آنسو کیا ہے؟نمک ملا پانی جو بہتا ہے آنکھوں سے۔ کہنے کو
ایک قطرہ لیکن کسی کے دل کو ہلاتا ہے سمندر میں طوفان کی طرح۔ آنسوؤں کی
اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انسانی پیدائش سے یہ زندگی
سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ بچے کے آنسو اور اس کے ساتھ رو رو کر شور مچانا ماں
باپ کو فوری طور پر اسے ہر آرام میسر کرنے کے لیے بھاگ دوڑ میں لگاۓ رکھتا
ہے۔اس کے رونے کی آواز دل میں موجود احساسات اور محبت و الفت کو جوش دینے
کا کام کرتی ہے۔ تبھی فوری طور پر خوراک، صفائ، آرام اور ہر ضرورت کو پورا
کرنے کے اقدامات اٹھاۓ جاتے ہیں۔ ورنہ یہی سارے کام تاخیر کا شکار بھی ہو
سکتے ہیں۔ جھنجھنا (بچہ) بولتا ہے اور اتنی زور سے بولتا ہے کہ دوڑ لگ جاتی
ہے۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے پرورش کے اصولوں میں سے اس اصول کو اپنایا
جاتا ہے کہ بچے کی ضد توڑنی ہے۔ اس کے ہر دفعہ رونے پہ اگر فرمائش پوری
کرتے رہے تو آگے جا کر ہٹ دھرم اور ضدی بنے گا۔
انسان اپنی حیات میں ان آنسوؤں کا کھیل ساتھ لیے چلتا ہے اور اپنے اردگرد
دیکھتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں کچھ رشتے ایسے ضرور ہوتے ہیں جو آنسوؤں
کا تماشہ لگاۓ رکھتے ہیں۔
دل کی جان، جگر کا ٹکڑا۔۔۔اولاد۔ بہت محبت ہوتی ہے اس سے۔ لیکن اکثر محبت
میں کوتاہی برتی جاتی ہے۔ ہر چھوٹی چھوٹی فرمائش پوری کی جاتی ہے یہاں تک
کہ بچہ انکار کا عادی نہیں رہتا۔ پھر کہیں فرمائش پوری نہ کی جاۓ تو شروع
ہو جاتا ہے رونے کا عمل۔ آنسوؤں کو دیکھ کر ماں باپ کے ضبط کا پیمانہ لبریز
ہوتا ہے اور وہ عموما" ہر خواہش پوری کرتے ہیں۔ عقلمند تصور کیے جاتے ہیں
وہ جو کبھی خواہش پوری نہیں بھی کرتے۔ اس طرح سے بچے میں صبرو برداشت پیدا
ہوتا ہے۔
کسی شادی شدہ مرد سے پوچھئیے کہ کیا ہوتا ہے یہ آنسوؤں کا تماشہ۔ جب جزباتی
لگاؤ بہت زیادہ ہو تو پھر بیگم کے آنسوؤں کی قیمت کا حساب لگانا مشکل ہے۔
جزباتی لگاؤ ہونا تو اچھی بات ہے لیکن یہ آنسو بہت سے ایسے کام کروا دیتے
ہیں جو مرد حضرات کو خسارے میں ڈالے رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر جھوٹی سچی
شکایات کی پوٹلی پیش کرتے ہوۓ بیگم ان آنسوؤں کو بروۓ کار لاتی ہیں۔ پھر
خاوند کے جزبات کا سمندر ایسے ٹھاٹھے مارتا ہے کہ وہ بغیر سوچے خاندانی
رشتوں کی اکھاڑ پچھاڑ میں لگ جاتا ہے۔آنسو بنیاد بنتے ہیں کبھی ساس سے
جھگڑے کی، کبھی سسر سے، دیور سے، جیٹھ سے، نند سے تو دیورانی جیٹھانی
سے۔آنسو بہتے رہتے ہیں رشتے رلتے رہتے ہیں۔ یہی رواں آنسو اکثر و بیشتر
