپنے ذہن و ذکاوت کو استعمال کرتے ہوئے جس دیانت اور بے
باک صداقت کوشعاربنایا وہ ان کی منصف مزاجی کا ثبوت ہے ۔اپنی تخلیقی فعالیت
کے ذریعے ایک زیرک شاعر امر واقعہ کے بجائے بالعموم اپنے تخیل کی جولانیوں
سے زندگی کی تنقید اور تعبیر پرتوجہ دیتاہے ۔دکنی زبان کے قدیم شعرا کے
اسلوب کا مطالعہ کرتے وقت تنقید کے مسلمہ اصولوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے
۔کسی بھی زبان کے شاعر کے اسلوب کے بارے میں میتھیو آرنلڈ نے لکھا ہے :
"Poets who can not work in the grand style instinctively seek a style in
which their comparative inferiority may feel itself at ease,a manner
which may be ,so to speak,indulgent to their inequalities." (7)
شاعری کی تخلیق کے حوالے سے میتھیو آ رنلڈ نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا
ہے کہ شاعر تخلیق فن کے لمحوں میں اشہب قلم کی جولانیاں دکھاتے وقت خیالات
کو زادِ راہ بناتاہے ۔یہ اس کے ارفع خیالات ہی ہیں جن کی اساس پر وہ اپنے
افکار کا قصر عالی شان تعمیر کرتا ہے ۔ یہ شاعری ہی ہے جو سائنسی علوم کے
فروغ اور تکمیل میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے ۔شاعری کی افادیت سے لبریز
ہمہ گیر اثر آفرینی اور افادیت کو دیکھتے ہوئے مذہب اور فلسفہ بھی شاعری کی
کسوٹی سے بے نیاز نہیں رہ سکا۔ اس صورت حال میں مذہب اور فلسفہ کا مطالعہ
اور تنقید خضر ِ راہ کا فریضہ انجا م دیتی ہے اور منضبط انداز میں خیالات
کو اظہار و ابلاغ کے مواقع سے آ شنا کرتی ہے ۔شاعر پامال راہوں سے بچتے
ہوئے غیر مانوس ،ناقابل فہم ،دقیانوسی اور ناقابل عمل خیالات کو بارہ پتھر
کرکے افکارِ تازہ کی مشعل فروزاں کر کے سفاک ظلمتو ں کوکافور کر کے جہانِ
تازہ کی جانب روشنی کے سفر کا آغاز کرتاہے ۔ روح اور قلب کی گہرائیوں میں
اُتر جانے والے زندگی آموز اور زندگی آ میز خیالات اذہان کی تطہیر و تنویر
کا موثر وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔شاعر کی دلی تمنا ہوتی
ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ خون بن کے رگِ سنگ میں اُتر جائے ۔ زندگی
کی حرکت و حرارت کی مظہر ایسی شاعری دلوں کو ایک ولوۂ تازہ عطا کر کے فکر و
نظر کو مہمیز کرتی ہے۔ایسی شاعری سنگلاخ چٹانوں ،جامد و ساکت پتھروں اور
بتوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔میتھیوآ ر نلڈ نے ایسی شاعری
کے بارے میں لکھا ہے :
" The future of poetry is immense,because in poetry ,where it is worthy
of its high destinies,our race,as time goes on,will find an ever surer
and surer stay.There is not a creed which is not shaken,not an
accredited dogma which is not shown to be questionable,not a received
tradition which does not threaten to dissolve.Our religion has
materialized
itself in in the fact,in supposed fact; it has attached its emotion to
the fact ,and now the factis failing it.But for poetry the idea is
everything ; the rest is a world illusion,of divine illusion .Poetry
attaches its emotion to the idea ; the idea is the fact.The strongest
part of our religion to-day is its unconcious poetry.(8)
شاعری کا جائزہ لینے کے لیے میتھیو آ ر نلڈ نے جن تین معائر کی نشان دہی کی
ہے ان میں تاریخی جائزہ ،ذاتی جائزہ اور حقیقی جائزہ شامل ہیں۔ اُس کا خیال
ہے کہ ازمنہ قدیم کے کلاسیکی شعرا کے اسالیب کا تاریخی تناظر میں جائزہ
