ایک زمانہ تھا جب امریکہ نے پوری مسلم دنیا کو اپنی
مقبوضہ کالونی سمجھا ہوا تھا ۔ جہاں دل کیا حملہ کرکے پورے ملک کی اینٹ سے
اینٹ بجا دی، جسے چاہا اٹھا لیا اور ہمیشہ کے لئے زندان میں ڈال دیا ، جسے
چاہا نواز دیا اور جسے چاہا برباد کردیا ، ضرورت ہوئی تو جہاد کو جائز اور
نا ہوئی تو دہشتگردی بنادیا، اس سب کی اصل وجہ امریکہ کی طاقت سے زیادہ
ہمارے حکمرانوں کی بزدلی اور ایمانی کمزوری تھی ۔
کوئی ڈیڑھ عشرہ ہونےکو ہے جب کراچی سے بہن عافیہ صدیقی کو کچھ نامعلوم
لوگوں نے گھر جاتے ہوئے بچوں سمیت اغوا کرلیا تھا ، ایک عرصے تک تو پتہ ہی
نہیں تھا وہ ہیں کہاں؟ پھر نو مسلم ایوان ریڈلی نے بتایا کہ وہ افغانستان
میں قید ہیں، وہ کس کس عقوبت خانے میں کب تک رہیں یہ ایک لمبی اور ناقابل
برداشت داستان ہے ایک ایسی داستان جس کی ابتداء بھی آہیں اور سسکیاں ہیں
اور انتہاء بھی ، اگر لکھوں تو شائد کوئی چھاپنے پہ تیار نہ ہو ۔
مشرف کے بعد آنے والے تقریبا" ہر حکمران نے الیکشن سے پہلے ڈاکٹر عافیہ کی
رہائی کا وعدہ کیا ، ایک ایسا وعدہ جو کبھی ایفاء نہ ہوسکا ۔
دھان پان سی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور عافیہ موومنٹ کے ذمہ داران بالخصوص
برادرم محمد ایوب ہر حکمران کا دروازہ مسلسل کھٹکھٹاتے رہنے کے ساتھ اس ملک
کی غیور عوام اور صحافیوں سے بھی رابطے میں رہتے ہیں ۔
میں برادرم ایوب اور بہن فوزیہ صدیقی کا بڑا مشکور ہوں کہ وہ اکثر مجھے
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ رکھتے ہیں ، میں نا چیز ان
کی اس بے لوث محبت کا شکریہ کس منہ سے ادا کروں؟ اب ایک بار پھر ایوب بھائی
نے مجھے فوزیہ بہن کا ایک خط بھیجا ہے جس میں امریکی جیل میں قید ایک
مسلمان کی موت کا درد ناک واقعہ اور ڈاکٹر صاحبہ کی صحت کو لاحق خدشات کا
زکر کیا ہے انہوں نے ملک بھر کے کالم نویسوں سے استدعا کی کہ وہ ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔ میں ان کا خط یہاں من و
عن پیش کررہا ہوں ، لکھتی ہیں ۔
" محترم و مکرم کالم نویس،
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔
”امریکی جیلوں میں بھی کورونا وباءکے معاملے میں قیدی نسلی و مذہبی عصبیت
کا شکار ہیں“
کرونا کی عالمی وباءکے ایام میں آپ سے اس لئے رابطہ کررہی ہوں کہ دنیا بھر
میں امریکہ اس وقت سب سے زیادہ کرونا وباءسے متاثر ہونے والا اور اس کے
نتیجے میں سب سے زیادہ اموات والا ملک بن چکا ہے۔ یہ وباءامریکی جیلوں میں
بھی بری طرح سے پھیل چکی ہے اور اس کے نتیجے میں قیدیوں کی اموات بھی واقع
ہو رہی ہیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ امریکی جیلوں میں بھی بالخصوص مسلمان
قیدیوں کے ساتھ نسلی و مذہبی عصبیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ۔ میں آپ کے علم
میں ایک امریکی فیڈرل جیل میں محمد یوسف نامی بے گناہ قیدی کی اذیت ناک موت
کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہوں جس کی گرفتاری، سزا اور جیل میں ناروا سلوک کے
واقعات ڈاکٹر عافیہ کے کیس سے کافی حد تک مماثلت رکھتے ہیں، جس کی تفصیل
ذیل میں درج ہے۔
سول آزادی کے اتحاد The Coalition for Civil Freedoms (CCF) نے ایک مسلم
سیاسی قیدی اور غیر معمولی امریکی عصبیت کا شکار ہونے والے محمد یوسف کی
موت کا اعلان کرنے پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سی سی ایف نے اپنی
ویب سائیٹ پر (https://www.civilfreedoms.org/?p=27104)صومالی نسل کے 37
سالہ سویڈش شہری ، محمد یوسف کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا ہے کہ وہ پیر
25 مئی کو کورونا وائرس سے متعلق پیچیدگیوں کا شکار ہوگئے تھے ۔ یوسف ، جسے
اگلے سال رہا کیا جانا تھا ، وہ کیلیفورنیا میں Federal Correctional