روانی سے مرد حضرات کی جیب سے نوٹ بھی بہا لے جاتے ہیں۔
ساس اور نند کے آنسو، چاہے جھوٹے ہوں یا سچے، بہو کی دن رات خاطر کروانے
میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بلی کا بکرا بہرحال مرد ہی ہوتا ہے جو اپنے
عزیر رشتوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ نہیں سکتا۔ بس ایک قطرہ بہنے کی دیر
ہوتی ہے اور ہو جاتی ہے شروع ہلچل زندگانی میں۔
کچھ دوست بھی آنسوؤں کی برسات کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ آپ چاہے کتنی مرتبہ
ان کی مدد کر چکے ہوں،مالی لحاظ سے یا کسی لحاظ سے بھی، وہ ہر دفعہ روتے
ہوۓ یہی کہتے ہیں کہ میری کچھ تو مدد کر دو۔ اگر آپ مدد کرنے سے قاصر ہوں
تو وہ آپ کو آنسو بھری نگاہوں سے اتنا کچھ کہ کر نکلیں گے جیسے آپ سے برا
کوئ ساتھی تھا ہی نہیں۔
سب سے زیادہ دکھ پہنچانے والا تماشہ محبوبہ کے آنسوؤں کا تماشہ ہوتا ہے۔
"محبوبہ"وہ ہستی جس نے دل پکڑا ہوتا ہے وہ دل کے ساتھ ساتھ دماغ بھی پکڑ
لیتی ہے۔ جب یہ دونوں ہی اس قید میں ہوں تو بندہ جاۓ تو جاۓ کہاں۔ تڑپ ہی
ایسی پیدا کر دیتی ہے وہ دل میں کہ ہر ادا پہ سو بار مر جانے کو جی چاہتا
ہے۔ اس کے قدموں میں بکھر جانے کو جی چاہتا ہے۔ یعنی مکمل طور پہ ستیاناس
کر جانے کو جی چاہتا ہے۔
جہاں بندہء مومن بندہء جاناں بن جاۓ تو ایسے میں محبوبہ کے آنسو کون برداشت
کر سکتا ہے۔ محبوبہ کچھ تجربے کے بعد یہ بات بخوبی سمجھ چکی ہوتی ہے کہ ایک
دو آنسو ٹپکانے کی دیر ہے اور پوری دنیا کا نقشہ اس کی منشاء کے مطابق کر
دیا جاۓ گا۔ مشاہدات نے یہ بات کلی طور پہ ثابت کی ہے کہ سب سے بڑا سونامی
یہی آنسو ہے۔ کیا کہنے اس آنسو کے۔۔۔۔کھا جاتا ہے مرد کا چین و سکون اور
مجبور کرتا ہے اسے کہ کتنے ہی پیارے رشتے وہ ان آنسوؤں کے سونامی میں جھونک
دے۔ دل رحم محسوس کرتا ہے ایسے شخص کے لیے جس کی زندگی میں روتی دھوتی
محبوبہ کا نزول ہوتا ہے۔ عاشق ایک دن تھک کر بیٹھتا ضرور ہے اور سوچتا ہے
کہ ملکہ بنا دیا اس کو، حکومت کرتی رہی یہ دل پہ، کتنے رشتوں کو اہمیت نہیں
دی اس کے پیچھے، جیسے ہی آنسو بہاۓ میں نے اس کے آنسو پونچھنے کے لیے سب
کچھ کیا۔۔۔۔اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد ایک نظر محبوبہ کو دیکھوں تو وہ تو
ابھی بھی رو رہی ہے۔مجھے عورت ہو کر ایسی عورتوں پہ افسوس ہے جو مردوں کی
زندگی کو آنسوؤں کا نشانہ بناۓ رکھتی ہیں اور ان آنسوؤں میں موجود نمک رگوں
میں زہر کی طرح سرائیت کرنے لگتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کچھ رشتوں کے لیے آپ کچھ بھی کر لیں وہ پرنم
