عورت_ معاشرے کی پہچان

عورت معاشرے کی پہچان ہے۔ جیسی عورت ہو گی وہ خود سے ویسی نسل ہی پیدا کرے گی۔

عورت کون ہے؟
میرا اس تحرير کو لکه‍نے کا مقصد فلسفہ پیش کرنا نہیں ہے بلکہ ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہے کہ اصل میں عورت ہے کیا اور کچھ حضرات کے مطابق عورت کیا سمجھتی ہے خود کو. اس دنیا کو پیدا کرنے والی ذات صرف خدا کى ہے، صرف الله هى ہے جس نے ہر ایک چیز پیدا کی. اگر انسان نے ترقی کر لی تو خدا نے ہی اسے حکمت سے نوازا ہے، خدا نے ہی اسے جینے کے راستے بتاۓ مگر یہ انسان کی مرضی ہے کہ کونسا راستہ اختیار کرنا ہے.
جہاں تک رہی عورت کی بات تو خدا نے پیدا کیا اسے، عورت کی عزت کرنے کو کہا گیا چاہے وہ کسی بھی روپ میں ہو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی.
کبھی سوچا ہے کہ عورت کو ماں کے روپ میں سب سے زیادہ عزت ملی ہے اور اللہ نے بھی تو جنت ماں کے قدموں میں سجا دی.
ایسا کیوں ہے؟
کبھی سوچا؟
کبھی اللہ کی قدرت کو سمجھنے کی کوشش کی؟
باپ کو جنت کا دروازہ کیوں کہا گیا؟
ماں کو باپ سے زیادہ درجہ کیوں ملا؟
جواب یہی آیا نہ دماغ میں کہ
عورت اولاد کو جنم دیتی ہے اور باپ اولاد کو کما کر محنت کر کے کھلاتا ہے؟
جواب بالکل ٹھیک ہے،
مگر صرف پیدا کرنے اور کھلانے کی وجہ بننے کے لیے خدا نے جنت اور اسکا دروازہ ماں باپ کو بنا دیا؟
یہاں ایک سوال ہے کہ
اللہ نے دوسری مخلوق بھی پیدا کی مگر وہ انسان نہیں بلکہ حيوان ہے وہ بھی اولاد پیدا کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے محنت کرتی ہے۔
مثال کے طور پر بلی بھی اولاد کو جنم دیتی ہی کهلاتی ہے مگر اسے اتنا رتبہ نہیں ملا کیوں؟
کیونکہ اللہ نے باپ کو نسلیں پیدا کرنے کا ذريعہ بنایا اور عورت کو نسلیں سنوارنےکا، مرد کو کمانے کا حکم ہوا اور عورت کو اولاد کی پرورش کا اور گھر کی چار دیواری میں مرد کی عزت کو محفوظ رکھنے کا.
اب یہ سب جانتے ہیں ک باپ اور ماں کا نیا سفر تب شروع ہوتا ہے جب اولاد گھر میں جنم لیتی ہے.
بس؟
باپ کماۓ اور اچھا کھلاۓ، ماں پرورش کرے اور گھر کی چار دیواری میں گھر کے کام کرے؟
ماں بننے کے بعد ہی تو عورت کے باقی روپ ملتے ہیں. عورت کی اصل حقيقت سامنے آتی ہے کیونکہ ماں سے نسل سنورتی بھی اور اجڑتی بھی، تب پتا چلتا ہے کہ عورت گھر کو آباد کر رہی ہے یا برباد.
اللہ نے عورت کو جنت قرار دیا تا کہ وہ ایک گھر کو جنت ہی بناۓ ماں، پہلے ایک عورت ہے، پہلے اسے اپنے گھر کو اپنی جنت بنانا ہے تا کہ آنے والے وقت میں وہ سہی معنی میں جنت کہلائ جاۓ.
بیٹی اپنی ماں کا عکس ہوتی ہے اور بیٹا ماں باپ دونوں کا
کیونکہ شروع میں ماں ہی پرورش کرتی ہے باپ تو کمانے کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے.
