انعام وفا اور بغاوت

محمل شاہ ویز ۔کراچی
یخ ٹھنڈے فرش پہ اکڑوں بیٹھے جانے کتنے ہی گھنٹے گزر چکے تھے۔۔۔اس کے چہرے پہ آنسوؤں کے نشان اس کی بے بسی کے غماز تھے۔۔اس کے ہاتھوں میں بندھی رسیوں نے اس کی کلائیوں کو زخمی کر دیا تھا۔۔مسلسل ہچکیوں سے رونے کی وجہ سے اس کا گلا خشک ہو چکا تھا۔۔۔اور اس پہ ارد گرد سے آتی ڈھول،طبلے،گھنگھرؤں کی آوازیں اس کی روح تک کو فنا کر رہی تھیں۔۔۔اس نے اپنی سوجی ہوئی آنکھوں کو سختی سے میچا،اور دعا کی تھی کہ یہ سب جھوٹ یا خواب ہو۔۔۔لیکن نہیں یہ سب سچ تھا۔۔۔کہاں لے آئی تھی قسمت اسے۔۔۔وہ سات پردوں میں رہنے والی سید زادی آج ایک طوائف کے کوٹھے پہ تھی۔۔۔تقدیر نے کیا کھیل کھیلا تھا۔۔۔

اس کا نام حمامہ وقار تھا۔۔۔حمامہ کا مطلب خوبصورت پرندہ جیسے فاختہ۔۔۔وقار اس کے بابا کا نام تھا اور وہ بڑے فخر سے اپنے نام کے ساتھ بابا کا نام لگایا کرتی تھی۔۔کہ اسے اس کے بابا کا نام بہت پسند تھا۔۔۔چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی۔۔۔بڑے لالا اور ابا کے علاوہ بہنوں اور ماں کی لاڈلی۔۔۔وہ سید تھے اور ان کے گھر کا ماحول بہت سخت تھا۔۔۔بابا اور بھائی بہت سخت تھے۔۔سر سے کبھی دوپٹا ڈھلک جاتا تو شامت آ جایا کرتی۔۔۔آپو کی سب سے لاڈلی تھی وہ سارا دن ان کو ستاتی اور فرمائشیں کر کر ان کی مت مار دیتی لیکن وہ کبھی غصہ نا کرتیں۔۔۔۔بس پیار سے کہتی حامو صبر بچے۔۔۔۔اماں،آپو اور بجو اسے پیار سے حامو کہہ کر بلاتے تھے۔۔۔اور اسے اپنا یہ نک نیم بہت پیارا لگتا تھا۔۔۔

بابا کی سخت گیر طبیعت کی وجہ سے ان کے گھر کا ماحول ایک عجیب تناؤ کا شکار تھا۔۔۔لالا اور بابا گھر ہوتے تو لگتا کہ سانس بھی خاموشی سے لیا جائے۔۔۔اور وہ شروع سے ہی اس چیز کی بڑی مخالف تھی۔۔۔بے جا پابندیاں اسے بہت پریشان کرتی تھیں۔۔۔وہ اکثر کہا کرتی تھی۔۔۔آپو حد درجہ پابندی بغاوت کو جنم دیتی ہے۔۔۔اور آپو اسکی اس بات پہ اسے دھل کے دیکھا کرتی تھیں۔۔۔آپو کہتی تھیں حامو حدیں توڑنے والے رسوا ہوتے اور وہ ان کی بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا کرتی تھی۔۔۔

آپو کی بات یاد آتے ہی۔۔۔اس کے لبوں سے سسکی آزاد ہوئی تھی۔۔۔ایسی رسوائی ملے گی اسے اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔۔۔نسوانی قہقہوں اور ساز اور نشے میں دھت مردوں کی چیخنے کی آوازوں نے ماحول کو وحشت ناک بنا دیا تھا۔۔۔وہ ہر آواز پہ لرز جاتی۔۔۔جتنی آیتیں سورتیں یاد تھیں سب پڑھ کہ خود پہ پھونک لیا تھا۔۔۔اس وقت اس کی صرف ایک ہی خواہش تھی۔۔۔۔وہ اس غلاظت کے ڈھیر سے کسی طرح نکل جائے۔۔۔آنسو بار بار پلکوں کی باڑ توڑ کر رخساروں پہ پھسل جاتے۔۔۔۔اور ہر بار وہ لب کاٹتے ہوئے بس ایک ہی شکوہ کرتی خود سے۔۔۔۔کاش میں بھروسہ نا کرتی۔۔۔۔اور یہ وہ تکلیف دہ یاد تھی جو اس کی روح تک کو جھنجھوڑ دیتی۔۔۔۔

