’’مما! آپ نے کل مجھ سے جھوٹ کیوں بولا تھا ؟والدین تو
آپنے بچوں سے جھوٹ نہیں بولتے؟ ‘‘بھرے شاپنگ مال کی ایک دکان میں جب ایک
معصوم بچے نے سب کے سامنے اپنی والدہ سے یوں ناراضگی بھرے انداز میں شکایت
کی تو آس پاس موجود دیگر لوگوں کی طرح میری بھی توجہ اس معصوم بچے کے
معصومانہ سوال کی وجہ سے ان کی طرف مائل ہوگئی۔ بچے کے چہرے پر نہایت
سنجیدگی کے آثار نمایاں تھے جس سے صاف ظاہر تھا کہ اس ابھی وہ مزید سوالات
کرنے والا ہے لیکن اپنے بچے کے سوالات سن کر ماں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کے
سوال کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی توجہ ان کی طرف مرکوز پوچکی ہے لہذا انہیں
وہاں سے چلنا چاہیے، لیکن جاتے جاتے وہ بچہ ایک جملہ کہہ گیا جو ابھی تک
میرے ذہن میں کسی پہیلی کی مانند موجود ہے۔بچے نے جاتے جاتے اپنی ماں سے
مخاطب ہو کر کہا کہ ’’ آپ نے جھوٹ کیوں بولا تھا کہ ہم انسان اپنے رب کے
فیصلوں کی خلاف لڑ نہیں سکتے؟‘‘
اس کی یہ بات سن کر میری حیر ت کی انتہا نہیں رہی کہ اتنا چھوٹا بچہ اور اس
کا مشاہدہ اس قدر بہترین کیسے۔ اس کی باتوں پر جب میں نے غور کیا تو میرے
ذہن میں موجود پہیلی کی کچھ گراہیں کھلنا شروع ہوئیں اور اصل مدعا میری
سمجھ میں آنا شروع ہوا ۔ بچہ اپنی ماں سے اس لئے ناراض تھا کہ کل اس کی
ماںنے اسے سمجھایا تھا کہ ہم اپنے رب کی طرف سے بھیجی گئی کسی بھی چیز کے
خلاف لڑنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ ماں نے اپنے بچے کو یہ بات اس حوالے سے
سمجھائی تھی کہ موجودہ حالات میں ہم پر جو وبائی مرض لاحق ہے وہ اللہ کی
طرف سے ہے لہذا ہم اس سے لڑ نہیں سکتے اس لئے ہمیں بندگی کا مظاہرہ کرتے
ہوئے معافی کا مطالبہ کرنا چاہئے جو ہماری بخشش کا ذریعہ بن سکتا ہے ، لیکن
شاپنگ مال میں موجود بڑی سی اسکرین پر جب یہ سطر اس کی نظروں سے گذری کہ
کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے ، تو وہ اپنے ذہن میں ابھرتے سوالوں کی وجہ
سے اپنی ماں سے وہ سوال کر بیٹھا کس نے مجھ سمیت وہاں موجود کئی لوگوں کو
سوچنے پر مجبور کردیا ہوگا ۔ ایک چھوٹا بچہ کم سنی ہی میں جب قوتِ مشاہدہ
کی بنا پر یوں سوچ سکتا ہے کہ اس بات سے ہماری کم عقلی ہی واضح ہو رہی ہے
کہ ایک طرف تو ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ وبا آسمانی وبا ہے اور دوسری طرف
اعوانوں سے یہ پیغام بھی دیا جا رہا ہے کہہمیں اس وبا سے ڈرنا نہیں ہے ، تو
گویا کیا انسان اب قدرت سے بھی دودو ہاتھ کرنے کا ارادہ کر بیٹھا ہے؟ ۔ کیا
انسانوں نے اتنا علم حاصل کرلیا ہے کہ اس کی بنا پر وہ اتنا بڑا اعلان کر
رہا ہے۔ بچے اور اس کی ماں کے درمیان ہونے والی غیر رسمی گفتگو نے مجھے سوچ
سوچ کے گھرے سمندر میں دھکیل دیا کہ انسان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن
پھر بھی اس کا غرور و تکبر عروج پر دِکھ رہا ہے کہ جہاں وہ یہ بات تسلیم کر
رہا ہے کہ یہ آسمانی وبا ہے اور دوسری طرف اس سے لڑنے کا کہہ رہا ہے ۔ میں
اپنے ملک کی بات کروں تو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ جب یہ وبا پھیلنی
شروع ہوئی تو ہمارے ملک کے نام نہاد شرفاکا یہ کہنا تھا کہ یہ وبا مغرب تک
ہی محدود رہے گی کیوں کہ یہ حرام کھانے سے ، خدا کی ناراضگی مول لینے سے
اور اس کی نافرمانی کرنے سے ان لوگوں پر نازل ہوئی ہے اس لئے ہمیں ڈرنے کی
ضرورت نہیں ، لیکن رفتہ رفتہ جب یہ وبا ہمارے ملک آن پہنچی تو ایسے میں
یہاں سے کسی نے یہ موٗقف اختیار نہیں کیا کہ شاید ہمارے ملک میں بھی ایسے
کام ہو رہے ہیں جو حرام ہیں اور خدا کی ناراضگی کا باعث ہیں لہذا ہمیں توبہ
کا ورد ذیادہ سے ذیادہ کرنا چاہیے، کیوں کہ یہی ہمارا واحد راہِ نجات ہے
لیکن افسوس کے ساتھ ایسا کوئی بھی اعلان سامنے نہیں آیا اور ہر طرف یہی
بات کہے جانے لگی کہ ہمیں کورونا سےصرف اور صرف لڑنا ہے ۔
میرا صرف اتنا سا سوال ہے کہ کیا آج کا مسلمان ایمان کے لحاظ سے اتنا
کمزور ہوگیا ہے کہ اب وہ خدا کی طرف سے بھیجی گئی چیز سے لڑے گا ، لیکن
بحیثیت ایک ادنیٰ مسلمان میرے ذہن میں اٹھتا ہوا یہ سوال مجھے بے چین کئے
ہوئے ہے کہ آخر ایسی کیا مجبوری ہے ہماری کہ ہم اس صورتحال کے خلاف صرف
لڑنے کا سوچ رہے ہیں ، جبکہ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ جنگ قدرت کے فیصلوں
کے خلاف نہیں، اگر ہر انسان ایک جنگ اپنے خلاف شروع کرلے اور باطن کے صاف
نہ ہوجانے تک وہ جنگ جاری رکھے تو وہ وقت دور نہیں کہ باطن کے صاف ہوجانے
سے پہلے ہی یہ دنیا اس وبا سے پاک ہوجائے گی، ضرورت ہے تو صرف قوتِ ارادی
کی اور برائی کے خلاف جنگ کی ۔
|