بھارت پچھلی کئی دہائیوں سے جنوبی ایشیاء کاتھانیدار بننے
کے خواب دیکھ رہا ہے جوچینی فوج نے پچھلے دنوں چکناچورکردیا۔بھارتی سورماؤں
کی حالت زاردیکھنے والی تھی،دن رات پاکستان کیخلاف دھاڑنے والے سورما اس
روز بھیگی بلی بنے ہوے تھے۔بھارت اوراس کے اتحادیوں نے جومنصوبہ بنایاتھا
چین نے اسے بروقت ناکام کردیا ۔چینی فوج کے ہاتھوں بھارت کی مرمت اورہزیمت
نے امریکااوراسرائیل کوبہت کچھ باورکروادیا ہے ۔ مودی کے اقتدارمیں آنے سے
جہاں بھارت میں انتہاپسند ی اورمنافرت میں نہایت شدت آئی وہاں بحیثیت ریاست
اس کی بربادی کاسفر بھی مزید تیز ہوگیا ہے۔مودی نے اپنے سیاسی مفاد کیلئے
بھارت کے قومی مفادات کوداؤپرلگادیا ۔بابری مسجد شہید کرنے کے بعدوہاں رام
مندرتعمیرکرنے کی ضد نے بھارتی مسلمانوں کوبی جے پی سرکار کیخلاف علم بغاوت
بلندکرنے پرمجبورکردیا۔جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا الیکشن جیت کر
امریکامیں نفاق کی بنیادرکھ دی تھی اس طرح نریندرمودی نے بھی بھارت
کابٹوارہ کرتے ہوئے اسے تقسیم کردیا اوریہ تقسیم 1947ء کی تقسیم سے بہت بڑی
ہے،مودی کے اقتدارمیں آنے کے بعد اکھنڈبھارت کاخواب دیکھنے والے یقینا احمق
ہیں۔اب ہندوستان کی کوکھ سے مزید کئی پاکستان پیداہوں گے ،سنگھوں کاخالصتان
بھی بنے گااورجموں وکشمیرکی آزادی بھی اب زیادہ دورنہیں۔ ہماری دعاہے
نریندرمودی بحیثیت وزیراعظم ہیٹ ٹرک کرے اوروہ اپنے ہاتھوں سے بھارت
کاشیرازہ بکھیردے ۔مودی کی قیادت میں بھارت بربادی کی جس تاریک راہ پرچل
پڑا ہے اب اسے کنویں میں گرنے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔
کچھ دن پہلے کچھ دن پہلے چائنہ نے لداخ میں بھارت کا منہ توڑ جواب دیا یہی
نہیں بلکہ مزید پیشرفت کر کے بہت سا متنازع ایریا بھی اپنے قبضے میں کرلیا
ہے ۔ انڈیا اور چین کا سرحدی تنازعہ بہت پرانا ہے اور 1962 ء کی جنگ کے بعد
یہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔انڈیا اور چین کے درمیان تین ہزار 488 کلومیٹر کی
مشترکہ سرحد ہے۔ یہ سرحد جموں وکشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، سکم اور
اروناچل پردیش میں انڈیا سے ملتی ہے اور اس سرحد کو تین حصوں میں تقسیم کیا
گیا ہے۔ مغربی سیکٹر یعنی جموں و کشمیر، مڈل سیکٹر یعنی ہماچل پردیش اور
اتراکھنڈ اور مشرقی سیکٹر یعنی سکم اور اروناچل پردیش۔بہر حال انڈیا اور
چین کے درمیان سرحد کی مکمل حد بندی نہیں ہوئی اور جس ملک کا جس علاقے پر
قبضہ ہے اسے ایل اے سی کہا گیا ہے تاہم دونوں ایٹمی ملک ایک دوسرے کے علاقے
کو اپنا علاقہ قراردیتے رہے ہیں جو کشیدگی کا باعث بھی رہا ہے۔انڈیا مغربی
سیکٹر میں اکسائی چین پر اپنا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہ خطہ اس وقت چین کے
کنٹرول میں ہے۔ 1962 ء کی جنگ کے دوران چین نے اس پورے علاقے پر قبضہ کر
لیا تھا۔گزشتہ 10 برسو ں میں بھارت اپنے سرحدی انفراسٹرکچر کو بڑھاوا دے
رہا ہے، دور دراز ہمالیہ علاقوں میں نئی سڑکوں اور ایئربیسز کا افتتاح کیا
گیا ہے۔ سرحدی جھڑپیں بھارت اور چین کے درمیان 3،488km (2،167 میل) فرنٹیئر
میں زیادہ تر نئی نہیں ہیں۔
چین اوربھارت کے درمیان حالیہ جھڑپ میں بھارتی فوجیوں نے چینی فوجیوں کو ان
علاقوں میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جس پر
انڈیا اپنا دعویٰ کرتا ہے لیکن چینی فوجیوں نے وہی زنجیر بھارتی سورماؤں کے
گلے میں ڈال دی اورانہیں کتابنادیا۔ لداخ کے علاقے میں واقع اس علاقے کو
چین بھی اپنی سرزمین قرار دیتا ہے۔انڈیا اپنے شاطرانہ ہتھکنڈوں سے باز نہیں
آتا اور ہر سرحد پر تنازعہ اس کی عادت بن گئی ہے۔ کبھی کبھی تو ایسے فریب
باندھ کر خود کو بہت طاقتور ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے ،اسے اپنے
اتحادیوں پربھی بہت گھمنڈ تھا جو لداخ کے میدانوں میں ملیامیٹ ہوگیا۔ انڈیا
جومتعدد داخلی مسائل سے دوچار ہے ،بھارت کی شایدایسی کوئی ریاست نہیں جہاں
آزادی کی تحریک نہ چل رہی ہو۔بھارت کے نئے شہریت قانون نے اسے داخلی
انتشار،فسادات جبکہ دنیا میں اسے بری شہرت کے سواکچھ نہیں دیا۔ بھارت سات
دہائیوں سے اپنے ہمسایہ پاکستان کے ساتھ تناؤاورتصادم کاماحول بنائے ہوئے
ہے ،پاکستان نے تنازعات کے پائیدارحل کیلئے بھارت کوبارہامذاکرات کی دعوت
دی مگر بھارتی قیادت نے نہ صرف ہربارراہ فراراختیارکی بلکہ الٹا پاکستان
کوڈرایادھمکایا ۔چین اورنیپال بھی بھارت کے پڑوسی ہیں مگران کے ساتھ بھی
پچھلی کئی دہائیوں سے اس کے سرحدی تنازعات چلے آرہے ہیں۔ادھر پاکستان کے
وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی کے حالیہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انڈیا
کو کبھی نیپال سے مسئلہ ہو جاتا ہے اور کبھی وہ افغان امن عمل میں رخنہ
اندازی کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی یہ بلوچستان میں شورش کو ہوا دیتا ہے اور اب
انڈیا نے لداخ میں وہی حرکت کی ہے اوراب بھارتی حکمران اوروہاں کے صحافی
الٹا چین کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
|