لیتے وقت ان کی قدامت کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے ۔ رفتگاں کی یاد ،
قدامت کی قدر اور عقیدت کی رو میں محاکمہ بالعموم صحیح سمت برقرارنہیں رکھ
سکتا۔جہاں تک ذاتی جائزے کاتعلق ہے اس میں بھی نقادکی ذاتی پسند و نا پسند
اور کسی تخلیق کے بارے میں ذاتی ترجیحات کی مظہر غیر محتاط رائے حقائق کی
تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب پر منتج ہو سکتی ہے ۔ میتھیو آ ر نلڈ نے تاریخی
جائزے اور ذاتی جائزہ کو کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا بل کہ حقیقی جائزے کو
مفید اور مستحسن قرار دیا۔اس نے واضح کیا کہ ادب پاروں کا حقیقی جائزہ ہی
وہ مقیاس ہے جو دنیا کی کسی زبان کی ادبی تخلیق کے حسن و قبح کو سامنے لانے
کا موثر ترین وسیلہ ہے ۔ادب اور فنون لطیفہ کے استحسان کے سلسلے میں حقیقی
جائزہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتاہے ۔اسی کے وسیلے سے ذوق سلیم سے متمتع قاری
کسی تخلیق میں موجود رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے جملہ استعاروں سے آ گہی
حاصل کر کے ان سے حظ اُٹھا سکتاہے ۔تخلیق ادب میں شرافت کے مظہر خلوص کی
جلوہ گری کے لیے میتھیوآ رنلڈ نے سخت نوعیت کا کوئی خاص اصول وضع کرنے سے
بالعموم گریزکیا۔اس کا خیا ل تھا بیرونی مداخت سے مسلط کیے گئے اس قسم کے
ناقابل عمل اصو ل اور سخت قواعد و ضوابط سے تخلیق ادب کو ناقابلِ تلافی
نقصان پہنچتاہے ۔ادب میں عظمت فکر ،شرافت ،وضع داری اور اثر آفرینی کا تعلق
تو تخلیق کار کی خود شناسی ، خود اعتمادی ،خود احتسابی اور وسعت نظر سے ہے
۔اگرتخلیق کار کذب و افترا اور ریاکاری سے اپنا دامن آ لودہ نہ ہونے دے تو
ستاروں پہ کمند ڈال سکتاہے اور تخلیقِ ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے
ہم دوشِ ثریا کر سکتاہے ۔تخلیق ِ ادب میں تنقید اور ثقافتی اقدار کے اثرات
کا جائزہ لیتے ہوئے میتھیو آ رنلڈ نے ا س جانب اشارہ کیا ہے کہ تنقید اور
ثقافت کو ان سب عوامل کی گرہ کشائی کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے جن سے
ماضی اور حال کے خیالات نے نمو پائی۔اس کے علاوہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ
وہ سب امور جو اپنی اکملیت کی وجہ سے لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر چکے
ہیں ان کی کامیابی کا راز کیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی ثقافت اور تنقید کو عصبیت
و تشدد سے دامن بچاتے ہوئے ان عوامل کا کھوج لگانا چاہیے جن کے باعث سیلِ
زماں کے مہیب تھپیڑے ماضی کی متعدد روایات کو خس و خاشاک کے مانند بہالے
گئے ۔اس کا خیال ہے کہ تنقید اس وقت مبہم اور ناقابل عمل صور ت اختیار کر
لیتی ہے جب اسے اثر پذیری کی تمنا میں چاپلوسی سے آ لودہ کر دیا جائے اور
پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت قارئین کو ادب پارے کے مطلوبہ مفاہیم تک
رسائی اوران پر قانع رہنے کے مالکانہ حقوق تھما دئیے جائیں ۔شرافت ،دیانت
اور محنت سے مزین عظیم الشان اسلوب کے بارے میں میتھیوآ رنلڈ نے یہ بات بر
ملا کہی ہے کہ ایسے ابد آ شنا اسلوب تک رسائی حاصل کرنابہت کٹھن مر حلہ ہے
۔ستاروں پر کمند ڈالنے والوں کی سانس راہ ہی میں اُکھڑ جاتی ہے ۔ عظیم
الشان اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے میتھیو آ ر نلڈ نے لکھا ہے :
The grand style is the last matter for verbal definition to deal with
adequately.One may say of it as is said of faith:,one must feel it in
