کورونا وائرس جس نے دنیا کے تمام نظام کو درہم برہم
کردیا. گویا کوئی بھی شعبہ ہائے زندگی اسکی تباہ کاری سے محفوظ نہ رہ سکا.
وہاں تعلیم جیسا عظیم الشان فریضہ بھی متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتا تھا .
یعنی کہ جب تمام ممالک کی طرح پاکستان نے بھی کورونا کے پیش نظر لاک ڈاؤن
لگایا تو تمام صنعتیں، تمام دکانیں بند اور یہاں تک کہ مذہبی حلقوں کو بھی
محدود کردیا . لہٰذا اس خوف کی صورتحال میں تمام تعلیمی اداروں کو بھی بند
کرنا پڑا. کیونکہ طلباء و طالبات کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں. اس سلسلے
میں سب سے پہلا اقدام جو حکومت وقت نے کیا وہ 13 مارچ کو تمام اسکولوں اور
کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بندش تھی. گو کہ اس صورتحال نے نظام تعلیم کو
بہت متاثر کیا. لیکن اس اعلان کے بعد 18 مارچ کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے
تمام یونیورسٹیوں کو آن لائن درس و تدریس کا انتظام کرنے کی ہدایت دی.
لہٰذا تمام یونیورسٹیوں نے طلباء و طالبات اور اسٹاف کی حفاظت کے پیش نظر
آن لائن تعلیم کے حصول کا آغاز کیا. لیکن اس طرز تعلیم(آن لائن تعلیم) کی
یکسر تبدیلی کو اکثر طلباء و طالبات نے زیادہ پسند نہیں کیا. کیونکہ اس سے
قبل پاکستان نے دہشت گردی کے دوران بھی اس طرز تعلیم کو نہیں اپنایا تھا.
لہٰذا کورونا وائرس کے پیش نظر اچانک طرز تعلیم کی تبدیلی نے جہاں خاص قسم
کے طلباء و طالبات کو سکون بخشا جو کہ بہت پہلے سے آن لائن تعلیم کے بارے
میں جانتے ہیں اور پہلے بھی وہ آن لائن تعلیم کے حصول سے مستفید ہوتے رہے
ہیں . لیکن وہاں دوسری طرف بہت سے دوسرے طلباء و طالبات جن کے پاس وسائل کی
کمی ہے اور جو انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں وہ اس تبدیلی کو اپنے گریڈز
کے لئے خطرہ تسلیم کرتے ہیں. یقیناً یہ ایسا مسئلہ ہے جس کو نظرانداز نہیں
کیا جاسکتا. لیکن معلوم ہوتا ہے کہ حکام بالا اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن اس
قسم کے تمام مسائل پر شاید نظر بند کیے ہوئے ہے. چونکہ کورونا جیسے متعدی
مرض کے موقع پر جہاں گھروں میں رہنے کا درس دیا جارہا ہے. اس لحاظ سے تو
تعلیم حاصل کرنے کے لئے آن لائن تعلیم کا ذریعہ ہی محفوظ ترین ذریعہ ہے.
لیکن بعض حالات میں یہ کسی اذیت سے کم نہیں ہے. جہاں آپ کو لیکچر کے حصول
کے لئے اپنے گھر کو چھوڑ کر دور جانا پڑے وہاں یہ ذریعہ یعنی آن لائن تعلیم
اپنی افادیت کھو دیتا ہے .کیونکہ اس دوران طلباء و طالبات کو کورونا وائرس
کا خطرہ بھی در پیش رہتا ہے. لہٰذا ایسی ہی کہانی لیہ میں واقع جامعہ
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے سب کیمپس میں تعلیم حاصل کرنے والے عابد
منظور کی بھی ہے. جب یونیورسٹی بند ہوئی تو باقی طلباء و طالبات کی طرح یہ
بھی اپنے نواحی علاقے نواں کوٹ واپس چلا گیا. لیکن جب یونیورسٹی والوں نے
آن لائن تعلیم کا آغاز کیا تو یہ تعلیم عابد کے لئے کسی تکلیف سے کم نہیں
تھی. کیونکہ وہ جس علاقے میں رہتا ہے وہاں انٹرنیٹ کی سہولت بہت ناپید ہے
اور کم لوگوں تک ہی محدود ہے. عابد کہتا ہے چونکہ میرے پاس انٹرنیٹ کے ساتھ
ساتھ کمپیوٹر بھی موجود نہیں ہے. اس وجہ سے میں آن لائن تعلیم حاصل کرنے سے
قاصر ہوں. یہ تو ایک طالب علم کی کہانی ہے جو کہ آن لائن تعلیم کے حصول کے
لئے بنیادی ضروریات سے محروم ہے، جو کہ اس کے گریڈز میں تنزلی کا باعث بھی
بن سکتا ہے. لیکن ایسی ہی کہانیاں جو کہ در حقیقت اذیت ناک ہیں پاکستان کے
شمالی علاقوں سے بھی سننے کو مل رہی ہیں . یہی وجہ ہے کہ وہاں کے طلباء و
طالبات متاثر ہورہے ہیں اور مزید یہ کہ یہی وجہ بلوچستان کے طلباء و طالبات
کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہے. اس دوران مختلف تصاویر جو کہ سوشل میڈیا پر
گردش کر رہی ہیں ان کے درد کی صحیح عکاسی کرتی ہیں. لیکن سوشل میڈیا پر
