جنوبی ایشیاء میں بھارتی توسیع پسندانہ روش

 پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے توقع ظاہر کی ہے کہ بھارتی حکمران آگ سے کھیلنے کی کوشش نہیں کرئیں گے ورگرنہ انہیں سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے اور یوں علاقائی اور عالمی امن کسی بڑے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے اور خدا نخواستہ ایسا ہوا تو دہلی کا حکمران ٹولہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کو مودرالزام نہیں ٹھہرا سکتا۔یاد رہے کہ بھارتی حکمرانوں کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ وہ اپنے سبھی پڑوسی ملکوں خصوصا چھوٹے ہمسایوں پر طاقت کے زور پر تسلط جماتا آیا ہے ،اپنی اسی دیرینہ روش کے مطابق سکم بھی بھارتی ریاستی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گیا تھاجب RAWکی سازشوں کے سبب بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سکم جیسی چھوٹی ہمالیائی ریاست پر اپنا ناجائز قبضہ جمالیااور تب سے لے کر ابھی تک یہ چھوٹا سا ملک ہندوستانی افواج کے قبضے میں ہے۔

یاد رہے کہ سکم شمال مشرقی ہندوستان کی ایک ریاست ہے جس کی کل آبادی 2011کی مردم شماری کے مطابق 610,577 ہے اور اس کا قبہ 7,096مر بع کلو میٹر ہے۔ اس کی سرحد شمال اور شمال مشرق میں چین، مشرق میں بھوٹان، مغرب میں نیپال اور جنوب میں مغربی بنگال سے ملتی ہے۔ سکم بنگلہ دیش کے قریب ہندوستان کے’’ سلگوری راہداری‘‘ کے قریب بھی واقع ہے۔یہ ہندوستانی ریاستوں میں سب سے کم آبادی والی اور دوسری چھوٹی ریاست ہے۔ سکم مشرقی ہمالیہ کا ایک حصہ کنگ چنجاگا کا میزبان بھی ہے، جو ہندوستان میں سب سے اونچی چوٹی اور زمین پر تیسرا بلند ترین پہاڑی سلسلہ ہے۔ سکم کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر گنگٹوک ہے۔ ریاست کا تقریبا 35 فیصد حصہ خانچندزونگا نیشنل پارک کا حصہ ہے۔

اس ریاست کی بنیاد 17 ویں صدی میں نامیجل خاندان نے رکھی تھی۔ اس پر ایک بدھ مت کے پجاری بادشاہ نے حکومت کی جس کوچاغیال کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سن 1890 میں برطانوی ہند کی ایک سلطنت ریاست بنی۔ 1947 کے بعد، سکم نے بھارت کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات جاری رکھے۔بھارت نے ہمالیائی ریاستوں میں شرح خواندگی اور فی کس آمدنی کافائدہ اٹھایا۔ 1973 میںRAWکی سازشوں کے نتیجے میں چاغیال کے محل کے سامنے شاہی مخالف فسادات کرائے گئے۔

1975 میں بھارت کی سازش کے نتیجے میں دہلی سرکار سکم پر قابض ہو گئی اور یوں1975 میں بھارت نے ایک نام نہاد ریفرنڈم کا ڈرامہ رچایا اور طاقت کے بل بوتے پر سکم پر اپنا قبضہ جما لیا۔

جدید سکم ایک کثیر الثانی ہندوستانی ریاست ہے۔ ریاست کی سرکاری زبانیں انگریزی، نیپالی، سکمیمیز اور لیپچہ ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دوسری زبانیں مثلا گرونگ، لیمبو، ماگر، مکیا، نویری، رائے، شیرپا، اور تمنگ شامل ہیں۔ انگریزی زبان اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے اور سرکاری دستاویزات میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کے اہم مذاہب ہندو مذہب اور بدھ مذہب ہیں۔ سکم کی معیشت زیادہ تر زراعت اور سیاحت پر منحصر ہے، اور 2014 تک، ریاست ہندوستانی ریاستوں میں تیسری سب سے چھوٹی جی ڈی پی تھی۔

ہندوستان میں الائچی کی پیداوار میں سب سے زیادہ حصہ سکم کے پاس ہے اور لاطینی امریکہ کے گوئٹے مالا کے بعد دنیا میں اس مصالحے کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ سکم نے 2003 سے 2016 کے دوران اپنی زراعت کو مکمل طور پر جدید زراعت کے خطوط پر استوار کر لیا اور اس ضمن میں خاصی ترقی حاصل کر لی، جو یہ امتیاز حاصل کرنے والی ہندوستان کی پہلی ریاست ہے۔یہ اپنے مخصوص آب و ہوا کی وجہ سے ما حولیاتی لحاظ سے آلودگی سے محفوظ ہے ۔سکم نے پوری ریاست میں ماحول کے تحفظ کی غرض سے پلاسٹک کی پانی کی بوتلوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

2014 میں سکم کی برائے نام ریاستی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا تخمینہ 1.57 بلین امریکی ڈالر تھا جو ہندوستان کی ریاستوں میں تیسرا سب سے چھوٹی جی ڈی پی ہے۔ریاست کی معیشت زیادہ تر زراعت پر مبنی ہے جو چاول کی چھت والی کھیتی اور مکئی، باجرا، گندم، جو، سنتری، چائے اور الائچی جیسی فصلوں کی کاشت پر مبنی ہے۔ سکم کسی بھی دوسری ریاست کی نسبت زیادہ الائچی تیار کرتا ہے اور الائچی کا سب سے بڑا کاشت رقبہ ہے۔سکم کی سڑکوں کا انتظام بارڈر روڈس آرگنائزیشن (بی آر او) کے زیر انتظام ہے، جو ہندوستانی فوج کا ایک حصہ ہے۔

جنوبی سکم کی سڑکیں نسبتا اچھی حالت میں ہیں اور اس خطے میں مٹی کے تودے گرنے کا امکان کم ہے۔ ریاستی حکومت نے857 1, کلومیٹر (1،154 میل) روڈ ویز کا انتظام کیا ہے جو BRO کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے ۔ 2005 میں، سکم کے 73.2 فیصد گھرانوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل ہے ۔8 دسمبر 2008 کو سکم 100 فیصد حفظان صحت سے متعلق کوریج حاصل کرنے والی ہندوستان کی پہلی ریاست بن گیا ،اگرچہ ماہرین اس بابت تحفظات رکھتے ہیں۔

انسان دوست حلقے پر امید ہیں کہ شاید آنے والے برسوں میں انسانی حقوق کے عالمی ادارے سکم کی آزادی اور خود مختاری کو بحال کرنے میں کسی وقت اپنا انسانی فریضہ ادا کریں گئے اور سکم کو بھارتی قبضے سے آزاد کرانے میں مو ثر کردار ادا کرئیں گے
 

Hammad Asghar Ali
About the Author: Hammad Asghar Ali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.