اساتذہ ریڑھی کیوں نہیں لگا لیتے

وطن عزیز میں موجودہ بحران سے تقریبا ہر طبقہ متاثر ہوا ہے۔ غربت ویسے بھی زیادہ تھی اوپر سے کاروبار بند ہونے کی وجہ سے دینے والے بھی لینے والوں کی لائن میں کھڑے ہوگئے۔ لاک ڈاون میں نرمی کی وجہ سے حالات اب کچھ سنبھلنے لگے ہیں لیکن کچھ شعبے اب بھی ایسے ہیں جن کی مشکلات بتدریج بڑھ رہی ہیں۔ ان میں سرفہرست پرائیویٹ سکولز اور ان سے منسلک اساتذہ ہیں۔

باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی لاک ڈاون کا آغاز سکولوں اور کالجوں کے بند ہونے سے ہوا۔ پھر دوسرے کاروبار بند کرنے کا اعلان ہوا لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس پر بہت تھوڑے سے عرصے کیلئے سختی سے عمل درآمد ہوا۔ لاک ڈاون میں نرمی سے پہلے ہی بہت سے کاروبار کھل گئے تھے۔ پولیس اور دکانداروں میں ٹام اور جیری کا کھیل لگا ہوتا تھا جس میں جیت آخر میں جیری، یعنی دکاندار کی ہوتی تھی۔ اس دوران جس شعبے نے واقعی حکومتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے مکمل لاک ڈاون کیا وہ نجی تعلیمی ادارے ہیں۔

ان تعلیمی اداروں کی خاص بدنصیبی یہ ہے کہ جہاں دوسرے شعبوں کو مختلف صورتوں میں حکومت سے ریلیف مل رہی ہے وہاں حکومت اور عوام ان سے ریلیف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ خاص کر پرائیویٹ سکولز کی بات کی جائے تو حکومت اور عوام کا ان کے متعلق ایک پرسیپشن(perception) بنا ہوا ہے کہ یہ لاکھوں اور کروڑوں میں کماتے ہیں۔ اگر روٹس انٹرنیشنل، بیکن ہاوس اور سٹی سکولز جیسے بڑے سکول چینز کی بات کی جائے تو یہ خیال خام نہیں مگر ایک نظر اپنی گلی محلے میں موجود پرائیویٹ سکولز پر ڈالی جائے تو انہیں اپنی اس کج فہمی پر آپ ہی ہنسی آجائے گی۔

یہ چھوٹے پرائیویٹ سکولز ہزاروں کی تعداد میں ہیں جن میں مڈل اور لوئیر مڈل کلاس لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں۔ اگر آپ کا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے اور اس وقت یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کتنی باقاعدگی سے اپنے بچوں کی سکول فیس دیتے ہیں۔ ان سکولوں کے لیے نارمل حالات میں بھی اساتذہ کو وقت پر تنخواہ دینا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ والدین مہینوں فیس ادا نہیں کرتے۔ خاص کر ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں سکول کی انتظامیہ اور اساتذہ کے لیے وبال جاں ہوتی ہیں۔ ان تین مہینوں کی تنخواہیں اساتذہ کو چھٹیاں ختم ہونے کے کئی ماہ بعد اقساط میں ملتی ہیں۔ چھٹیوں کے دوران کچھ اساتذہ کا گزارا تو ٹیوشنز پر ہوجاتا ہے مگر ایک بڑی تعداد قرضوں پر ہی کام چلاتی ہے۔

ایسی صورت حال میں جبکہ سکول پچھلے تین ماہ سے بند ہیں اور اگلے تین مہینے بھی بند رہیں گے نہ تو حکومت ان اساتذہ کا پوچھ رہی ہے اور نہ ہی والدین کو اس بات کا احساس ہے کہ ان کے فیس نہ دینے کی وجہ سے اساتذہ کو کن مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اس پر بھی ظلم یہ کہ جب ان اساتذہ کی حالت زار پر آواز اٹھائی جائے تو سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ اساتذہ ریڑھی کیوں نہیں لگا لیتے ؟

یہ مشورہ نجی سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کو تب بھی ملتا ہے جب کوئی دہاڑی مزدوری کرنے والا ان سے ان کی ماہانہ تنخواہ کے بارے میں پوچھتا ہے یا پھر جب دکاندار ان سے کئی ماہ سے کھاتے کے پیسے نہ دینے کے بارے استفسار کرتا ہے۔

پرائیویٹ سکول کے اساتذہ ریڑھی بھی لگا لینگے مگر پھر آپ کو تو کسی کو بتاتے ہوئے شرم نہیں آئے گی نہ کہ یہ سبزی بھیجنے والا میرے بیٹے کا استاد ہے؟

یا جب وہ ایک ہاتھ سے ٹوپی سنبھالے اور دوسرا ہاتھ جیب پر رکھے، ڈنڈا برادار پولیس سے بھاگتے ہوئے آپ کے سامنے سے گزرے گا تب تو آپ کی ہنسی نہیں نکلے گی ناں؟ جب کوئی امیر ذادہ یا بڑے عہدے والا گاہک اس پر دھونس جمائے گا، کسی بات پر غصہ ہوکر اسے گالی دے گا یا گریبان سے پکڑ کر جھٹکے گا تب تو آپ کو حیا نہیں آئے گی نا؟

اگر آپ اپنے اساتذہ کے ساتھ ایسا ہوتے ہوئے برداشت کرسکتے ہیں تو ٹھیک ہے، وہ بھی برداشت کرلیں گے،وہ بھی ریڑھی لگا لیں گے لیکن خواتین ٹیچرز کیا کریں گی؟ انہیں آپ کیا مشورہ دیں گے؟ کیا وہ اپنے شاگردوں کے گھر جھاڑو لگانا شروع کر لیں؟
ک
 

Mohsin Kamal
About the Author: Mohsin Kamal Read More Articles by Mohsin Kamal: 2 Articles with 2375 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.