اب آپ یہ سوچیں گے کہ بیٹی اور بیٹے دونوں میں ماں کا عکس کیوں؟ یہ غیر مناسب بات کی، مگر یہ سوچا کہ دن رات ماں ہی دونوں کے آس پاس رہتی ہے، بچے اپنی ماں سے سیکھتے ہیں.
اگر بات کی جاۓ بیٹی کی تو بیٹی سیکھتی ہے کہ ماں کا رویہ کیسا ہے سب ک ساتھ، گھر کے ہر فرد کے ساتھ، مہمانوں کے ساتھ اور اپنے شوہر کے ساتھ.
بیٹی سیکھتی ہے کہ میری ماں سب کے ساتھ اچھی ہیں گھر کے کام کرتی ہیں، بڑوں کو عزت دیتی ہیں، اپنے شوہر کی پیروی کرتی ہیں، اپنے ساس سسر کو اپنے ماں باپ کی طرح سمجھتی ہیں، اپنے شوہر کے بہن بھائیوں کو اپنے بہن بھائی سمجھتی ہیں تو آپ کا کیا خیال ہے بیٹی ماں پر نہیں جاۓ گی؟ اپنی ماں کا وہ عکس کیسے نا بنے؟ وہ بالکل اپنی ماں پر جاۓ گی. اور خود کو بالکل اسی طرح ڈھالنے کی کوشش کرے گی۔
اور بیٹا جب دیکھے گا کہ میری ماں اتنا سب کرتی ہیں پھر وہ بھی سوچے سمجھے گا کہ مجھے بھی ایسا بننا ہے۔
ماں باپ نے محنت کی ان کو پڑھایا لکھایا بچے بھی سمجھنے لگیں گے کہ ما باپ کے فیصلے سہی ہیں، اپنی مرضی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
اگر ہر ماں ایسی بن جائے تو ساس بہو، نند بھابی کا کوئی جھگڑا ہی نہ ہو۔ اگر ایک عورت خود کو ایسا بنا لے تو جھگڑے کی نوبت ہی نہیں آۓگی۔
ایک نسل سنور گئی۔
اب بیٹی کی شادی کی۔ بیٹی بھی ماں کے نقش قدم پر چلنے لگی اور بیٹے نے بھی ماں باپ کی طرح اپنی بیوی کو رکھا۔ اب زندگی سکون سے چل رہی ہے ۔
پھر ان کی اولاد ہوئ، وہ اپنے ماں باپ کے نقش قدم پر چلنے لگی۔
اسی طرح کتنی نسلیں سنور جائیں گی ، سوچیں کتنا پرسکون معاشرہ جنم لے گا۔ گھر آباد ہو جائیں گے۔
اب سمجھ میں آیا کہ ماں کو جنت کیوں کہہ دیا گیا اور باپ کو دروازہ کیوں؟
کیوں کہ اس کے ذمے کام ہی یہ آیا کہ یہ گھر کو جنت بنا کے رکھے، نسلیں سنور جاتی ہیں ماں سے اگر بہتری کا سلسہ چلے تو۔ کتنے گھر جنت بنے، ایک ماں کے بہترین اعمال سے؟ تو کیسے نہ اللہ ماں کو جنت کا درجہ دیتا؟
اب سوچیں اگر اس کے مترادف ہو سب کچھ؟
کتنے گھر برباد ہوں گے؟
ماں میں برداشت نہیں، بیٹی میں کیسے آۓ گی؟
اایک ماں قربانی دے کر دیکھے، سب کچھ سہہ کر دیکھے اگلی کتنی مائیں خوشحال زندگى بسر کريں گی.
اب سمجھ آیا عورت خود کو کیا سمجھتی ہے؟
جیسے کہ میں نے کہا عورت گھر آباد بھی کر سکتی ہے اور برباد بھی۔
تو عورت کو گھر کی زینت بنا کر رکھیں گے تو دنیا اور آخرت میں جنت کے حقدار ہوں گے۔
اس تحرير کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، باقی رہی اس عمل کرنے اور نہ کرنے کی بات تو وہ خود پر ہے راستے تو اللہ نے بھی بتاۓ مگر ہم راستے اپنی مرضی کے چنتے ہیں۔
 

Mariyam Munir
About the Author: Mariyam Munir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.