اللہ تعالیٰ نے کائنات بنائی اور پھر اِس کو مزید
خُوبصورتی بخشنے کے لیے کئی مخلوقات کو پیدا کیا۔
اللہ تعالیٰ نے پھر قرآن میں فرمایا کہ
”انسان میری بہتریں تخلیق کردہ مخلوق ہے“۔
اللہ نے پھر دینِ اِسلام ، قرآن اور اپنے کئی پیغمبرز کے ذریعے انسان کو
ایک بہترین زندگی گُزارنے کے طریقے بتائے اور سکھائے۔ اِسلام ایک مکمل
ضابطہِ حیات ہے۔
جس طرح ہمیں اپنے ہاتھ اور محنت سے بنائی گئی چیزوں سے بہت محبت ہوتی ہے ،وہ
ہمیں بہت عزیز ہوتی ہیں۔
ویسے ہی اللہ کو اپنی ہر مخلوق بہت ہی پیاری ہے۔ اُسے بالکل نہیں پسند کہ
کوئی اُس کی مخلوق کو حقارت کی نظر سے دیکھے یا اُسے کسی تکلیف میں مبتلا
کرے۔
ایسے ہی مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔
الیکشنز کے دِن تھے ہر طرف اُمید واروں کے جلسے جلوس کی بھرمارتھی اور
دیواریں اُن کے نام اور انتخابی نشانوں کے اشتہاروں سے بھری پڑی تھیں۔
ایک اُمیدوار کا انتخابی نشان خرگوش تھا۔
انسانی فطرت ہے وہ طاقت کی نشے میں دُھت کبھی کبھی اخلاقی حدوں کی دھجیاں
اُڑا کے رکھ دیتا ہے اور اپنے تکبر اور غرور میں مست کئیوں کو اپنے پیروں
تلے روند دیتا ہے۔
خرگوش کے انتخابی نشان کی مخالف پارٹی کے سربراہ نے بھی وہی کیا جو کوئی
بھی ظالم اور جاہل انسان سے اُمید کیا جا سکتی ہے۔
اُس نے بہت سے خرگوش اِکٹھے کیے اور اپنے ڈیرے پہ وہ اندوہناک اور قیامت
خیز تماشا لگایا کہ ایک عام انسان اگر دیکھ لےتو اُس کا کلیجہ سینہ چیر کے
باہر آ پڑے۔
وہ اُن خرگوشوں میں سےایک خرگوش کو پکڑتا اُسے اوپر ہوا میں اُچھالتا اور
اپنی رائفل سے گولی مار کے اُس معصوم بیچارے کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا۔
ایسا کرنے سے اُس کے حوّاری وہ شوروغل کرتے کہ جیسے اُنہوں نے پتہ نہیں کون
سا میدان مار لیا ہو۔؟
جب وہ ظالم شخص ایسی معصوم مخلوق پہ ظلم کے پہاڑ توڑ رہا تھا تبھی قدرت اُس
کے لیے کچھ اور ہی سوچ رہی تھی۔
وہ شخص شاید نہیں جانتا تھا کہ۔
”اِنَّ بَطشَ رَبّکَ لَشدِید“
بیشک تیرے رب کی پکڑ سخت ہے
اُسی دِن اُس شخص کا اتنا بھیانک انجام ہوا کہ دیکھنےوالے اور سننے والے
سکتے میں آ گئےتھے۔ اُسے ایسا بُرا حادثہ پیش آیا کہ پوری سڑک ، پورے روڈ
پہ اُس کے جسم کی بوٹیاں ہی بوٹیاں نظر آ رہی تھیں۔
قدرت نے اپنا آپ باور کروا دیا کہ ظلم کی پکڑ بہت سخت ہے۔
ایک اور ایسا واقعہ۔۔۔۔۔
ہمارے ہمسائے گاؤں میں ایک صاحب تھے۔ گاؤں میں سب اُسے چوہدری صاحب کہہ کے
پکارتے تھے۔
اُس کی بہو اور بیٹی دونوں کے گھر ایک ساتھ رب نے خوشخبریاں دیں۔
چونکہ گاؤں میں رواج تھا کہ بیٹی چِھلہ کرنے اپنے مائیکے جایا کرتی تھیں تو
اِس وجہ سے چوہدری صاحب کی بیٹی گھر آگئی اور بہو اپنے گھر چلی گئی۔
اللہ اللہ کر کے دِن پورے ہوئے اور دونوں گھر اولاد ہو گئی۔
چوہدری کی بیٹی کو اللہ نے بیٹا عطا کیا اور بہو کو خدا نے اپنی رحمت یعنی
بیٹی سے نواز دیا۔
کچھ دِن گُزرے تو گاؤں کےایک سیانے آدمی نے چوہدری سے کہا کہ چوہدری صاحب
اپنی بہو کو تو اب گھر واپس لے آئیں۔
چوہدری نے تکبّر بھرے انداز میں کہا میں کیوں لینےجاؤں؟ اُس نے کون سا بیٹا
پیدا کیا ہے۔؟
وہ شخص خاموش ہو کے وہاں سے چلا گیا۔
اور اُسی دِن چوہدری کی بیٹی کے گھر پیدا ہونے والا بیٹا فوت ہوگیا ۔
یہاں بھی اللہ کی مخلوق سے حقارت کو قدرت نے عبرت کا نشانہ بنا دیا۔
ہم کون ہوتے ہیں کسی کو چھوٹا کہنےوالے، حقیر سمجھنےوالے۔؟ اللہ کی مخلوق
پہ ظلم کرنے والے۔؟
اسلام نے تو ہمیں بھائی چارے اور محبت بانٹنےکا درس دیا ہے تو ہمیں بھی
چاہیے کہ آپس میں حُسنِ سلوک روا رکھیں اور ہر مخلوق سے شفقت کا رویہ
اپنائیں۔
اللہ ہمیں صحیح معنوں میں نیک بننے کی توفیق دے۔
آمین
واسلام
شکریہ۔
|