order to know what it is,.But as of faith ,so too one may say of
nobleness ,of grand style:,Woe to those who know it not, ! Yet this
expression ,though indefinable ,has a charm ; one is better for
considering it; bonnum est, nos hic esse;nay,loves to try to explain
it,though one knows that one must speak imperfectly .(9)
دکنی زبان کے قدیم ادب کا جائزہ لیتے وقت میتھیوآرنلڈکے خیالات قاری
کوسوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک جری نقاد کی حیثیت سے میتھیو آ ر نلڈنے
جو تنقیدی معائر پیش نظر رکھے وہ اس کی ذہانت اور بے باک صداقت کے مظہر ہیں
۔اس نے تنقید کو جو آ ہنگ عطا کیا اس کے معیار کے بارے میں دو رائیں نہیں
ہو سکتیں ۔ یہ امر حیران کن ہے کہ اپنے تنقیدی معائر پر عمل پیرا رہتے ہوئے
بھی بعض اوقات وہ بے
اعتدالی کا شکار ہو جاتاہے ۔میتھیوآ رنلڈ نے معاشرتی زندگی کے تضادات پر
گرفت کی اور معاصر تنقید کی خامیوں کی جانب توجہ دلائی ۔اس کی تنقید پر
گوئٹے ،رینان اور سانت بیو کے اثرات کا پتا چلتاہے ۔ادب میں جمالیاتی عنصر
کو دبانے کی خاطر اس نے اخلاقی عنصر کی اہمیت و افادیت کو مبالغہ آمیز
انداز میں پیش کیا ۔ انگریزی زبان کی تنقید میں اخلاقیات کی تدریس کا جو
ارفع معیار فلپ سڈنی (1554-1586 : Philip Sidney )کی تحریروں میں پایا
جاتاہے وہ میتھیو آ رنلڈ کی تحریروں سے زیادہ موثر ہے ۔ میتھیو آ ر
نلڈزندگی بھر نہایت تحمل اور سنجیدگی سے پرورش لوح و قلم میں مصروف
رہا۔کوئی ادبی مہم جُو جب بھی بہتان طراز ی اور الزام تراشی کی غرض سے اس
کی طرف یلغار کرتاتو وہ اسے بالعموم نظر انداز کر دیتا۔ اس کا خیال تھاکہ
نقاد کو اپنے خلاف سادیت پسندی پر مبنی ایسے بغض و عناد،بے معنی حرف گیری
اور بے وقعت الزام تراشی کو کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے ۔ اس نے
واضح کیا کہ شاعری کے نقادکو بے باک صداقت کو شعار بنانے والا بہترین مدبر
، لچک دار سوچ سے متمتع بہترین اعتدال پسند ،قابل فہم اور متنوع تصورات
کوپروان چڑھانے والادانش ور ،تناقضات کو ختم کرنے والا مصلح اور منصف مزاج
مورخ ہونا چاہیے ۔ایک جری نقاد کا تبحر علمی واضح طور پر غلط سمت میں لے
جانے والے فرسودہ خیالات پر مبنی جہالت اور جعل سازی کو خس و خاشاک کے
مانند بہا لے جاتاہے ۔ عظیم ترین اسلوب کے فروغ کے لیے کام کرنے والے اس
نقاد نے ذوق ِسلیم کی نمو کے لیے جو بے مثال جد جہد کی اس کی بنا پر تاریخ
ہردور میں اس کے نام کی تعظیم کر ے گی۔ مادی دور کی لعنتوں سے آلودہ ہو
جانے والی معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ چور محل میں جنم لینے والے مارِ
آ ستین چور دروازے سے گھس کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں ۔یہ
بونے
مختلف سیڑھیاں استعمال کر کے پنے تئیں باون گزے ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں
اوررواقیت کے داعی بن کر لاف زنی شروع کر دیتے ہیں ۔ان کے بے سروپا سلسلہ
ٔتکلم کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے کہ ان کی جہالت نے ان کی مانگے کی
علمیت اور جعلی ڈگریوں پر سوالیہ نشان لگا دیاہے ۔ جس بے حس معاشرے میں
جاہل کو اس کی جہالت کاانعام ملنے لگے وہاں وقت کے اس قسم کے سانحات کو کس
نام سے تعبیر کیا جائے ۔عقیدت کی اداکاری کرنے والے طوطاچشم بروٹس کو دیکھ
کر کف افسوس ملنے والے وقت کے ہر سیزر کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے کہ
قدر نا شناس کے ساتھ گزارا جانے والا وقت رائیگاں ہی جاتاہے ۔ چربہ ساز
