تعلیم اور علاّمہ محمد اقبالؒ کا نظریہ تعلیم...قسط دوم
(Afzal Razvi, Adelaide-Australia)
|
تعلیم اور علاّمہ محمد اقبالؒ کا نظریہ تعلیم...قسط دوم ۔۔۔ابھی ابھی جو اقتباس میں نے آ پ کے سامنے پیش کیا ہے اس پر غورو خوض کرنے سے پتا چلتا ہے کہ علامہ اقبال اسلامی نظریہئ تعلیم کے کس قدر قائل ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی فلسفہ تعلیم ہی مسلمانوں کے مرض کا علاج ہے ا ور وہ تعلیم جو مذہب اور اخلاق سے دور لے جائے وہ مسلمانوں کے لیے زہر سے کم نہیں۔وہ تعلیمِ مغرب کو صرف اس لیے نا پسند کرتے ہیں کہ اسے حاصل کرنے کے بعد نوجوان اسلامی اقدار کی بجائے انگریزی اقدار کے مداح نظر آتے ہیں،اسی لیے فرماتے ہیں:19 گلاتوگھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ اور پھر اسی مضمون کو ضرب ِکلیم کی نظم دین و تعلیم میں یوں بیان کرتے ہیں:20 اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم ایک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف! اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف! فطرت افراد سے اغماز بھی کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملتّ کے گناہوں کو معاف! علامہ اقبالؒ کا خیال یہ تھا کہ نوجوان صحابہ کرام کی عملی تصویریں بنیں اور ان کا ہر عمل سیرتِ مصطفوی ﷺ کا آئینہ دار ہو۔نوجوانوں کا کوئی فعل شریعت مطاہرہ کے خلاف نہ ہو،ان کا کردار اتنا مضبوط اور مستحکم ہو جائے کہ اغیار اس سے سبق لیں،نوجوانوں کی خودی اتنی اجاگر ہو جائے کہ ان کے سامنے دنیوی اشیا کی کوئی اہمیت نہ رہے،ان کے پیشِ نظر اگر کچھ رہے تو عشقِ مصطفوی ﷺ کی حدت وحرارت اور گرمی ہو، وہ اسے اپنا سرمایہئ حیات تصور کریں اور ایسی تعلیم جس کی وجہ سے مسلمان نوجوان الحاد کا شکار ہو جائیں وہ زہر سے کم نہیں۔اسی لیے وہ مسلمانوں کو انتباہ کرتے ہو ئے ایسی تعلیم کی ضرر رسائی سے آگاہی دلاتے ہوئے کہتے ہیں:21 خوش تو ہم بھی ہیں جوانوں کی ترقی سے مگر لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا ا لحاد بھی ساتھ گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما لے کے آ ئی ہے مگر تیشہئ فرہاد بھی ساتھ ” تخمِ دیگر بکف آ ر یم و بکاریم زنو کانچہ شتیم ز خجلت نتواں کرد درو“ علامہ اقبال جدید تعلیم کے خلاف نہیں کیونکہ انہوں نے خودبھی اس تعلیم سے استفادہ کیا تھا لیکن ان پراس تعلیم کا کوئی اثر نہ ہوا تھاعلامہ کو تہذیب مغرب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ضرور ملاتھا جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا بلکہ وہ اپنے بیٹے جاوید کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:22 جوہر میں ہو لاالہ تو کیا خوف تعلیم ہو گو فرنگیانہ! شاخِ گل پر چہک ولیکن کر اپنی خودی میں آشیانہ! وہ یورپ کو شیطان کی کارگاہ کہتے ہیں کیونکہ اس نے مادہ پرستی کے نظریات کو فروغ دے کر انسانی قدروں کو کمزور کرنے میں بنیادی کردار ادا کیاہے۔بال جبریل میں علامہ نے اس کی بھرپور عکاسی نظم ”لینن“ میں لینن کی زبانی فریاد سے کی ہے۔ فرماتے ہیں: یورپ میں بہت روشنیئ علم و ہنر ہے حق یہ ہے کہ بے چشمہ ئ حیواں ہے یہ ظلمات رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا لاکھو ں کے لیے مرگ ِ مفاجات یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوت بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس کیا کم ہیں فر نگی مدنیت کے فتوحات وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساسِ ِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات23 چنا نچہ اقبال اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جو علم خودی کو بلند کرتا ہے اور سوزِدل سے معمور ہوتا ہے وہی علم قابل ِقدر ہے لیکن صرف علم ہی سے عرفان ذات نہیں ہوتا اور محض علم روحانی اقدار کے بغیر کسی کام کا نہیں۔زندگی میں ایسی تعلیم وتر بیت کارآمد ہے جو عشق اور عقل دونوں کے توازن سے پیدا ہواسی طرح زندگی سدھر سکتی ہے اور انسان مرد کامل کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے،اقبال کہتے ہیں:24 زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے زندگی سوزِ جگر ہے علم ہے سوز ِ دماغ اقبال کہتے ہیں کہ صحیح معنو ں میں علم اس وقت علم بنتا ہے جب یقین کے درجے کو پہنچ جاتا ہے اور انسان خودی کے تینوں مراحل (اطاعت ِالٰہی، ضبط ِ نفس اور نیابت ِالٰہی)طے کرکے مقامِ مردِ مومن کو پہنچ جاتا ہے اور پھر اس کی نگاہوں سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ وہ ایسی تعلیم کے سخت خلاف ہیں جسے حا صل کرنے کے بعد انسان نہ صرف بے رہرو ہو جائے بلکہ صداقت، عدالت،شجاعت اور امامت کا درس تک فراموش کر بیٹھے اور حالت یہ ہو جائے کہ وہ اپنی تخلیق کا مقصد تک بھلا بیٹھے۔اسی لیے کہتے ہیں: 25 علم میں دولت بھی ہے،قدرت بھی ہے،لذت بھی ہے ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ علامہ اقبال ؒ بیک وقت تعلیمِ مغرب کی ضرر رسائیاں بھی ہمارے سامنے لاتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں اس طرح ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم مغربی تعلیم کے ہر دو پہلوؤں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد اپنے لیے کوئی لائحہ عمل اختیار کریں۔علامہؒ، سرسید احمد خاں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کی ان کا خیال یہ تھا کہ مذہبی تعلیم چھوڑ کر زمانے کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے کیونکہ دنیوی ترقی اسی طرح میسّر آسکتی ہے۔ان کا خیال یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں تعلیم قوم کی بیماریوں کا علاج ہے۔بانگِ درا کی نظم’مسلمان اور تعلیم ِ جدید‘میں کہتے ہیں:26 مرشد کی تعلیم تھی اے مسلمِ شوریدہ سر! لازم ہے رہرو کے لیے دنیا میں سامانِ سفر اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملّت کی دوا ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر لیکن جب وہ تعلیمِ مغرب کا مطالعہ کرتے ہیں تو پھر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ:27 رہبر کے ایما سے ہوا تعلیم کا سودا مجھے واجب ہے صحر ا گرد پر تعمیلِ فرما ن ِخضر لیکن نگاہِ نکتہ بیں دیکھے زبوں بختی مری ”رفتم کہ خار از پاکشم، محمل نہاں شد از نظر چنا نچہ اقبال اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جو علم خودی کو بلند کرتا ہے اور سوزِدل سے معمور ہوتا ہے وہی علم قابل ِقدر ہے لیکن صرف علم ہی سے عرفان ذات نہیں ہوتا اور محض علم روحانی اقدار کے بغیر کسی کام کا نہیں۔