میرے وطن میں ان دنوں ایک نادیدہ وائرس اپنے پنجے گاڑھے
ہوئے ہے نا صرف میرے دیس میں یہ خوف کی علامت بنا ہوا ہے بلکہ پوری دنیا
میں یہ موت کی صورت رقص کر رہا ہے اسے کورونا وائرس کے نام سے پہچانا جا
رہا ہے یہ وائرس نہ ہی دیکھائی دیتا ہے اور نہ ہی اسے اس کی بد بو یا خوشبو
سے محسوس کیا جا سکتا ہے یہ وائرس دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کی زندگیاں
نگل گیا ہے ۔ ادھر میرے ہاں میری دھرتی کے لوگوں نے کورونا کو کوئی خاص
اہمیت نہیں دی جس کی وجہ سے آج وطن عزیز میں کورونا متاثرین کی تعداد ستاون
ہزار (57000) کے قریب پہنچ چکی ہے اور شنید ہے کہ کورونا ابھی مزید منہ زور
ہوگا ۔ مگر آج میں جس خطرناک وائرس کی بات کرنا چاہتا ہوں وہ کورونا سے
ہزار گنا زیادہ خطرناک ہے کورونا ایک ایسا وائرس جو جسم کی موت کا باعث
بنتا ہے اور اس سے موت کے امکانات بھی محض تین فیصد ہیں ستانوے فیصد بچنے
کی امید ہوتی ہے مگر میرا موضوع بحث وائرس قوموں کی تباہی کا باعث بنتا ہے
اور اس وائرس سے بچاؤ تب ہی ممکن ہے کہ اپنی شناخت کو قائم رکھا جائے اگر
ایسا نہ کیا گیا تو ستانوے فیصد تباہی لازمی ہے اور اس وائرس کا نام ہے
انگریزونا وائرس یہ وائرس انسان سے اس کا تکلم ،اسکی شناخت کو چھین کر اسکی
اقدار کی تباہی کا سبب بن رہا ہے ۔بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح
نے جب ببانگ دہل یہ ارشاد فرما دیا تھا کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی
جو اسکی یکجہتی کی علامت ہوگی ،جو اسکی اقدار کی پاسبان ہوگی ،جو اسکی
تہذیب کی ضامن ہوگی ۔تب انگریز نے اپنی غلامی کے پٹے سے مزین فرنگی کی
محکومی کے دلدادہ ایسے لوگوں کو محرک بنا کر جن کو دھرتی سے غداری کے صلے
میں اس نے جاگیریں عطا کی تھیں انگریزونا وائرس اس دھرتی پہ پھیلا دیا اور
یہ وہی لوگ تھے جو کل بھی انگریز بہادر کے بہی خواہ تھے اور آج بھی اسی کے
حمائتی اور وفادار ہیں جو کل بھی اردو کے مخالف تھے اور آج بھی اسکے نفاذ
کی راہ میں رکاوٹ یہ لوگ انگریزونا وائرس کے پھیلاؤ میں پیش پیش ہیں ۔ اس
وائرس نے نصاب تعلیم میں سے اردو کو ہلاک کر دیا پھر ہماری تہذیب پر حملہ
آور ہوا اور اسے ختم کرنے کے درپے ہوگیا زبانوں سے اس وائرس نے اردو کو
کھرچ ڈالا ،اور وہاں انگریزی کو لا بٹھایا اس وائرس کی تباہ کاریاں کیا کیا
بیان کروں یہاں تک کہ ہمارے بچوں کو ایک دو تین چار والی گنتی سے نا بلد کر
دیا اب وہ ون ٹو تھری فور پر اکتفا کرتے ہیں یہ انگریزونا وائرس کورونا سے
اس لئے بھی خطرناک ہے کہ قوم کا تشخص تک کھا رہا ہے بارہا عدالتوں نے بھی
اسکے خلاف ویکسئین یعنی نفاذ اردو کا صادر فرمایا مگر غلام ذہنیت اور
انگریزونا وائرس سے متاثرہ لوگوں نے فوری طور پر کتبے اٹھا کر احتجاج شروع
کر دیا کہ کہ نامنظور نامنظور اردو زبان نامنظور آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟
کیوں یہ انگریزونا متاثرین اس قسم کے نعرے لگا رہے ہیں ؟آئیے اب اس پر
تھوڑا غور کرتے ہیں ۔سب سے پہلی بات جو میرے ذہن میں آتی ہے کہ اگر اردو کا
نفاذ عمل میں آجاتا ہے تو اس دھرتی سے مخصوص طبقے کی اجارہ داری کا خاتمہ
ہو جائے گا جو انگریز کے پروردہ لوگوں کو کسی صورت بھی قبول نہیں،کیونکہ
انگریزی نظام تعلیم نے دو طبقات کو جنم دیا ایک وہ طبقہ جو اعلیٰ ترین
عہدوں پر متمکن ہوتے ہیں جو بیوروکریٹ،ٹیکنو کریٹ اور پارلیمنٹیرین بنتے
