مخلوق خدا کی خدمت میں ہی انسانیت کی عظمت کا راز مضمر ہے
اور یہی انسان وسیع و عریض کائنات میں فطرت کا سب سے خوبصورت شاہکار ہے۔
رواں برس کے دوسرے ماہ یعنی فروری میں کورونا وباء جب پورے پاکستان میں
پھیلنے لگتی ہے تو ہر روز اموات بھی بڑھنے لگتی ہیں، متاثرین کی تعداد
درجنوں سے سینکڑوں اور پھر ہزاروں کا ہدف چھونے لگتی ہیں تو ایسے میں وفاقی
حکومت چاروں صوبائی حکومتوں، آزاد کشمیر حکومت اور گلگت بلتستان حکومت،
مسلح افواج، عالمی برادری کے ساتھ انسانی حقوق کیلئے بر سر پیکار اداروں /
تنظیموں کے تعاون سے اِس وباء کو کنٹرول کرنے کی جدوجہد شروع کرتی
ہے۔دیہاڑی دار مزدور اورعام آدمی سے لے کر نجی شعبہ جات سے منسلک افراد کو
بچانے کیلئے اقدامات کیے جاتے ہیں۔وطن عزیز کے دیگر اداروں کی طرح قدرتی
آفات و سانحات سے نبردآزما رہنے والا خدمت انسانیت کے صف ِ اوّل کا ادارہ
ہلال ِاحمر پاکستان جو کہ دنیا بھر کے 192 قومی سطح کی تنظیموں کے ساتھ
الحاق رکھتا ہے نے بھی کورونا وباء کے خلاف حکومتی اقدامات کو تقویت بخشنے
کا عہد کیا کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اکیلی حکومت اِس وباء سے نمٹ
نہیں سکتی تھی۔ اِس ضمن میں ’’روشن ازہان‘‘ ہلالِ احمر نیشنل ہیڈکوارٹرز کے
کمیٹی روم میں جمع ہوتے ہیں اِن تمام تیز تر دماغوں کی سربراہی چیئرمین
ہلال ِاحمر ابرار الحق کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ آئیں ایک بڑے ہسپتال کا
قیام عمل میں لاتے ہیں جو کورونا سے متاثرہ افراد کے علاج معالجہ کیلئے ہو
جہاں داخل ہر فرد زندگی پائے اور کورونا وباء کو شکست دے ، چہ جائیکہ یہ
مستحسن، قابلِ رَشک اعلان دِکھتا ہے مگر اِس کے عملی جامہ پہنانے کیلئے
وسائل محدود ملتے ہیں۔محدود وسائل اور منصوبہ کی مخالفت میں اُٹھتے ابرو
یکجا ہو کر بھی جناب ابرارالحق کے جذبہ کو سرد نہ کرسکے وہ ایک مدبر، قابلِ
تقلید اور اپنی زبان سے نہ پھرنے والے رہنما کے طور پر سامنے آئے اور وہ
ایسے دِکھے کہ جیسے انہیں منزل اور راستہ صاف دکھائی دے رہا ہے۔ وہ ایسے
گویا ہوئے کہ جیسے اُن کے کہنے سے ہی ایک جاذبِ نظر، قابل ِ اعتماد، قابلِ
بھروسہ اور بالخصوص متاثرہ افراد کیلئے جائے پنا ہ ہسپتال کی صورت سامنے
ہے۔ اُن کی نظریں راقم پر ٹھہر جاتی ہیں اور وہ قدرے توقف سے بولتے کہ خالد
بن مجید صاحب یہ اب آپ اور آپکی ٹیم کے سپرد ہے، اُمید رب بَرنظر آتی ہے،
اِس ٹھہری گفتگو کے دوران راقم کی جانب سے ’’ہم یہ کرکے دِکھائیں گے‘‘ کا
جملہ ارتعاش پیدا کرتا ہے ۔مایوسی کے گہرے سائے روشن صبح کی نوید سنانے
لگتے ہیں۔ سرگوشیاں ہمت باندھتی ہیں۔ عوامی مفاد کے اِس منصوبہ کیلئے
مطلوبہ فنڈز کے انتظام کیلئے میری عمیق نظریں متلاشی تھیں اور اﷲ کی
مہربانی و کرم شامل حال تھا۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈکراس، انٹرنیشنل
کمیٹی آف ریڈکراس اور نارویجن ریڈ کراس کے تعاون اور اپنے وسائل کو اکھٹا
کیا تو صورت بر نظرآئی۔ اِس ضمن میں ہلالِ احمر منیجنگ باڈی کے اراکین نے
کلیدی کردار ادا کیا۔ اُن کا کردار اندھیرے میں جگنو کی روشنی کا ساتھ جس
کی لوسے ہم منزل کو دیکھ پائے۔ اِن کی جانب سے فیصلوں کی توثیق اقدامات کی
منظوری اوررہنمائی نے ہم سب کے حوصلوں کو جلا بخشی ۔مشترکہ کاوشیں ہمیشہ
دیرپا ثابت ہوتی ہیں کے مصداق ہم نے اپنی جدوجہد رغدانہ شروع کردی راولپنڈی