زندگی میں ایسی تعلیم وتر بیت کارآمد ہے جو عشق اور عقل دونوں کے توازن سے پیدا ہواسی طرح زندگی سدھر سکتی ہے اور انسان مرد کامل کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے،اقبال کہتے ہیں:24 زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے زندگی سوزِ جگر ہے علم ہے سوز ِ دماغ اقبال کہتے ہیں کہ صحیح معنو ں میں علم اس وقت علم بنتا ہے جب یقین کے درجے کو پہنچ جاتا ہے اور انسان خودی کے تینوں مراحل (اطاعت ِالٰہی، ضبط ِ نفس اور نیابت ِالٰہی)طے کرکے مقامِ مردِ مومن کو پہنچ جاتا ہے اور پھر اس کی نگاہوں سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ وہ ایسی تعلیم کے سخت خلاف ہیں جسے حا صل کرنے کے بعد انسان نہ صرف بے رہرو ہو جائے بلکہ صداقت، عدالت،شجاعت اور امامت کا درس تک فراموش کر بیٹھے اور حالت یہ ہو جائے کہ وہ اپنی تخلیق کا مقصد تک بھلا بیٹھے۔اسی لیے کہتے ہیں: 25 علم میں دولت بھی ہے،قدرت بھی ہے،لذت بھی ہے ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ علامہ اقبال ؒ بیک وقت تعلیمِ مغرب کی ضرر رسائیاں بھی ہمارے سامنے لاتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں اس طرح ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم مغربی تعلیم کے ہر دو پہلوؤں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد اپنے لیے کوئی لائحہ عمل اختیار کریں۔علامہؒ، سرسید احمد خاں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کی ان کا خیال یہ تھا کہ مذہبی تعلیم چھوڑ کر زمانے کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے کیونکہ دنیوی ترقی اسی طرح میسّر آسکتی ہے۔ان کا خیال یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں تعلیم قوم کی بیماریوں کا علاج ہے۔بانگِ درا کی نظم’مسلمان اور تعلیم ِ جدید‘میں کہتے ہیں:26 مرشد کی تعلیم تھی اے مسلمِ شوریدہ سر! لازم ہے رہرو کے لیے دنیا میں سامانِ سفر اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملّت کی دوا ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر لیکن جب وہ تعلیمِ مغرب کا مطالعہ کرتے ہیں تو پھر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ:27 رہبر کے ایما سے ہوا تعلیم کا سودا مجھے واجب ہے صحر ا گرد پر تعمیلِ فرما ن ِخضر لیکن نگاہِ نکتہ بیں دیکھے زبوں بختی مری ”رفتم کہ خار از پاکشم، محمل نہاں شد از نظر یک لحظہ غافل گشتم وصد سالہ را ہم دور شد“ علامہ اقبال کے نزدیک مغربی تعلیم کی بنیاد مادہ پرستی پر رکھی گئی ہے اور اس میں روحانیت اور وجدانیت کی نشو و نمااور ترقی کا سامان موجود نہیں ہے۔ اس تعلیم نے ہمیں غلامی پر قانع ہونا سکھایا۔ اپنے اسلاف کے کارنامو ں پر فخر کرنے کی بجائے انگریز ی تہذیب پر ناز کرنا سکھایا اور اس نے دل میں اس بات کو ڈال دیا کہ اگر دولت ہے تو سب کچھ ہے،دولت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال صرف اس تعلیم کے خلاف تھے جو مسلمانوں کو مذہب سے بے گانہ کردے۔ وہ چاہتے تھے کہ علوم ِ جدیدہ کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم بھی ضرورحاصل کی جانی چا ہیے اور اس کا اثر اتنا راسخ ہو نا چاہیے کہ مغربی تعلیم ان کے عقائد میں رخنہ نہ ڈال سکے۔ کیونکہ وہ جا ن گئے تھے کہ یورپین مسلمانوں کے دل سے کسی طرح روح محمد نکال دینا چاہتے ہیں، کہتے ہیں:28 یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح ِمحمد اس کے جسم سے نکال دو ان حقائق کو پیش نظر رکھتے ہو ئے انہوں نے ایک تعلیمی پالیسی مرتب کر دی تھی کہ جس پر اگر عمل کرلیا جاتا تو آج ہم ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہو تے، افسوس صد افسوس کہ ان کے خیالاتِ عالیہ سے استفادہ کرنے کی باتیں تو کی گئیں مگر ان پر عمل کرنے کی کوششیں نہیں کی گیئں۔