لاک ڈاؤن ضروری نہیں

شادی کو بیس سال گزر چکے تھے۔ وہ بیگم جس کو شادی سے قبل دیکھ کر سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس کی کمر بھی ہے یا نہیں، آج ہال نما کمر لئے انتہائی آسودہ حال تھی۔ میاں زندگی کی دوڑ میں جہاں ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا، وہیں بیگم وزن اور حجم میں سب کو مات کر رہی تھی۔اس معاملے میں میاں بہت ہی نالائق ٹھہرا تھا۔ وہ اسی طرح دبلا پتلا تھا جیسا کہ بیس سال پہلے۔اب اسے اگر کبھی بیگم پہ پیار آتا تو حسرت سے اسے فقط دیکھنے پر اکتفا کرتا کیونکہ بیگم کو ایک قسط میں گلے ملا نہیں جا سکتا تھا ،شاید چار یا اس سے بھی زیادہ قسطوں کی ضرورت تھی اور پھر جوابی وار برداشت سے باہر تھا بلکہ زندگی داؤ پر لگانے والی بات تھی،اسلئے یہ سوچ کر کہ چوہا لنڈورا ہی بھلا، وہ کبھی جذباتی نہیں ہوتا تھا۔ایک دن دونوں اکٹھے پلنگ پر لیٹے تھے۔ نوے فیصد پلنگ پر قبضہ گروپ کی طرح بیگم قابض تھی اور دس فیصد پر وہ بہت سمٹا ہوا لیٹا تھا۔ہر قبضہ گروپ کی طرح بیگم نے بھی مزیدپھیلنے کی کوشش میں اپنی لکڑی کے بھاری شہتیر جیسی ٹانگ اس پر رکھ دی۔

شدید دباؤ میں ٹوٹتی ہڈیوں کو محسوس کرتے اس نے زور لگا کر بیگم کو سوال کیا کہ بتاؤ، سسک سسک کر مرنا اچھا ہوتا ہے یا یکدم مرنا۔ بیگم نے جواب دیا۔ سسک سسک کر مرنا تو ایک عذاب ہے۔ یکدم موت تو ہر بندے کے اپنے لئے نعمت ہے۔ اس نے بیگم سے التجا کی کہ پھر دوسری ٹانگ بھی مجھ پر رکھ دو کہ اب جو سسک رہا ہوں اس کی نسبت مرنا آسان ہو جائے۔اس ملک میں ہی نہیں پوری دنیا میں اک وبا کا راج ہے،اس کے ازالے کے لئے ہم نے لاک ڈاؤن اختیار کیا ہے۔ لاک ڈاؤن سمارٹ ہو یا غیر سمارٹ ، یہ بیگم کی ایک ٹانگ کا شکار ہونے کے مترادف ہے۔ میں ذاتی طور پر لاک ڈاؤن کے خلاف ہوں۔ کاروبار زندگی کو روٹین میں چلتے رہنا چائیے البتہ لوگوں کو سماجی فاصلوں اور احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا چائیے۔ جہاں احتیاطی تدابیر نظر نہ آئیں وہاں پولیس کو پوری مداخلت کا اختیار دے دینا ضروری ہے اسلئے کہ یہ قوم صرف اور صرف ڈنڈے کی زبان سمجھتی ہے اور اسے سمجھانا بہت ضروری ہے۔ حکومت صرف نظر رکھے کہ پولیس کے ہاتھوں کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔

وائرس کے متعلق حال ہی میں امریکی سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ یہ وائرس آنکھوں کے ذریعے بھی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ سائنسدانوں کے اس انکشاف کے بعد مجھے سمجھ آئی ہے کہ پاکستان میں کرونا کے مریض اس قدر کم کیوں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ قوم اندھوں کی قوم ہے ۔ جالب نے بھی کہا ہے ’’یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا ، اے چاند یہاں نہ نکلا کر‘‘۔پاکستان کے زیادہ لوگ تو ماشا اﷲآنکھوں سے ہی نہیں بلکہ عقل سے بھی پوری طرح اندھے ہیں۔ وائرس کیسے داخل ہو۔کرونا بھی شرم سار ہے کہ یہ آنکھ سے دیکھتے ہی نہیں وہ کیسے اور کہاں گھسے۔سابق وزیر اطلاعات ،جو ذہانت میں اپنی مثال آپ اور سراپا فراست تھیں ، نے ارشاد فرمایا تھا کہ کرونا نیچے سے بھی آ سکتا ہے۔ مجھے ان کی یہ بات سمجھ نہیں آئی ۔ بیچاری داغ مفارقت دے گئیں ورنہ میں ان سے پوچھتا تو سہی کہ کرونا نے ڈوب کر ابھرنا کیسے سیکھا ہے۔