وہ میٹرک میں تھی بورڈ کے پیپرز کی تیاری کے لیے ایکسٹرا کلاسس ہو رہی تھیں۔۔۔ایک دن واپسی پہ اماں نہیں آ پائیں لینے تو وہ اپنے پڑوس میں رہنے والی لڑکی کے ساتھ گھر کو چل پڑی۔۔۔سخت گرمی میں سر سے پاؤں تک عبائے میں لپٹی وہ ساتھ کی سب لڑکیوں سے منفرد اور خاص لگتی تھی۔۔۔سنسان سڑک پہ اپنے دھیان چلتے ہوئے اس کے فرشتوں کو بھی خبر نا ہوئی کہ کب کو جیب کترا اس کا بیگ چھین کے یہ جا وہ جا ہو گیا۔۔۔وہ ہکا بکا اپنے خالی کندھے کو دیکھ رہی تھی جہاں کچھ دیر پہلے اس کا بیگ تھا۔۔۔اس کے بیگ میں اس کا ایڈمٹ کارڈ اور دوسرے ضروری کاغذات تھے۔۔۔صورتحال سمجھ میں آتے ہی وہ چیخی تھی۔۔۔میرا بیگ۔۔۔پلیز کوئی میرا بیگ لا دیں۔۔۔اﷲ جی میرا بیگ اس میں میرے ڈاکیومنٹس ہیں۔۔۔اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔۔۔ساتھ والی لڑکیاں اسے حوصلہ دے رہیں تھیں۔۔۔لیکن اس کا نقصان یقیناً بہت بڑا تھا۔۔۔دوسرا اس کہ ساتھ کبھی ایسا ہوا نا تھا وہ بہت ڈر گئی تھی۔۔۔

تب ہی اچانک ایک لڑکا آیا اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔۔۔اور وہ بے طرح ہانپ رہا تھا۔۔۔یہ یہ لیں آپ کا بیگ۔۔۔۔اس نے ہانپتے ہوئے بیگ حمامہ کی طرف بڑھایا جو اس نے لمحے کی تاخیر کیے بغیر سینے سے لگا لیا۔۔۔اس نے بے ساختگی میں لڑکے کو دیکھا۔۔۔ہلکی ہلکی شیو خوبصورت چہرہ گندمی رنگ،دراز قد وہ بلاشبہ ایک پر کشش نوجوان تھا۔۔۔وہ آگے بڑھی تب ہی پیچھے سے آواز آئی۔۔۔۔محترمہ شکریہ ادا کرتے ہیں غالباً ایسے موقعوں پہ۔۔۔۔وہ پلٹی تو وہ اجنبی یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔اس نے شکریہ کہا اور جانے کے لیے قدم بڑھا لیے۔۔۔۔پیچھے سے پھر آواز آئی بندہ ناچیز کو ابراہیم کہتے ہیں۔۔۔۔اور وہ چپ چاپ سر جھکا کے چلتی گئی تھی۔۔۔اب کی بار وہ پلٹی نہیں تھی۔۔۔کہ کہیں پتھر نا ہو جائے۔۔۔۔

ابراہیم کی یاد پہ اس کے آنسوؤں میں روانی آ گئی تھی۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔اس کے لبوں سے سسکی نکلی تھی۔۔۔۔تم نے کیا کیا ابراہیم۔۔۔۔میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔تم نے مجھ سے میرا غرور چھین لیا ابراہیم۔۔۔اﷲ تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گے تم نے میری مخلصی کو خریدا۔۔۔۔تم نے میری محبت کو رولا ہے۔۔۔۔جاؤ ابراہیم ترس جاؤ سکون اور محبت کے لیے۔۔۔۔اس کے آنسو روانی سے بہہ رہے تھے۔۔۔۔