میں ہلال ِاحمر برانچ کی عمارت کو ہسپتال میں بدلنے کا خواب دیکھنے والی
آنکھیں نیند کو ترسیں، جسم تھکاوٹ سے چور ہوئے، روزمرہ کے معاملات میں
ابتری آئی مگر صرف 18 دِنوں میں برلب سڑک پر شکوہ عمارت ’’کورونا
کیئرہسپتال‘‘ میں تبدیل ہوگئی، آتی جاتی نظریں اِس پر ٹھہرنے لگیں، تمام
طبّی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔ چین کی طبّی ماہرین ٹیم بھی ششدر
رہ گئی اُن کی ضروری ہدایات و سفارشات پر مکمل عملدرآمد کیا گیا۔ چیئرمین
ہلالِ احمر جناب ابرارالحق کے اِس خواب کو تعبیر دینے کیلئے ہرباہمت مردوزن
نے کردار ادا کیا۔ صدیقی چوک میں ہلال ِاحمر کورونا کیئر ہسپتال نہ صرف وطن
ِ عزیز بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک رول ماڈل بنا یہاں ابتداء میں 74 افراد
داخل کیے گئے جوکہ تمام کے تمام صحت یاب ہوکر اپنے اپنے گھرو ں کو لوٹے اب
بھی 20 سے زائد افراد زیر علاج ہیں اگرچہ یہاں آئی سی یو کے علاوہ سو سے
زائد بستروں کی گنجائش موجود ہے۔وزیراعظم عمران خان گوناں گوں مصروفیات سے
وقت نکال کر اِس بے نظیر و بے مثال ہسپتال کو دیکھنے آتے ہیں۔وہ طبّی عملہ
، ڈاکٹرز سے گفتگو کرتے ہیں، اقدامات پر خوشی کا اظہار کرنے اور ہلال ِاحمر
کی کاوش کو سراہتے ہیں انہیں مکمل بریفنگ دی جاتی ہے۔ جو اِس بات پر منتج
ہوتی ہے کہ حکومتی اقدامات کو تقویت بخشنے کیلئے ثمر آور بنانے کیلئے ہلال
ِاحمر آپ کے شانہ بشانہ ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی دورہ کیا،
انتظامات دیکھے اور ہلال ِاحمر کی ٹیم کو مبارکباد دی۔حکومتی سطح سے ہسپتال
کومستقبل کیلئے بھی بہتر علاج گاہ کا درجہ دیئے جانے کے اقدامات سے ہلال
ِاحمر ٹیم کے حوصلے بلند ہوئے ، جذبہ خدمت بڑھاء اوریہاں دو بفر زون،
مردوزَن کیلئے الگ الگ آئسولیشن وارڈز کی سہولت کو ہر مکتبہ فکر کی جانب سے
سراہا گیا ۔اِس سے بڑھ کر فیورکلینک کی سہولت سونے پر سہاگہ ثابت ہوتی ہے،
چینی ماہرین طبّ کی ہدایات پر عملدرآمد سے ہسپتال میں بھیڑ لگنے، آلودگی
پھیلنے جیسے اسباب کا خاتمہ ہوتا ہے۔ بریگیڈئر (ر) مودت رانا کی سربراہی
میں نفسیاتی امداد کی فراہمی کیلئے ٹاسک فورس 24 گھنٹے کام کررہی ہے یہ
منفرد قسم کی خدمت بہت سی قباحتوں کو ختم کردیتی ہے۔ بروقت تشخیص اور معیار
ی علاج کے فارمولہ کو کامیابی سے ہمکنار کیا گیا۔ اِن اقدامات نے ہلال
ِاحمر کورونا کیئر ہسپتال کو اپنی مثال آپ بنا دیا اور یہ گونج نہ صرف ملک
بھر بلکہ بیرونی دنیا میں سنائی جانے لگی۔میں پورے وثوق سے جہاں ہلالِ احمر
کی ٹیم کی جانفشانی کا معترف ہوں وہاں ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر) اظہار
الحق، وائس چانسلر راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر عمراورہمدمِ دیرینہ
میجر (ر) اسرار الحق کی جانب سے ہر طرح کا تعاون بھی ہمارے لیے قابل رَشک
رہا۔ دعا گو ہوں کہ یہ منصوبہ اپنی افادیت کبھی نہ کھوئے اور اِس علاج گاہ
کی کامیابیوں کا تسلسل برقرار رہے قطرہ قطرہ دریا بناتا ہے کے مصداق ہلالِ
احمر کی یہ کاوش رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے۔ کارِ خیر میں حصہ ڈالنے والا
ہر ہاتھ سلامت رہے، کامیابی کیلئے برسنے والی آنکھیں تا اَبد روشن رہیں اور
اِس ہسپتال کیلئے دھڑکنے والے دِل کبھی مدہم نہ ہوں۔
ہم اپنا فرض کریں گے ادا بہر صورت
ہمارا کام ہے رائیں تراشتے رہنا
|