،سارق ،جعل ساز ،کفن دُزد اور لفاظ حشرات ِ ادب کی کینہ پروری پر مبنی
الزام تراشی کے جواب میں میتھیو آ ر نلڈ نے جو بات کہی تھی وہ صداقتوں کی
تکذیب اور حقائق کی تمسیخ کرنے و الے ہر پیمان شکن درندے ، دغا باز محسن کش
اور برادرانِ یوسف کے لیے نوشتۂ دیوار کے مانندہے :
(10) " You shall die in your sins "
خارزارِ حیات میں الم نصیب جگر فگار انسانوں کی زندگی تو کانٹوں کی سیج
ثابت ہوتی ہے مگرعشرت کدوں میں دادِ عیش دینے والوں کے لیے تاج محل اور
بھاگ نگر تعمیر ہوتے ہیں۔ جعلی پیمان ِ وفا پرگھمنڈ کرنے والے جب عرض ِ وفا
پر اپنی ناگواری کا اظہار کرنے لگیں تو یہ بات جان لینی چاہیے کہ مکرو فریب
نے ایک بار پھر خلوص و مروّت کومات دے دی۔یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کرنی
چاہیے کہ درِ اخلاص پر سر خم کرنے والے فصیلِ مکر و فریب سے ٹکرانے کا حو
صلہ رکھتے ہیں۔ ادب میں موضوع ہو یا مواد ،افکار ہوں یا تصورات سب کے سب
پیہم ارتقا ئی مدارج طے کرتے ر ہتے ہیں۔زندگی کی یہ برق رفتاریاں اوراسالیب
بیان کی یہ بو قلمونیاں زبان حال سے فریب خیال کو متنبہ کر کے یہ کہتی ہیں
کہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے طلوع صبح بہاراں سرابوں کے عذابوں کے سوا کچھ
بھی نہیں۔ ابھی تو سیکڑوں دورِ فلک آنے والے ہیں ۔علامہ اقبال نے کہا تھا :
یہ کائنات ابھی نا تما م ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند
بہا لے جاتے ہیں ۔سلطان ابو ا لحسن کے عہد میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب(
1618-1707) نے گول کنڈہ پر دھاوا بو ل دیا ۔گو ل کنڈہ کے قلعہ کا آ ٹھ ماہ
تک محاصرہ جاری رہا ۔مغل فوج کے سراغ رساں مخالف فوج کے ایک نمک حرام ،محسن
کش ،پیمان شکن او رآستین کے سانپ بروٹس کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے
۔قطب شاہی فوج کا اس غدار سالا ر کانام سر انداز خان تھا۔اس ابن الوقت
سالار نے ضمیر فروشی کر تے ہوئے اپنے محسن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا
اور دشمن کے ساتھ مِل گیا۔اِس سازش کے نتیجے میں سلطان ابوالحسن کی افواج
کو شکست سے دو چار ہونا پڑا اور سال 1687 ء میں مغل افواج نے قلعہ گو ل
کنڈہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ فاتح مغل شہنشاہ اورنگ زیب( عہد حکومت :
1658-1707) کے حکم پر گو ل کنڈہ کے بادشاہ سلطان ابوا لحسن کو دولت آباد کے
قلعہ میں پابند سلاسل کر دیا گیااورگزر اوقات کے لیے معزول بادشاہ کے لیے
پنشن مقرر کر دی گئی۔دکن میں حکومت کے زوال کے ساتھ ہی دکنی زبان کا آفتاب
اقبال بھی گہنا گیا۔
مآخذ
(1) سیدہ جعفر: تاریخ ادب اردو ،جلد اوّل ،حیدر آباد ،سال اشاعت 2012، صفحہ
2۔
(2)محمد حسین آزاد ؔ: آب حیات ، لاہور،مطبع نول کشور ،1907،صفحہ 87۔
(3) قاضی عبدالودود: محمد حسین آزاد بہ حیثیت محقق، پٹنہ ،تحقیقات ِ اُردو
،نقش ثانی ،1984،صفحہ 2۔
( 4) نصیر الدین ہاشمی : دکن میں ارد و، حیدر آباد دکن ،مکتبہ ابراہیمیہ
،سال اشاعت 1936،صفحہ 71۔
(5)سید احتشام حسین :اردو ادب کی تنقیدی تاریخ ، دہلی ،قومی کونسل برائے
فروغ ارد و،1999،صفحہ 36۔
(6)جمیل جالبی ڈاکٹر : تاریخ ادب اردو ،جلد اول ، صفحہ 439۔
7 Matthew Arnold:On Translating Homer,George Routledge & Sons Limited
,London,1862,Page 49
8.Matthew Arnold: Essays In Criticism, Page 279
Matthew Arnold:On Translating Homer Page,249 9.
. Matthew Arnold:On Translating Homer Page,249 10.
|