Institution (ایف سی آئی) میں 11 سال کی غیر منصفانہ سزا کاٹ رہے تھے۔یوسف
کا کورونا کا مثبت ٹیسٹ آنے کے بعد بھی علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرنے
یا کسی اسپتال بھیجنے کے بجائے ، انہیں قید تنہائی کے سیل میں منتقل کردیا
گیا جہاں ایک سست اور تکلیف دہ موت کے انتظار کے سوا کوئی دوسرا چارہ تھا
ہی نہیں ۔ یوسف جیل انتظامیہ کی غفلت اور غیر انسانی پالیسیوں کے نتیجے میں
مرنے والا تیسرا قیدی تھا۔بیورو جیل خانہ جات نے محدود وسائل اور ناکافی
جانچ کے پیش نظر ، امکان ظاہر کیا ہے کہ یوسف اپنی تشخیص سے قبل کچھ عرصے
سے بیمار تھا۔اسے محض شک کی بناءپر امریکی اہلکاروں نے گرفتار کیا تھا اور
اسے ایف بی آئی کی تحویل میں اور خفیہ نظربندی اور غیر معمولی بدنام زمانہ
مشق کے ذریعہ نومبر 2012 میں نیویارک لایا گیا تھا۔ یوسف کے عدالت کی جانب
سے مقرر کردہ وکیل ، افرائیم ساویت(Ephraim Savitt) نے بیان کیا کہ
(امریکی) وفاقی استغاثہ نے اعتراف کیا کہ وہ ”کسی بھی طرح سے امریکی مفادات
کو نشانہ بنانے یا امریکی اہلکاروں پر حملہ کرنے میں ملوث نہیں تھا“۔کسی
غیر ملک کا شہری ہونے کی وجہ سے اس کا امریکی فوجداری انصاف کے نظام سے
کوئی تعلق نہیں تھا مگر پھر بھی اس پر غیرمنصفانہ انداز میں مقدمہ چلا کر
سزا سنادی گئی تھی ، وہ اپنی 11 سالہ سزا کے 10 سال اور 8 ماہ مکمل کر چکا
تھا۔ اس کی رہائی میں محض 4 ماہ باقی تھے کہ اسے کرونا کا مریض ظاہر کرکے
قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ سی سی ایف نے جوابات مانگے ہیں کہ کیوں محمد
یوسف کو کسی اسپتال نہیں بھیجا گیا ، اسے کس نوعیت کی طبی امداد دی
گئی،انہیں معاہدے کی منتقلی پر کیوں رہا نہیں کیا گیا اور اسے کیوں سویڈن
اس کے گھر نہیں بھیجا گیا؟
عافیہ بھی جرم بے گناہی کی پاداش میں امریکی کاروزیل فیڈرل جیل میں قید
تنہائی کی سزا بھگت رہی ہے۔کرونا کی عالمی وباءکے بعد عافیہ کے اہلخانہ کا
پریشان ہونا فطری عمل تھا اس لئے جناب عمران خان کی موجودہ حکومت سے فوری
طور پر رابطہ کیا تھا۔ بار بار متوجہ کرنے کے باوجود کوئی جواب موصول نہ
ہونے پر عافیہ کی خیروعافیت معلوم کرنے کیلئے مجبوراََ سندھ ہائی کورٹ سے
رجوع کرنا پڑا۔ جہاں پٹیشن زیرسماعت ہے۔
عافیہ کے اہلخانہ(بچے اور بیمار ماں) کی جانب سے آپ سے رابطہ کرنے کا مقصد
حجت پوری کرنا بھی ہے تاکہ حکمران، ریاستی حکام، سیاستدان ، بیوروکریٹ، ہر
شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور عوام الناس میں سے کوئی بھی
روز محشر اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے سامنے عافیہ پر ہونے والے مظالم پر
اپنی خاموشی کا عذر پیش نہ کرسکے۔
اپنے قلم کے ذریعے ہمیشہ ساتھ دینے پر میں آپ کی بے حد مشکور ہوں اور بدلے
میں آپ اور آپ کے اہلخانہ کیلئے برکتوں اور رحمتوں کے نزول اور اجر عظیم
کیلئے دعا گو ہوں۔اور استدعا کرتی ہوں کہ اپنے کالم کے ذریعے وزیراعظم
پاکستان عمران خان سمیت تمام ریاستی حکام کو عافیہ کو وطن واپس لانے کا
دینی و قومی فریضہ ایک مرتبہ پھر یاد دلائیں۔
انتہائی امید کے ساتھ آپ کے جواب اورعملی تعاون کی منتظر۔
آپ کی بہن : ڈاکٹر فوزیہ صدیقی" ۔
یہ خط پڑھ کر آپ کی بھی یقینا" وہی حالت ہوئی ہوگی جو میری ہے ، ہمارے خان
صاحب ہر مسئلے پہ بے تکان بولتے ہیں ، جرات مند بھی ہیں لیکن پتہ نہیں کیا
وجہ ہے کہ عافیہ صدیقی کا نام ان کی زبان پہ نہیں آتا، کیوں ان کے بچوں کی
پکار ان تک نہیں پہنچتی؟ لیکن کیا میں اور آپ اپنے گلی محلے اور شہر سے ایک
مظلوم پاکستانی بیٹی کے لئے اتنی زور سے نہیں چلا سکتے کہ یہ شور ان
حکمرانوں کے کانوں کے پردے پھاڑ کر رکھ دے اور انہیں بھی ڈاکٹر صاحبہ کی
مظلوم ماں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے دکھوں کا احساس دلائے ۔
|