ان کا تعلیمی میدان میں تجربہ بہت وسیع تھا۔ وہ پہلے گورنمنٹ کالج لاہور اور اورینٹل کالج سے منسلک رہے بعد ازاں ان کا تعلق مختلف یونیورسٹیوں سے بھی رہا1900.ء سے لے کر آخر عمر تک وہ مڈ ل،انٹرنس،ایف۔اے، ایم۔اے اور ایل۔ایل۔بی کے پرچے مرتب کرتے رہے۔ پنجاب،علی گڑھ، ا لہ آباد،ناگ پور اور دہلی یونیورسٹیوں کے ممتحن رہے۔علاوہ ازیں پنجاب یونیورسٹی سینڈیکیٹ کے ممبر بھی رہے۔ علامہ اقبال نے اپنی اسلامی تعلیم کی اسکیم کا ذکر اجمالاًاپنے ایک خط، جو انہوں نے4 جون1925ء کو صاحب زادہ آفتاب احمد خاں وائس چانسلرعلی گڑھ یو نیورسٹی کے ایک تفصیلی نوٹ کے جواب میں لکھا، میں کیا ہے۔لکھتے ہیں: یورپ میں اسلام کا سیاسی زوال بد قسمتی سے کہا جاتا ہے ایسے وقت میں رونما ہوا جب مسلم حکماء کو اس حقیقت کا احساس ہونے لگا تھاکہ استخراجی علوم لا یعنی ہیں اور جب وہ استقرائی علوم کی تعمیر کی طرف کسی حد تک مائل ہوچکے تھے،دنیائے اسلام میں تحریکِ ذہنی عملاً اس وقت سے مسدود ہو گئی یورپ نے مسلم حکماء کے غورو فکر کے ثمرات سے بہرہ اندوز ہونا شروع کیا۔ یورپ میں جذبہئ انسانیت کی تحریک بڑی حد تک ان قوتو ں کا نتیجہ تھی جو اسلامی فکر سے بروئے کار آیئں۔29 علامہ اسی مکتوب میں مزید لکھتے ہیں: ایسے عالموں کا تیار کرناجو اسلامی تاریخ، آرٹ(فنون) اور علم ِتہذیب و تمدن کے مختلف پہلو ؤں پر حاوی ہوں۔“ ایسے عالموں کا پیداکرنا جو اسلا م کے قانونی لٹریچرمیں تحقیق و تد قیق(ریسرچ) کے لیے موزوں ہوں۔۔۔۔ ہمارا قانونی لٹریچرجس کا کافی حصہ ابھی غیر مطبوعہ ہے، بے انتہا ہے۔ میری رائے میں اسے علومِ اسلامیہ کی ایک علیحدہ شاخ قرار دینا چاہیے۔(قانو ن سے میرا مقصد صرف اس قانون سے ہے جس کا تعلق فقہ سے ہے) صرف انہیں عام اصولو ں کے تحت ہمیں علی گڑھ مسلم یونیو رسٹی میں علومِ اسلامیہ کی اسکیم مرتب کرنا چاہیے۔30 علامہؒ کی دلی خواہش یہ تھی کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسا نظام ِتعلیم ترتیب پا جائے کہ جس پر عمل پیرا ہو کرمسلما ن کی خودی بیدار ہو جائے۔ وہ قدیم مدرسہ کے نظام سے قطعی مطمئن نہیں تھے،وہ اپنی مدبرانہ رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: چناچہ جس قسم کا علمِ کلام اور علمِ دین ازمنہ متوسطہ کے مسلمان کی تسکین ِقلب کے لیے کافی ہو تا تھا، وہ آج تسلی بخش نہیں ہے۔۔۔۔۔ اور بہت سے مسئلوں کی طرح اس مسئلہ میں بھی سر سید احمد خاں کی دور رس نگاہ کم و بیش پیشین گوئیانہ تھی۔ جیسا کہ آپکو علم ہے انہوں نے اس کی بنیاد زیادہ تر ایک گزرے ہوئے عہد کے فلسفیانہ معتقدا ت و افکارپر رکھی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میں آ پ کے مسلم دینیات کے مجوزہ نصاب سے اتفاق نہیں کر سکتا۔میرے نزدیک قدیم طرز پر مسلم دینیا ت کا شعبہ قائم کرنا بالکل بے سود ہے۔31 علامہ اقبال دینی مدارس کے طلباء کے لیے نصاب مقرر کرنے کے سلسے میں رقم طراز ہیں: میں چاہتا ہو ں کہ وہ یونیور سٹی انٹر میڈیٹ امتحان پاس کرنے پر مجبور کیے جائیں۔ یہاں وہ سوائے انگریزی کے کوئی دوسری زبان اختیار نہ کر سکیں گے۔