آنکھیں لیے آپ کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟تو اس کا جواب ہے
"ناشکری". جو شخص آپ کے کچھ بھی کرنے پر آپ کے تمام تر سلوک کو بھلا کر
آنسو ہی بہاتا رہے تو ایسا شخص شکرگزاری سے کام نہیں لیتا۔وہ بے حس اور
فطری طور پر بے مروت ہوتا ہے۔وہ روتا کیوں رہتا ہے؟کیونکہ اسے لگتا ہے کہ
آپ نے اس کے لیے جو بھی کیا وہ ناکافی ہے۔ وہ زیادہ کی طلب میں روتا رہتا
ہے۔ ساس،نند،بہو وغیرہ رو رو کر جھگڑے کرواتی رہتی ہیں۔ ایک یا دو جھگڑوں
پہ ان کا دل کیوں نہیں بہلتا؟کیونکہ مقصد رشتوں کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ وہ تب
تک روئیں گی جب تک تعلقات موت کا شکار نہیں ہو جاتے۔
یہی معاملہ اولاد کے ساتھ بھی ہے۔ اولاد جگر کا ٹکڑا ہے لیکن ہر ضد پہ جو
وہ روۓ اور خواہش پوری کروا لے تو یہ غلط ہے۔ شکر کی کمی کی دلیل ہے۔ ان
میں صبر پیدا کرنا ہے تو ضد توڑنا لازمی ہے۔ عشق و محبت میں فہم کی آنکھ
کھلی رکھو تو محبوبہ کے آنسو دل پہ طاری نہ ہوں اور ہر ناجائز پہ ڈھنڈورا
پیٹنا جائز تصور نہ ہو۔اس میں شکرگزاری ہے ہی کہاں؟آنسوؤں کی سیج سجا کر
تمہاری زندگی کی سیج سے ہر سکھ درکار ہے اسے۔
آنسوؤں کی آبشار میں اکثر ضبط کے بوند نما چھوٹے چھوٹے آنسو دکھائ نہیں
دیتے۔اس آبشار کی روانی اور موج کا شور اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ اردگرد
دلوں کے ٹوٹنے کی آواز سنائ نہیں دیتی۔ جو صبر کرتے ہیں پر ساتھ چلتے رہتے
ہیں وہ نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ نظر میں ہوتے ہیں بس ایک،بس ایک رشتے کے
موٹے موٹے روانی سے بہتے آنسو۔
انسان رشتوں کی ترجیحات میں ناپ تول کرتے وقت غلطی کر بیٹھتا ہے۔انسان ہی
تو ہے۔ ۔خطا کا پتلا۔پھر بھی دل تو ٹوٹتے ہیں اور نمکین آنسو زخموں پہ نمک
کا کردار ادا کرتے ہیں۔
اکثر ہم ایک رشتہ نبھاتے نبھاتے نہ جانے کتنے رشتوں کی قربانی دے دیتے ہیں۔
بس ایک رشتہ نبھاتے نبھاتے۔ پھر اس ایک رشتے کو غور سے دیکھو تو کتنے ٹوٹے
رشتوں کی دراڑیں اس ایک رشتے میں نظر آتی ہیں اور اس کی بو میں نہ جانے
کتنے رشتوں کے خون کی بو ہوتی ہے۔
احساس ندامت پہ انسان لاکھوں لگا کر خانہء کعبہ کا رخ کرتا ہے،مزارات کا رخ
کرتا ہے تاکہ آنسو بہا کر معافی طلب کر سکے۔ یہ بھی ایک آنسو تماشہ ہوتا ہے
کیونکہ جس کا دل دکھایا اس سے معافی مانگنا انا کا مسئلہ ٹھہرا تو رخ کیا
رب کی جانب کہ وہ معاف کر دے۔ جب بندے نے معاف نہیں کیا تو رب کیا کرے گا۔
غرض دنیاوی رشتوں سے لے کر رب کے حضور تک لگا رہتا ہے "آنسو تماشہ"اور اس
سے جڑا ہے نہ جانے کتنے رشتوں کا تماشہ۔
|