یاد رہے کہ مودی کو دوسری بار وزیر اعظم بنے ایک سال
کی مدت گزر چکی ہے ،موصوف نے 30مئی 2019کو دوسری بار اپنے عہدے کا حلف
اٹھایا تھا اور اس کے بعد سے اب تلک نہتے کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں
کیخلاف ریاستی دہشتگردی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ رواں ہفتے کے
دوران ہندوستان میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جس سے بھارتی پولیس میں
مسلم دشمنی کا اظہار ہوتاہے ۔
بھارت کی مرکزی وصوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ نفاذ قانون کی ایجنسیوں کے
علاوہ سی بی آئی اور این آئی اے جیسی ایجنسیوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ
قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہو تو قانون سب کے لئے یکساں ہونا چاہیے
کیوں کہ بھارتی آئین نے تمام ہندوستانیوں کو باوقار زندگی گزارنے اور اپنے
اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا پورا حق دیا ہے (یہ الگ بات ہے کہ اس پر کہاں
تک عمل ہورہا ہے) ۔ اگر ہندوستان میں پولیس اور بھارتی فوج مذہب اور ذات
پات اور علاقوں کی بنیاد پر نا انصافی کرنے لگیں تو یہ کسی کے بھی مفاد میں
نہیں ۔
ہندوستان میں فرقہ پرستی میں گزرے برسوں کے دوران خطرناک حد تک اضافہ ہوا
ہے۔ مسلمانوں، کشمیریوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں پر مذہب کی بنیاد پر
بار بار حملے کیے گئے جبکہ دلت اور قبائل کو ذات پات کی بنیادپرتشددکا
نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر مودی کی زیرقیادت بی جے پی کے اقتدار میں آنے
کے بعد’’ گجرات ماڈل‘‘کو دہرایا جا رہا ہے۔ سارے ہندوستان خاص طور پر بی جے
پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں پر حملوں میں اضافہ ہو،ا ہجومی تشدد
کے نام پر مسلم نوجوانوں کی زندگیاں چھینی گئیں۔
مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، ان کے تجارتی
ادارے تباہ کیے گئے، مسلمانوں سے منسوب باوقار تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم
طلباء کو شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے جس
کی مثا ل علی گڑھ اور جامعہ ملیہ کے واقعات ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات ہوں یا
ہجومی تشدد کے واقعات، مسلمانوں کی جانیں جاتی رہی ہیں اور ان کی املاک کو
نقصان پہنچتا رہا ہے اس کے باوجود گرفتاری بھی مسلم نوجوانوں کی ہی ہوتی ہے
گویا’’ وہی ذبح بھی کرئے ہے وہی لے ثواب الٹا‘‘
بھارتی پولیس میں امن وامان کو یقینی بنانے اور معاشرے میں فرقہ واریت کا
زہر گھولنے والوں سے نپٹنے کی ہمت نہیں ہے۔حالاں کہ اگر بھارتی پولیس چاہے
تو فرقہ ورانہ فسادات نہیں ہو سکتے۔اس وقت بھارت میں ظلم و جبر کی انتہا یہ
ہے کہ مدھیہ پردیش کے علاقے میں پولیس نے فرقہ پرستی کا مظاہر بدترین
مظاہرہ کرتے ہوئے ایک وکیل کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا، پہلے سے شوگر اور
بلڈ پریشر کے امراض میں مبتلا وکیل کو اس واقعہ نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا
کہ آخر فرقہ پرستوں نے ہندوستان کی حالت اس قدر خراب کردی ہے کہ پولیس بھی
فرقہ پرستوں کی آلہ کار بن کر ان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔
دراصل وہ وکیل ہندو تھا لیکن ان کے چہرے پر داڑھی دیکھ کر مدھیہ پردیش کی
بہادر پولیس نے انہیں مسلمان سمجھ لیا اور پھر مسلمان پر پولیس والے ایسے
ٹوٹ پڑے جیسے آوارہ ۔۔۔ پھینکی ہوئی ہڈیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
اس جانور کی مثال اس لیے دی ہے کہ جو لوگ اپنے فرائض کی انجام دہی میں
کوتاہی برتتے ہیں اور تعصب اور جانبداری کا مظاہرہ کرکے مذہب کی بنیاد پر
عوام سے سلوک کرتے ہیں تو انہیں کسی بھی طرح انسان نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ
یہ جنونی ٹولہ شائد انسان کہلانے کے لائق ہی نہیں ہے۔ بھارتی تشدد کا شکار
ایڈوکیٹ دیپک کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اس معاملے کو بھارتی صدر اور
بھارتی چیف جسٹس تک پہنچایا تو پولیس نے یہ کہتے ہوئے ان سے معذرت کی کہ
بھائی ہم سے غلطی ہوگئی کیونکہ ہم نے آپ کو مسلمان سمجھ لیا تھا تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ مسلمان ہیں تو کیا بھارتی پولیس محض اس
بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنانے کا حق رکھتی ہے۔ اس طرح کے درندوں کو یہ یاد
رکھنا چاہیے کہ ظلم زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہ سکتا اگر مظلوم کی آہ عرش
کو بھی ہلا دیتی ہے۔ بھارتی پولیس میں فرقہ پرستی کا زہر اس قدر سرایت کر
چکا ہے کہ بھارت میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ۔امید کی جانی
چاہیے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برداری کے سبھی انسان دوست حلقے دہلی کے
حکمرانوں کی اس سفاکانہ اور غیر انسانی روش کو لگام ڈالنے کی بابت اپنا
موثر کردار ادا کرئیں گے
|