مختلف ٹرینڈز بھی اس دوران ٹاپ ٹرینڈ رہے ہیں جو کہ طلباء و طالبات کی طرف
سے ان کے مطالبات کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین تک پہنچانے کا مقصد
تھے. لیکن ان سب ٹرینڈز نے بھی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو اپنے فیصلے پر
نظرثانی کی طرف اپیل نہیں کیا. ان سب ٹرینڈز میں ایک ٹرینڈ یہ تھا کہ ہماری
فیس واپس کی جائے. جو کہ معقول لگتا ہے کیونکہ نہ تو طلباء و طالبات
یونیورسٹی کے کلاس روم استعمال کر رہے ہیں اور نہ ہی ہاسٹل کی سہولت سے
مستفید ہو رہے ہیں اور نہ ہی دیگر سہولیات استعمال کر رہے ہیں. لہذا طلباء
و طالبات کا یہ مطالبہ تو جائز ہے کیونکہ طلباء و طالبات تو دونوں صورتوں
میں پریشان ہیں. سب سے پہلے تو یونیورسٹی کی بھاری فیس ادا کی اور مزید اب
آن لائن تعلیم کے حصول کی مد میں انٹرنیٹ کا خرچہ بھی طلباء و طالبات کو ہی
برداشت کرنا پڑ رہا ہے. جو کہ ان کے والدین پر مزید بوجھ کا باعث ہے. ان سب
کے قطع نظر حکومت کو یہ چاہیے تھا کہ تمام یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کو
فری انٹرنیٹ کی سہولت دی جاتی اور ضرورت مند طلباء و طالبات کے لئے لیپ ٹاپ
کا انتظام بھی کیا جاتا. تاکہ کوئی بھی طالب علم آن لائن تعلیم کے حصول میں
محروم نہ رہ پاتا. مزید یہ کہ ان سب پریشانیوں میں مبتلا طلباء و طالبات
امتحان کا بوجھ کیسے برداشت کریں گے. کیونکہ ایک طرف تو کورونا کا خوف
پھیلا ہوا ہے اور دوسری جانب امتحانات کا خوف یہ سب طلباء و طالبات کی صحت
میں خرابی کا باعث بھی بن سکتا ہے. لہٰذا اس موقع پر برطانیہ اور دیگر
دوسرے ملکوں میں بیشتر طلباء و طالبات یہی چاہتے ہیں کہ تعلیمی سال کا آغاز
تاخیر سے ہو. کیونکہ اس سال اگر ہم اپنی جانوں کی ہی حفاظت کر لیتے ہیں تو
انشاءﷲ اگلے سال ہم تمام تاخیر شدہ کام دوبارہ سے شروع کرسکتے ہیں. لہذا اس
سلسلے میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو بھی طلباء و طالبات کے کچھ مطالبات
ماننا ہوں گے تاکہ طلباء و طالبات کسی بڑے قدم کی طرف پیش قدمی نہ کریں
جیسا کہ ہڑتال یا پھر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے دفتر کا گھیراؤ، ان سب
ہنگاموں سے بچنے کے لئے طلباء و طالبات کی آدھی فیس واپس کرنے والے مطالبے
کو ماننا چاہیے اور نیز یہ کہ اس سال کورونا وائرس کے خوف سے امتحانات کو
موخر بھی کرنا پڑے تو طلباء و طالبات کے وسیع تر مفاد میں فیصلہ کرتے ہوئے
دریغ نہ کریں . یقیناً ورچوئل تعلیم کا ذریعہ ہی وقت کی ضرورت ہے لیکن
پاکستان جیسے ملک میں جہاں اب بھی کافی علاقے انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم
ہیں یہ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہو پائے گا . ان سب معاملات میں سب سے بڑا
بحران جو اس دوران نمودار ہوا ہے وہ طلباء و طالبات اور اساتذہ کا ورچوئل
تعلیم سے دوری ہے. اس سلسلے میں یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہیے تھا کہ طلباء
و طالبات اور اساتذہ کو اس بارے میں آگاہی فراہم کرتے، اور آسان سے آسان
طریقہ کار رائج کرتے اور جتنا ہوسکتا کم از کم بوجھ طلباء و طالبات پر
ڈالتے. لیکن اس سب کے برعکس طلباء و طالبات اسائنمنٹ اور لیکچرز کا بوجھ
برداشت کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ ان کی بساط سے بہت زیادہ ہے. اس سلسلے
میں حکومت کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے طلباء و طالبات کے جائز
مطالبات کو تسلیم کرے. نیز یہ کہ حکومت وقت جس کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان
کو ڈیجیٹل پاکستان بنایا جائے. اس خواہش کی تکمیل کے لئے سب سے پہلے
پاکستان میں انٹرنیٹ کے حصول کو یقینی بنائے . نیز طلباء و طالبات کے لئے
مفت اور سستے داموں انٹرنیٹ اور دیگر ٹیکنالوجی کی رسائی فراہم کرے. تاکہ
مستقبل قریب میں ہمیں جب بھی ورچوئل تعلیم کا استعمال کرنا پڑے تو یہ طرز
تعلیم آسانی کے ساتھ رائج ہوسکے.
|