ہمارے پچاس فیصد لوگ ایسے ہیں کہ جو مٹی پر سوتے ہیں۔چاہے وہ سڑک کی ہو یا ان کے گھروں کے کچے فرش کی۔ سارا دن شدید مشقت کرتے اور بمشکل اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کا سامان کرتے ہیں۔ ملاوٹ زدہ چیزیں کھاتے ہیں۔ وہ جو آٹا کھاتے ہیں اس میں مٹی ملی ہوتی ہے۔ دودھ کے نام پر خالص کیمیکل پیتے ہیں ۔ نمک مرچ اور دیگر چیزوں میں کیا کچھ ملا ہوتا ہے اس کا تصور بھی بڑا شرمناک ہے مگر وہ کسی خالص چیز کے بارے سوچتے ہی نہیں۔ سب کچھ کھا جاتے ہیں۔ان لکڑ ہضم، پتھر ہضم لوگوں کے امیون سسٹم کو روزانہ کسی نہ کسی وائرس کا سامنا رہتا ہے ، وہ وائرس کھاتے اور وائرس پیتے ہیں اور وہ ہر وائرس کو شکست دینے کے عادی ہیں۔کرونا سے انہیں ڈر اس لئے نہیں لگتا کہ انہیں یقین ہے کہ کرونا سے بھی کچھ بھی نہیں ہو گا اور یہ بات حالات ثابت کر رہے ہیں۔

میں بہت عرصے سے لکھتا آیا ہوں کہ ضرورت ہے کہ لاہور کی بڑی بڑی مارکیٹیں،جن میں شاہ عالم مارکیٹ، برانڈ رتھ روڈ کی مارکیٹ، اعظم کلاتھ مارکیٹ ، اردو بازار اور دیگر بڑی مارکیٹیں شامل ہیں، کو لاہور سے باہر منتقل کر دیا جائے۔ مگر اس کے بارے کوئی سوچتا ہی نہیں تھا بلکہ سچ یہ ہے کہ ان میں ایسی سوچ کی صلاحیت تھی ہی نہیں تھی۔مگر منتقلی کا یہ کام کوئی سوچ کر پہلے کر لیا جاتا تو آج گنجان مارکیٹوں میں لوگوں کے فاصلے پر چلنے کی گنجائش تو ہوتی۔ اب یہ کیسے ممکن ہے اندازہ ہی نہیں ہوتا۔عام حالات میں شاید ان مارکیٹوں کی منتقلی مشکل کام تھا اسلئے ہر سابق حکومت کچھ بھی پیش رفت کرنے میں ناکام رہی۔ آج یہ وقت کی شدید ضرورت ہے۔ لوگ بھی موجودہ حالات میں شاید یہ منتقلی آسانی سے قبول کر لیں۔ رنگ روڈ کے ساتھ ساتھ بہت سی ایسی جگہیں ہیں۔ جہاں بہت کھلی جگہ پر یہ موجودہ مارکیٹیں ، جہاں اس وقت کھڑے ہونے کی جگہ بھی مشکل سے ملتی ہے، آسانی سے منتقل کی جا سکتی ہیں۔موجودہ مارکیٹوں کے حالات کچھ اس طرح خراب ہیں کہ نئے کاروباری کے لئے وہاں بالکل گنجائش نہیں ہوتی اور پرانے کاروباری مافیہ کی شکل میں من مانی کرتے ہیں۔مگر اس کے باوجود مجبوری میں لاہو میں کئی جگی بہت سی خود رو ہول سیل مارکیٹ وجود میں آ رہی ہیں۔ اگر یہ کام حکومتی سطح پر ہو جائے تو اچھی پلاننگ کے ساتھ بہتر انداز کی جگہ کاروباری حضرات کو میسر آ سکے۔اور شاید میرا قدیم لاہور ،جس کو کاروباری طبقہ اس وقت مکمل تباہ کررہا ہے ، شاید کسی حد تک محفوظ ہو جائے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500576 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More