سونے کا بادشاہ

بچوں!ایک دفعہ کا ذکر ہے ملک مصر میں ایک بادشاہ رہتا تھا۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے بادشاہ اور ملکہ اداس اداس رہتے ۔بادشاہ کو یہ ہی غم کھائے جاتا کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا تخت کون سنبھالے گا۔

ایک دن بادشاہ اپنے محل میں اداس بیٹھا تھا کہ ایک آدمی دربار میں آیا اور بادشاہ کو ایک سونے کا ہیرا دیا۔اور بادشاہ نے وہ ہیرا ملکہ کو دے دیا۔ ملکہ نے خوش ہوکر اس آدمی کو انعام دیا اور وہ چلا گیا۔

ملکہ ہر وقت اس سونے کے ہیرے کو پاس رکھتی۔اور اس کو ایک منٹ کے لیئے بھی اپنے سے جدا نہ کرتی۔

ایک دن کیا ہوا کہ وہ سونے کا ہیرا کہیں رکھ کر بھول گئی اور کافی تلاش کے بعد بھی اس کو سونے کا ہیرا نہ ملا۔ ملکہ کافی اداس ہو گئی۔ اور چپ چپ رہنے لگی۔ بادشاہ اس کو کافی لطیفے سناتا لیکن ملکہ توجہ نہ دیتی۔لیکن کچھ عرصے بعد اس کے ہاں ایک بہت حسین بچہ پیدا ہوا بلکل میری طرح کا۔ خیر دربار میں کافی جشن منایا گیا اور غریبوں میں کھانا تقسم کیا گیا۔ ملکہ نے اپنے بچے کا نام سونے کا بادشاہ رکھا۔ ملکہ کہتی چونکہ یہ مجھے سونے کے ہیرے کے بدلے میں ملا ہے لہٰذا اس کا نام سونے کا بادشاہ ہے۔

سونے کا بادشاہ جب بڑا ہوا تو کافی خوب صورت نکلا ۔ اس کے والدین نے اس کا رشتہ پڑوس کے ملک کے بادشاہ کی بیٹی سے کرا دیا۔

پرانے زمانے میں شہزادوں کو ڈولی میں بٹھانے کا رواج تھا۔ لہٰذا شہزادے کو بھی ڈولی میں بٹھا کر لے چلے۔ ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے تھوڑی دیر آرام کے لئیے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔

کرنی خدا کی کیا ہوئی کہ اس درخت پر کچھ دھوکے باز پریاں رہتی تھیں۔ انہوں نے چپکے سے شہزادے کو ڈولی میں سے نکال لیا۔جب ڈولی کو دوبارہ اُٹھایا گیا تو وہ ہلکی معلوم ہوئی۔جب انہوں نے دیکھا تو ڈولی خالی تھی۔انہوں نے واپس جا کر سارا واقعہ ملکہ اور بادشاہ کو بتایا وہ دونوں بھی کافی پریشان ہوئے۔ لیکن انہوں نے لڑکی والوں کو کچھ نہ بتایا اور شہزادے کی کچھ خاص چیزیں مثلاً :تلوار، رومال اور کچھ مزید چیزیں بھیجی اور کہا کہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ لڑکا تب لڑکی سے ملتا ہے جب دولہن گھر آتی ہے۔

خیر دولہن گھر آ گئی لیکن یہ کیا ایک دن دو دن گزر گئے لیکن دولہا کمرے میں نہ آیا۔ خیر اس نے ایک نوکرانی سے پوچھا تو اس نے اس کو سارا ماجرا بتا دیا کہ کس طرح شہزادہ شادی کے دن ہی غائب ہو گیا تھا۔ شہزادی نے جب سارا قعہ سنا تو وہ مردانہ روپ دھار کر اپنے خاوند کی تلاش میں نکل گئی۔

شہزادی ہر جگہ اپنے خاوند کو تلاش کرتے کرتے تھک کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گئی۔اچانک اس کی نظر درخت پر پڑی تو اس کو ایک درخت پر ایک اڑن کھٹولا نظر آیا جس میں ایک شخص بیمار حالت میں پڑا ہوا تھا۔ شہزادی نے اس سے پوچھا تم کون ہو؟

اس شخص نے بڑی مشکل سے اپنا حال دل بتایا کہ کس طرح شادی والے دن یہ پریاں مجھے یہاں لے آئیں ۔مجھے پریوں کا کھانا پسند نہیں اس لئیے میں کمزور ہو گیا ہوں۔

یہ سن کر شہزادی نے اسے اپنے ساتھ لایا ہوا کھانا دیا جسے شہزادے نے بڑے مزے سے کھا لیا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد شہزادی نے اس کو ایک کپڑے کا بڑا سا ٹکڑا دیا اور کہا جب تمھارا اڑن کھٹولا اڑے تو تم کپڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پھینکتے جانا مجھے پتہ چل جائے گا تم کہاں جا رہے ہو۔

یہ کہہ کر وہ درخت سے نیچے آگئی اور سو گئی۔ جب رات ہوئی تو پریاں اڑن کھٹولا لے کر چل پڑیں اور شہزادہ کپڑے کے ٹکڑے نیچے پھینکتا رہا۔

صبح شہزادی اپنے گھوڑے پر سوار ہوئی اور جہاں جہاں ٹکڑے پڑے ہوئے تھے وہ ان کی سیدھ میں چل پڑ اور جاں ٹکرے ختم ہوئے تو اس کو پھر ایک درخت پر اڑن کھٹولا نظر آیا ۔جس میں شہزادہ لیٹا ہوا تھا۔ شہزادی نے اس کو کھانا دیا۔

پھر وہاں کے ایک اچھے اور ہوشیار لوہار کے پاس گئی اور اسے کہا کہ اگر وہ ایسا صندوق بنا دے کہ جس میں بییٹھتے ہی وہ صندوق خود بخود بند ہو جائے تو وہ اس کو اس کام کے نتیجے میں کافی انعام دے گی۔

خیر صندوق تیار ہو گیا۔ شہزادی نے اس میں مٹھائی ڈال کر وہ صندوق اڑن کھٹولے میں رکھوا دیا۔

رات کو پریاں اڑن کھٹولے کو اڑانے آئیں تو مٹھائی کے لالچ میں صندوق کے اندر گھس گئیں ۔ان کا صندوق میں گھسنا تھا کہ وہ بند ہو گیا۔ شہزادی درخت پر چڑھی اور شہزادے کو اڑن کھٹولے میں سے نکال کر اسے اس کے ماں باپ کے پاس لے گئی۔

بادشاہ اور مکہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
Ghulam Mujtaba Kiyani
About the Author: Ghulam Mujtaba Kiyani Read More Articles by Ghulam Mujtaba Kiyani: 34 Articles with 89680 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.