کرونا وائرس اور تعلیمی ادارے

(مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان)
کرونا وائرس کی وجہ سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا۔لاک داؤن کے دوران تمام شعبے بند کیے گئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے سرکاری اور انتظامی دفاتر کھولے گئے،پھر بینکوں کے سامنے لمبی لمبی قطاریں نظر آنے لگیں،اس کے بعد فیکٹریاں اور کار خانے کھول دیئے گئے، پھر بازار اور مارکیٹیں مرحلہ وار کھولی گئیں۔ابتداء میں وقت کی پابندی کروائی گئی،پھر ایام مخصوص کیے گئے پھرہر قسم کی قدغن اور پابندی سے آزاد قرار دیا گیا۔۔۔پہلے فاصلہ اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی گئی لیکن پھر سب نے دیکھا کہ بازاروں میں رش کا کیا عالم تھا۔یہ جو مرحلہ وار تبدیلی کا عمل دیکھنے میں آیا ہم اس کی نفی بھی نہیں کرتے اور نہ اس کی ضرورت سے انکار ہے ظاہر ہے آخر کب تک سب کچھ بند رکھا جا سکتا ہے؟ آخر تو ایک دن ہر عمل شروع ہونا ہے۔۔۔۔ہر دروازہ کھلنا ہے لیکن جو اہم ترین اور قابل غور بات ہے وہ ترجیحات کا تعین ہے۔ہمارے ہاں سرکاری سرگرمیاں ہمیشہ جاری رہیں، سرکاری دفاتر بلا تعطل کھلے رہے۔۔۔۔کیونکہ حکومت کو ان کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہے۔بینک،کارخانے اور بازار مرحلہ وار کھولے گئے کیونکہ ان کی ضرورت کا احساس کیا گیا،انہیں اپنی ترجیحات میں شامل رکھا گیا لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں کرونا وائرس کی آڑمیں دو شعبوں سے امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔

وہ دو شعبے ہیں 1 دینی اور مذہبی معاملات 2 تعلیم کا شعبہ۔۔۔کرونا کی آڑ میں بعض عناصر کی طرف سے مذہب کے معاشرتی کردار کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ۔صاف نظر آتا ہے کہ کرونا کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا چنانچہ مساجد کو بند رکھنے کی کوشش کی گئی،مساجد کے آئمہ و خطبا ء کو ہراساں کیا گیا،مساجد کو سخت مانیٹرنگ اور کڑی نگرانی میں رکھا گیا۔میڈیا اور ذرائع ابلاغ نے مساجد کے روزنوں، دروازوں، درزوں اور دیواروں پر کیمرے نصب کر دئیے۔لیکن اﷲ رب العزت کے فضل و کرم سے مساجد کے آئمہ و خطباء،ملک کے تمام مکاتب فکر کے ممتاز علمائے کرام،مساجد انتظامیہ اور عام مسلمانوں اور شہریوں کے ذمہ درانہ طرز عمل کی بدولت الحمدﷲ مساجد کے معاملے میں ہم سرخرو ٹھہرے اور عوام الناس کی دینی, ایمانی اور روحانی ضروریات طویل اور صبر آزما جدو جہد کے بعد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن حکومت اور ریاست کی طرف سے دینی ضروریات کو معاشرے کی بنیادی اور اہم ترین ضرورت سمجھا ہی نہیں گیا۔

مذہب کی طرح تعلیم کے معاملے میں بھی افسوسناک طرز عمل دیکھنے کو ملا۔کرونا وائرس کی وباء پھیلنے سے قبل ہی تمام تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ تعلیمی اداروں کے معاملے میں سرا سر غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل اپنایا گیا اور تعلیم کو سرے سیاہمیت نہیں دی گئی۔

حکومتی اور ریاستی طرز عمل سے لگتا ہے کہ دین اور تعلیم کسی کی ترجیح ہی نہیں حالانکہ دین اور تعلیم صنعتوں، بازاروں، مارکیٹوں، دفاتر اور بینکوں سے زیادہ اہم اور بنیادی انسانی ضرورت ہے اس لیے یہ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہئیے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ممالک جہاں کرونا وائرس پوری شدت سے موجود ہے۔۔۔۔جہاں اموات ہم سے زیادہ ہوئیں۔۔۔۔جہاں لاک ڈاؤن ہم سے زیادہ سخت ہے وہاں بھی تعلیمی ادارے کھول دئیے گئے یا کھولے جا رہے ہیں۔خاص طور پر فرانس، بلیجم اور دیگر یورپی ممالک میں مرحلہ وار تعلیمی ادارے کھولے جا رہے ہیں۔برطانیہ میں یکم جون سے تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں۔یہ ان ممالک کا حال ہے جو شرح خواندگی میں ہم سے بہت زیادہ آگے ہیں اور جہاں وبا کی شدت بھی بہت زیادہ ہے جبکہ ہمارے ہاں سرے سے تعلیم کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ہماری دانست میں ہماری پسماندگی اور انحطاط کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کے بارے میں ہمارا یہ طرز عمل اور تعلیم کے ساتھ ہمارا یہ سلوک ہے اور اس دوران پوری قوم کا جو تعلیمی نقصان ہوا اس کی تلافی کسی طرح ممکن نہیں اس لیے اب تعلیمی ادارے کھولنے میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔

ہماری رائے میں تو تمام تعلیمی اداروں کو ترجیحی بنیادوں پر کھولا جانا چاہیے جبکہ دینی تعلیم کے اداروں یعنی دینی مدارس کو تو بند ہی نہیں کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ اس وبا ء سے نجات کیلئے صرف ظاہری اسباب و وسائل ہی کافی نہیں بلکہ اوراد وظائف،اعمال اور رجوع الی اﷲ کا اہتمام ہی دراصل ہمارے لیے مشکل سے نجات کا ذریعہ ہے۔

اس لیے مشکل کی اس گھڑی میں مساجد و مدارس کو قال اﷲ وقال الرسو ل کی صداؤں سے پھرسے آباد کرنا چاہیے تاکہ اﷲ رب العزت کی رحمت کا نزول ہو کیونکہ قرآن کریم اور احادیث رسول کی تعلیم رحمت خداوندی کے نزول کا ذریعہ ہے۔ہمیں تعلیم کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا چاہیے خاص طور پر دینی تعلیم کو سر فہرست رکھنا چاہیے۔اگر بحران کے اس دور میں اور مشکل کی اس گھڑی میں ہم تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل نہ کر سکے تو یہ بہت بڑا المیہ ہو گا۔اﷲ رب العزت ہمارے ارباب اقتدار کو احساس اور شعور عطا فرمائیں اور بحیثیت قوم ہمیں دین و مذہب اور تعلیم کو اپنی دیگر تمام ضروریات سے مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔۔۔آمین
 

Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 129711 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.