اگر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے تمام کیڈرز کی ہر دلعزیز
شخصیات کی فہرست بنائیں تو یقینا ان میں احمد رشید کا نام سرفہرست ہو گا سچ
تو یہ ہے کہ انہوں نے ٹیچنگ اور مینجمنٹ کیڈر کے عہدوں پر بے لوث خدمات
سرانجام دیں اور دونوں کیڈرز میں یکساں مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے -
وہ یکم جون 1960 کو چارسدہ کے معروف قصبے عمرزئی میں پیدا ہوئے۔ ۔ان کے
والد بزرگوار کا اسم گرامی عبدالرؤف تھا وہ بھی پیشہ معلمی سے تعلق رکھتے
تھے۔ آپ محض تین سال کے تھے کہ والد کے سایے سے محروم ہوگئے ان کے چچا سمیع
الرحمان نے تربیت کی ذمہ داری سنبھالی جو ریٹائرڈ پرنسپل تھے۔ آپ نے
ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول عمرزئی سے حاصل کی۔ میٹرک کی سند بھی اسی
سکول سے حاصل کی۔ چارسدہ ڈگری کالج سے گریجویشن کی پشاور یونیورسٹی سے
پرائیویٹ طور پر ایم اے پشتو کی ڈگری حاصل کی۔بعدازاں اسی جامعہ سے ایم اے
جرنلزم کی ڈگری حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے ۔آئی ای آر سے بی ایڈ کیا۔
پھر زرعی یونیورسٹی سے پرائیویٹ طور پر ایم ایڈ کی ڈگری لی ۔ دور طالب علمی
میں ان کا شمار ذہین طلباء میں ہوتا۔ بچپن سے انہیں معلم بننے کا شوق تھا
اور پھر 1981 میں گورنمنٹ ہائی سکول نستہ سے بحثیت معلم اپنے کیریئر کا
آغاز کیا۔ بعد ازاں ڈبگری گیٹ میں سی ٹی پوسٹ پر تعیناتی ہوئی۔ پھر 1998
میں پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرتے ہوئے ہیڈ ماسٹر بنے اور گورنمنٹ
ہائی سکول نوتھیہ قدیم میں پوسٹنگ ہوئی ۔ اپنی ان تھک محنت کی بدولت ایک
ماڈل سکول میں تبدیل کر دیا۔ وہ پھر ڈپٹی ڈی او پشاور بنے۔ یہی موڑ ان کی
زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا ۔
آپ نے نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا۔2007 میں پرائمری اساتذہ کے
لئے اپ گریڈیش کا ڈرافٹ تیار کیا ۔یوں اساتذہ کو پہلی بار ترقی ملی۔ آپ نے
تعلیمی اداروں کے لئے سٹاف اسٹیٹمنٹب بھی بنایا 2010 میں آپ نے چارسدہ میں
ڈپٹی ڈی او کی حیثیت سے اپنے فرائض منصبی سرانجام دئیے۔انہوں نے بحثیت
ڈسٹرکٹ آفیسر چارسدہ فی میل بھی خدمات سرانجام دیں ۔
کچھ عرصہ کے لئے مالاکنڈ بورڈ میں بھی اسسٹنٹ کنٹرولر رہے۔ ٹیکسٹ بک بورڈ
پشاور میں ایس ایس پشتو بھی خدمات سرانجام دیں پھر 2013 سے 2017 تک
سیکریٹری ٹیکسٹ بک بورڈ رہے۔ انہوں نے آی ایل او میں ڈسٹرکٹ منیجر کی حیثیت
سے اپنے فرائض منصبی سرانجام دیئے۔اسی طرح سواپ پراجیکٹ میں بھی کام کیا۔وہ
پشاور کے مرکزی سکول گورنمنٹ شہید حسنین ہائیر سیکنڈری سکول کے پرنسپل بھی
رہ چکے ہیں۔31 مئی 2020 کو گورنمنٹ ہائی سکول رجڑ چارسدہ سے ریٹائرمنٹ حاصل
کی۔
آپ جس طرح افسران بالا کی قدر کرتے اسی طرح اپنے ماتحتوں پر بھی دست شفقت
رکھتے۔
آن کی مقبولیت کا راز یہ تھا کہ مسئلہ پیدا نہیں کرتے بلکہ مسائل کا قابل
قبول حل نکالتے۔ عاجزی و انکساری کا پیکر بن کر رہے لیکن رعب و دبدبہ بھی
کمال کا تھا۔اگر وہ غصہ بھی ہوتے تو ان کے اندر سے محبت جھلکتی۔ ہر معاملے
کو حکمت و بصیرت کی عینک سے دیکھتے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے
جب میری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں نئی نئی انٹری ہوئی تھی تو سروس بک میں
ڈگریوں کی انٹری کا مسئلہ درپیش تھا ۔کسی نے لمبا چوڑا راستہ بتایا ایک
مہربان دوست نے کہا کہ ایس ڈی ای او صاحب سے خود ملو بڑے شریف النفس آفیسر
ہیں۔ انہوں نے میری اصلی اسناد دیکھیں اور بڑی آسانی سے دستخط کر دیئے وہ
دن اور آج کا دن میں اسے بڑے ادب واحترام سے ملتا ہوں۔حاجی صاحب نے مختلف
عہدوں پر خدمات سر انجام دیں۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک بہترین معلم اور بہترین منتظم تھے۔ پبلک ڈیلنگ کا
ہنر جانتے تھے۔وہ اپنی تعلیمی کیرئیر کی شاندار اننگ کھیلتے ہوئے اپنے گھر
کی پویلین کو لوٹ گئے۔ یوں تو ان کا حلقہ احباب بہت وسیع ہے تا ہم ان کے
رفقاء خاص میں حکیم اللہ، صاحزادہ حامد محمود، جانس خان اصغر علی، حامد
جان،ایاز خان اور اورنگزیب شامل ہیں۔ |