ہیں اور دوسرا طبقہ بیچارہ منشی ٹائپ لوگ جو کلرک کیشئراور ان سرمایہ داروں
کے زیادہ سے زیادہ مینجر بن جاتے ہیں انگریز کے لے پالک یا پالتو بیرون
ممالک سے پڑھ کر آتے ہیں اور اس دھرتی کے اعلیٰ ترین عہدوں پہ براجمان ہو
جاتے ہیں اور حقیقی پاکستانی انکی چاکری کرنے کے لئے رہ جاتے ہیں اس سے بڑا
المیہ اور کیا ہوگا کہ 73سالہ تاریخ کھنگال لیں پاکستان کی کہ اس پر زیادہ
حکمران وہی طبقہ رہا جو پاکستان کا شہری محض جزوی طور پر رہا وگرنہ کوئی
برطانوی شہری یہاں حاکم بنا کبھی کوئی امریکن شہری کچھ یاد ہو کہ کسی
پاکستانی شہری نے بھی اس مملکت خداداد پر حکمرانی کی ہو ؟اور اس سے بھی بڑا
المیہ ہی نہیں بلکہ سانحہ یہ ہوا اس وطن کے ساتھ کہ نہ تو آج تک ہم اپنا
نظام تعلیم بنا سکے اور نہ نصاب تعلیم ،یکساں نصاب تو آج تک لاگو ہی نہیں
ہو سکا کہ جو نصاب ایچیسن میں پڑھا جا رہا ہو وہی نصاب ایک دیہی علاقے کے
کالج میں بھی ہو پھر پتہ چلے کہ سرمایہ دار کا بچہ زیادہ ذہین ہے یا ایک
مزدور کا جہاں انگریزی بولنا قابلیت کی علامت ہو وہاں کا اﷲ ہی حافظ ۔دکھ
کی بات تو یہ ہے کہ نفاذ اردو کے حق میں جو فیصلہ عدالت نے سنایا وہ خود
اردو کا تمسخر اڑاتا ہوا دیکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ فیصلہ بھی انگریزونا
وائرس سے متاثرہ لگ رہا ہے اب دیکھتے ہیں انگریزونا وائرس کی تباہ کاریاں
سب سے پہلے تو اس خطرناک وائرس نے رشتوں کے تقدس کا خاتمہ کیا جس کی وجہ سے
پاکیزہ سوچ اپنی موت آپ مر گئی اور بے ادبی و بے راہروی بڑھی مثال کے طور
پر ابو جی اور امی جان کی جگہ ماما اور پاپا نے لے لی ،چچا ،تایا،ماموں،
پھوپھا،اور خالو یک جنبش لب انکل ہوگئے اسی طرح چچی ،تائی ،ممانی ،پھوپھو،اور
خالہ کا خاتمہ بالخیر اسی وائر کی وجہ سے آنٹی نے کر دیا لفظ بہن اسی وائرس
کے زیر اثر سکڑ کر پہلے سسٹر بنا اور اب Sisرہ گیا ماموں زاد، چچا زاد ،
پھوپھوزاد،خالہ زاد بہن بھائی لفظ کزن کے وار سے اپنی موت آپ مر گئے رشتوں
کی پہچان کے لئے جو ہمارے معاشرے میں بزبان اردو جو رائج الفاظ تھے ان سے
رشتوں کی پہچان کے ساتھ ساتھ تقدس کی مہک آتی تھی مگر اب یہ جو الفاظ رائج
ہورہے ہیں انگریزونا وائرس کی بدولت یعنی انکل ،آنٹی اور کزنز یہ ہمارے
معاشرتی تقدس کے لئے زہر قاتل ہیں اس کے علاوہ انگریزونا وائرس سے متاثرہ
نسل اردو لکھنے سے عاری ہوکر رومن اور غلط سلط انگریزی لکھ کر اپنی زبان سے
شناسائی کھو چکی ہے ۔اچھے بھلے پڑھے لکھے لوھ اس وائرس کی زد میں آکر
انگریزی بولنا اپنے لئے باعث فخر سمجھ رہے ہیں اور اردو بولنا جہالت سمجھتے
ہں کیا اس وائرس کا تدارک ممکن ہے ؟ جی ہاں بالکل ہے مگر اس کے لئے سوچ کو
قومی بنانا پڑے گا ہجومی نہیں کیونکہ اردو ہی وہ واحد زبان ہے جو تمام
علاقائی پاکستانیوں کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے پنجابی ،سندھی ، پختون،بلوچی ،سرائیکی
،براہوی پوٹھوہاری اور تمام علاقائی زبان بولنے والوں کو ایک مرکز پر
لاکھڑا کرتی ہے یہی بات فرنگی اور غلام ذہنیت کے لوگ بصد فخر انگریزی کا
پٹہ گلے میں ڈالے انگریزونا وائرس زدہ لوگ اس واعرس کو اس تیزی سے پھیلا
رہے ہیں کہ تمام دفاتر ،عدالتیں ،مکتب ،کالجز اور یونیورسٹیاں سب ہی اس
وائرس کی بری طرح لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں ہمیں نفاذ اردو کی ویکسیئن سے اس
قوم کو بچانا ہے تاکہ یہ ملک پاکستان لگے امریکہ یا بر طانیہ کی کالونی
نہیں ۔
|