وہ پہلی ملاقات اور پھر ابراہیم ہر روز اس کے راستے میں ہوتا۔۔۔۔کچھ کہتا نہیں بس نگاہ ملنے پہ سر کو ہلکے سے خم دیتا۔۔۔حمامہ کو محسوس بھی نہیں ہوا کہ اسے کب اسکی عادت ہوگئی۔۔۔ہر روز اسے راہ میں دیکھنا اس کی عادت بن گیا۔۔۔اور پھر ایک دن وہ غائب ہو گیا۔۔۔اس دن حمامہ کی حالت عجیب تھی۔۔۔اس سے نا کچھ کھایا گیا۔۔۔بس ایک ہی سوچ تھی ذہن میں کہ ابراہیم کہاں گیا۔۔۔کیوں نہیں آیا۔۔۔وہ ٹھیک تو ہو گا۔۔۔۔بہت بے چین رہی تھی وہ۔۔۔اگلے دن اسے دیکھا تو اس نے بے اختیار سکون کا سانس لیا۔۔۔اور ساتھ ہی اس کی نے شکوہ کناں آنکھوں سے ابراہیم کو دیکھا۔۔۔۔وہ سمجھ گیا تھا شاید اسی لیے بلند آواز میں بولا دوست سے کہ میں بیمار تھا کل ہمت ہی نا ہوئی۔۔۔اٹھنے کی۔۔۔

کیسے؟؟کب؟؟کیوں؟؟اس کی عادت محبت میں بدل گئی اسے اندازہ ہی نہیں ہوا۔۔۔اس کی کچی عمر کی پہلی محبت اور بہت شدید محبت۔۔۔اسے اس شخص کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں تھا۔۔۔ابراہیم ہی اس کا سب کچھ بن گیا تھا۔۔۔وہ سارا دن ساری رات اس کی سوچ میں کھوئی رہتی۔۔۔اس کے لیے اس کی دنیا ابراہیم ہی تھا۔۔۔بس ابراہیم۔۔

جس دن ابراہیم نے اسے بتایا کہ اس کا رشتہ طے ہو رہا ہے اس کی تو مانو روح ہی فنا ہو گئی تھی۔۔اس کا ابراہیم۔۔

وہ سید زادی تھی اس کا نکاح کسی غیر ذات سے ممکن نہیں تھا۔۔۔لیکن وہ ابراہیم کو کھو نہیں سکتی تھی۔۔۔وہ رو دی ابراہیم میں مر جاؤں گی دوست کے فون سے اسے فون کرتے ہوئے اس نے سسک کر کہا تھا۔۔۔اور ابراہیم نے اسے کہا تو پھر آ جاؤ۔۔۔۔محبت کو امر کرو۔۔۔وہ ایک منٹ کے لیے تڑپی تھی۔۔۔میں کیسے گھر سے آ جاؤں؟؟؟؟مجھے نہیں پتا حامی جیسے بھی آؤ لیکن تمہیں آنا ہے۔۔۔۔نیں تمہیں کھو نہیں سکتا۔۔۔۔

تین دن کی جنگ کے بعد تربیت ہار گئی۔۔۔اور محبت جیت گئی۔۔۔وہ رات کے اندھیرے میں گھر سے نکل گئی تھی محبت کے لیے۔۔۔۔۔ابراہیم کے لیے۔۔۔۔ابراہیم نے اسے ٹیکسی میں بٹھایا اور کہا کہ دوست کہ گھر کے جا رہا ہے۔۔۔وہاں نکاح ہو گا۔۔۔وہ اس کے ساتھ چپ چاپ چل دی اسے ایک عجیب سے علاقے میں لایا تھا۔۔۔وہ اس نے پوچھا۔۔۔۔ابراہیم یہ کیسی جگہ ہے۔۔۔جواب آیا بس ہم نکاح تک یہاں ہیں۔۔۔اندر جاتے ہی ایک موٹی بھدی عورت کے ہاتھ میں۔ اس کا ہاتھ پکڑاتے ہوئے۔۔۔۔ابراہیم بولا تھا۔۔۔۔یہ لیں آپکا مال۔۔۔۔بلکل انچھوا ہے۔۔۔۔اور حمامہ نے تڑپ کہ دیکھا تھا۔۔۔۔وہ چیختی رہی چلاتی رہی۔۔۔اور وہ شیطان ہنستا رہا۔۔۔۔اس نے کہا ابراہیم تم نے کہا تھا۔۔۔تم مجھ سے شادی کرو گے۔۔۔۔اور ابراہیم کے جواب نے اس کی دھجیاں اڑا دیں تھیں۔۔۔۔تم گھر بسانے والا میٹیریل نہیں ہو۔۔۔۔حمامہ کو لگا اس کا جسم بے جان ہے اور وہ بے جان ہوتے جسم کے ساتھ اس نے آخری لفظ جو سنے وہ تھے۔۔۔۔کوٹھے کی شان بڑھ جائے گی اس سے۔۔۔۔۔
حمامہ مسلسل رو رہی تھی۔۔۔اﷲ مجھے معاف کر دے۔۔۔۔میں نے جو کیا میں واپس کبھی نہیں جاؤں گی لیکن میرے مالک میری عزت کی حفاظت کر۔۔۔۔مجھے موت دے دے میرے اللّٰہ لیکن مجھے اس غلاظت سے پاک رکھ وہ رو رہی۔۔۔۔اسے اس سوچ سے بھی گھن آ رہی تھی کہ وہ ایسی جگہ ہے۔۔۔۔روتے روتے کب وہ سو گئی اسے پتا نہیں چلا۔۔۔۔کہتے ہیں نا نیند تو سولی پہ بھی آ جاتی ہے۔۔۔۔