دوسرے مضامین میں وہ حسب ِذیل مضامین اختیارکر سکیں گے: (الف) علوم ِطبعی (ب) ریاضیات (ج) فلسفہ (د) اقتصادیات انہوں نے نے اپنے فلسفہ ئتعلیم کو تشکیل ِ جدید الہیات اسلامیہ کے خطبہ اول میں جس طرح بیان کیا ہے ملاحظہ ہو: اگر طاقت اور قوت بصیرت سے محروم ہیں تو اس کا نتیجہ بھی بجزھلاکت اور بیدردی کے اور کچھ نہیں ہو گاہمارے لیے دونوں کا امتزاج ضروری ہے تاکہ عالمِ انسانی روحانی اعتبار سے آگے بڑھ سکے۔32 علامہ اقبال اس بات سے قطعی واقفیت حاصل کر چکے تھے کہ روحانیت کے بغیر مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ ناممکن ہے چنانچہ بال ِ جبریل کی ایک غزل میں اس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:33 دل ِ بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں علم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں مجوزہ افغان یونیورسٹی کے متعلق ایک اخباری بیان میں جو19 اکتوبر1933ء کو شائع ہو ا، میں بھی انہوں نے دینی تعلیم کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے، فرماتے ہیں: شاہِ افغانستان نے ہمیں اس لیے دعوت دی تھی کہ ہم وہاں وزیرِ تعلیم کو کابل میں یونیورسٹی کے قیام کے سلسلے میں مشورہ دیں۔۔۔۔۔ میرااپنا یہ خیال ہے کہ خالص دنیوی تعلیم سے اچھے نتائج پیدا نہیں ہو ئے اور خصوصاً اسلامی ممالک میں مزید برآں کسی طریقہ ئ تعلیم کو قطعی اور آخری نہیں کہا جا سکتا ہر ملک کی ضرویات مختلف ہو تی ہیں اور کسی ملک کے تعلیمی مسائل کے متعلق فیصلہ کرنے میں اس ملک کی خصوصی ضرویات کو خاص طور پر مد ِ نظررکھنا پڑتا ہے۔34 علامہ کی نظم اور نثر پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ مسلمان نوجوانوں میں تین عناصر دیکھنے کے خواہاں ہیں کہ جن کی بدولت ان کی خودی مستحکم ہو سکتی ہے۔وہ عناصر یہ ہیں: علامہ اسا تذہ کو بتاتے ہیں کہ:35 مقصد ہو اگر تربیتِ لعلِ بدخشاں بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پر تو! دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار کیا مدرسہ، کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو! کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو! علامہ طالب علموں کو بھی نصیحت کرتے ہیں کہ:36 خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے مگر صاحب ِ کتاب نہیں علامہ اقبال کے افکار سے یہ نتیجہ ناخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہماری تعلیمی پالیسیوں میں سائنیسی، تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کی طرف توجہ زیادہ دی جاتی ہے حا لانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ تسخیر ِ کائنات کی جامع اسلامی اصطلاح کو اختیار کیاجائے جس میں عصری زندگی کے تمام مادی تقاضے بھی شامل ہیں اور معاش کا مسئلہ بھی خود بخود حل ہو جا تا ہے لیکن افسوس کہ ہم ہم نے آج تک اس سے آگے نہیں سوچا کہ ہماری تعلیم کا مقصد ِاولین طلب ِ معاش ہے اور حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے اس طرف واضح الفاظ میں اشارہ فرمادیا تھا:37 عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا، جس نے قبض کی روح تری دے کے تجھے فکرِ معاش! دل لرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے ترا زندگی موت ہے کھو دیتی ہے جب ذوقِ ِ خروش اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بے گا نہ کیا جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش! مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو خلوتِ کوہ و بیا باں میں وہ اسرار ہیں فاش! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|