اس کی آنکھ آوازوں سے کھلی تھی۔۔۔اٹھو کسی نے ٹھو کر مار کر اسے اٹھایا تھا۔۔۔وہ تڑپ گئی تھی۔۔۔ماں کی لاڈلی کیسے رل گئی۔۔۔

اسے باہر لے جایا گیا سامنے اس کے خریدار بیٹھے تھے۔۔۔خریداروں میں سے ایک وہ شخص تھا جو بھوکی نظر سے نہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اسے اس موٹی بھدی عورت نے ابتسام کے نام سے پکارا تھا۔۔۔۔وہ واحد شخص جس نے اسے حوس سے نہیں دیکھا۔۔۔وہ آنکھیں جھکائے بیٹھا رہا۔۔۔۔کیسا مرد تھا۔۔۔کوٹھے پہ موجود لڑکی کو بھی غلط نگاہ سے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔اور ایک وہ تھا جو عزت بنانے کا فیصلہ کر کے غلاظت میں پھینک گیا تھا۔۔۔۔

اس کو کمرے میں واپس لایا گیا تو اس نے التجا کی کہ میرے ہاتھ نا باندھیں۔۔۔اس پہ رحم کھا کر اس کے ہاتھ کھلے چھوڑے گئے تھے۔۔۔اس نے آنکھیں بند کی۔۔۔اماں،آپو،بجو،لالا،بابا۔۔۔۔۔سب کے چہرے اس کی نگاہوں کے سامنے آئے تھے۔۔۔اس کے بعد ابراہیم کا تمسخر اڑاتا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔۔۔اس کی آنکھوں سے جانے کتنے آنسو گرے تھے۔۔۔۔بابا،لالا،ابراہیم۔۔۔۔یہ وہ مرد تھے جن سے اسے نفرت محسوس ہوئی تھی۔۔۔

اور ایک وہ مرد تھا جو کوٹھے پہ بیٹھ کر بھی حیا کا پابند تھا۔۔۔۔ابتسام۔۔۔

اس نے اپنے ہاتھ میں پہنی چوڑیوں کو کلائی سے اتارا اور روتے ہوئے ان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے۔۔۔ان ٹکڑوں کو ہاتھ میں پکڑ کر اللّٰہ سے معافی مانگی تھی۔۔۔اے مالک دو جہاں۔۔۔مجھے معاف کر دے۔۔۔خودکشی حرام ہے۔۔۔میرے مالک لیکن میں اپنی عزت کو تار تار ہونے نہیں دے سکتی۔۔۔یہ میرا اندھا بھروسہ تھا جو مجھے اس دلدل میں لے آیا۔۔۔

آنسوؤں کے ساتھ اس نے ان چوڑیوں کے ٹکڑوں کو حلق سے اتارا تھا۔۔۔۔اس کے پاس اس کے علاوہ ایسا کچھ نا تھا۔۔جس سے وہ خود کو ختم کر سکتی۔۔۔

کانچ نے اندر جاتے ہی ہر رگ کو کاٹ کہ رکھ دیا تھا۔۔۔۔اس کی آنکھیں بند ہونے لگی اسے موت نظر آ رہی تھی۔۔۔اور اس کے لب بے آواز پھڑ پھڑا رہے تھے۔۔۔کاش مجھے ابراہیم سے نہیں ابتسام سے محبت ہوتی۔۔۔مرد بے وفا ہوتے ہیں۔۔۔لیکن ابتسام دیکھ کر پتا چلا ہے۔۔۔مرد باحیا بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔

اگر اس کے لالا اور بابا اتنے سخت نا ہوتے تو وہ یہ بغاوت نا کرتی۔۔اور تباہ نا ہوتی۔۔۔

حد درجہ پابندی بغاوت کو جنم دیتی ہے۔۔۔اور اس بغاوت کا انت کبھی کبھی موت ہوتا ہے۔۔۔حمامہ کے انت کی طرح۔۔۔
 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 47411 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.