بجٹ 2020-2021 خانہ پوری
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
بجٹ 2020-2021 خانہ پوری Dr. Rais Ahmed Samdani
بجٹ 2020-2021وقت مقررہ پر پیش کرنا اور اس کی منظوری قانونی مجبوری ہے، چنانچہ اس مجبوری کی تکمیل گزشتہ روز ٹی وی پر کردی گئی ۔ زمینی حقائق کا تقاضہ یہی تھا کہ اسی طرح کا بجٹ پیش کیا جاتا لیکن بعض باتوں پر خصوصی توجہ دی سکتی تھی، کچھ میں ردو بدل کیا جاسکتا تھا، کسی میں اضافہ کسی میں کمی کی جاسکتی تھی لیکن جو پہلا تاثر جو بجٹ پیش کرنے والے وزیر موصوف کی رٹی رٹائی ، لکھی ہوئی تقریر سے ہوا، جس انداز سے اراکین قومی اسمبلی بشمول وزیر اعظم پاکستان ، قبلہ عمران خان صاحب و دیگر وزراء کی شرکت، حزب اختلاف کا مجبوراً، مرے ہوئے دل، دبی ہوئی آواز سے احتجاجی نعرے لگانا، اپنی سیٹوں پر پلے کارڈ چینی اور آٹے کی چوری کے حوالے سے اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ اس وقت حکومت اور حزب اختلا ف اس مرحلے کو آئی مصیبت کو کسی نہ کسی طرح بھگتادینا چاہتے ہیں ۔ گویا ایک وبا ہے جو وہ اپنے سر سے اتاردینا چاہتے ہیں ۔ بے شمار وزراء جنہیں کورونا نہیں ، ایوان سے غائب، بے شمار حزب اختلاف کے اراکین جنہیں کورونا نہیں ایوان سے ندارت، اراکین دور دور بیٹھے ہوئے تھے اس کے باوجود بے شمار سیٹیں عوام کو عوامی نمائندون کی بجٹ میں عدم دلچسپی کا منہ چڑا رہی تھی ۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو وبا نے آن گھیرا ، عین ایسے وقت پر جو ان کے لیے بہت ہی مناسب تھا ۔ انہوں نے قرنطینہ میں رہتے ہوئے بجٹ پر تنقید کی ، وہ تو ہر صورت میں کرنا ہی تھی، یہ بھی خانہ پوری ہی ہے ۔ فرمایا شہباز شریف نے ’’ بجٹ عوام دشمن ہے ، یہ غریب کش بجٹ ہے، اس کے نتیجے میں مہنگائی اور بیروز گاری میں مزید اضافہ ہوگا ، فرمایا حکومت نے اپنی نالائقی پہلے مسلم لیگ نون اور اب کورونا کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی،انہوں نے کہا کی آئی ایم ایف کے دباوَ پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنا ظلم ، رہی سہی معاشی سانسیں بھی رک جائیں گے‘‘ ۔ میاں صاحب نون لیگ کی ہر دور کی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشنرز میں 10فیصد سے زیادہ کبھی اضافہ نہیں کیا، ہ میں یاد ہے کہ سرتاج عزیز کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پنشرز کی پنشن میں اول تو اضافہ نہ ہو اگر ہو تو کم سے کم ۔ سرتاج عزیز اور شوکت عزیز اپنے اپنے دور کے ملازمین دشمن تھے، ا س زمانے میں ایک قطعہ کہا تھا یہاں یاد آگیا ۔ پہلے تھے سرتاج عزیز، پھر ہوئے شوکت عزیز ایک کو تھے شریف عزیز دوسرے کو مشرف عزیز ملک کی فکر نہ ایک کو تھی عزیز نہ دوسرے کو عزیز کرسی ایک کو تھی عزیز کرسی دوسرے کو تھی عزیز بجٹ 2020-2021کا پوسٹ مارٹم کرنا گویا اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں جانا ہے ۔ اس لیے کہ یہ حتمی نہیں ، اس میں یقینا کچھ نہ کچھ ردو بدل ، خاص طور پر حزب اختلاف کی کچھ شفارشات کو شامل ہی کیا جاتا ۔ اس لیے اس کا صحیح پوسٹ مارٹم اس کی منظوری کے بعد ہی کیا جانا چاہیے ۔ لندن میں بیٹھی ہماری مہر باں ثمینہ رشید نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر بجٹ کی تفصیل بیان کی ہے ۔ ثمینہ کی اجازت کے بغیر اسے یہاں منتقل کررہا ہوں ، خود کو محبت سے بچانے کی خاطر ۔ تمباکو 20 فیصد مہنگ کپڑا 10.34 فیصد مہنگا جوتا 10.34 فیصد مہنگا نئے بجٹ کا حجم 7ہزار 294 ارب روپے مقرر. دستیاب مالی وسائل کا تخمینہ 8 ہزار 314 ارب لگایا گیا. اٹو رکشہ، موٹر سائیکل رکشہ اور 200 cc موٹرسائیکل پر ایڈوانس ٹیکس ختم. پیٹرولیم مصنوعات میں 70 ارب کا ریلیف دیا گیا بنا شناختی کارڈ سے خریداری کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر 1 لاکھ کردی گئ. ڈبل کیبن اور SUV گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافہ. پاکستان میں تیار ہونے والے موبائل-فونز پر عائد ٹیکس میں کمی. امپورٹڈ سیگریٹ، بیٹری، اورسگار کی قیمتوں پر عائد ایکسائز ڈیوٹی 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کردی گئی بچوں کے سپلیمنٹس اور ڈائت فوڈز پر درآمدی ٹیکس ختم. فنکاروں کی مالی امداد کیلیے ارٹسٹ فنڈ کی رقم 25 کروڑ سے بڑھا کر 1 ارب کردی گئی. سٹیٹ بنک نے پالیسی ریٹ 13.25 فیصد سے کم کرکے 8 فیصد کردیا ہے. سال کا جاری مالی اکاونٹ خسارہ 73 فی صد کم ہوا. تجارتی خسارہ 21 ارب سے 9 ارب ڈالر رہ گیا. مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ایف بی ار ریونیو میں 17 فیصد اضافہ ہوا. 6 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ادا کیے گئے. ماضی کے قرضوں پر 5000 ارب سود دیا 10 لاکھ پاکستانیوں کیلیے بیرون ملک ملازمت کے مواقع پیدا کیے گئے. مووڈیز نے ہماری معیشت کی درجہ بندی میں اضافہ کیا. ائیدہ مالیاتی سال میں 1600 ارب روپے کا ریونیو اکٹھا کرنے کا حدف. آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالر کی فنڈز فیزیبلٹی کی منظوری دی ہے. احساس پروگرام سے 8 لاکھ 20 ہزار جعلی افراد کو نکالا گیا. پاکستان کی بزنس رینکنگ میں 136 سے 108 نمبر پر ترقی ہوئی کورونا کی افت سے پاکستانی معیشت کو شدید دھچکا لگا. جی ڈی پی گروتھ ریٹ اور سرمایہ کاری کو نقصان پہنچا جی ڈی پی میں 3390 ارب روپے کمی ہوئی. جی ڈی پی کی شرح نمو 3.3 فیصد سے کم ہوکر منفی 0.4 فیصد پر اگئی. جی ڈی پی کا مجموعی بجٹ خسارہ 7.1 فیصد سے 9.1 فیصد بڑھ گیا. وفاق کا ریونیو ٹیکس کلیکشن 102 ارب روپے کم ہوا. چھوٹے کاروبار کیلیے 3 ماہ کیلیے 96 ارب کی رقم 4 فیصد کم سود پر دی گئی. بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائیگا. احساس پروگرام کا عمل جاری رکھا جائیگا احساس پروگرام کے بجٹ کی مختص رقم 187 ارب سے بڑھا کر 208 ارب روپے کردی گئی. توانائی، خوراک اور دیگر شعبوں کیلیے 180 ارب روپے کی سبسڈی مقرر. ایچ ای سی کی الیوکیشن کی رقم 60 ارب سے بڑھا کر 64 ارب کردی گئی. نیا پاکستان ہاوسنگ اتھارٹی کو 30 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے. ازاد جموں کشمیر کیلیے 55 ارب روپے اور گلگت بلتستان کیلیے 32 ادب روپے مختص. خیبر پختون خواہ کے ضم شدہ اضلاع کیلیے 56 ارب روپے مختص سندہ کو 19 اور بلوچستان کو 10 ارب روپے کی مختص شدہ حصے سے زائد خصوصی گرانٹ. ریلوے کیلیے 40 ارب روپے مختص کامیاب نوجوان پروگرام کیلیے 2 ارب مختص لاہور اور کراچی میں وفاق کے زیر اہتمام ہسپتالوں کیلیے 14 ارب روپے مختص زرعی شعبے میں ریلیف اور ٹڈی دل کی روک تھام کیلیے 10 ارب مختص جی ڈی پی گروتھ کومنفی 0.4 سے بڑھا کر 2.1 فیصد تک لانے کا حدف مقرر کرنٹ اکاونٹ خسارہ 4.4 فیصد تک محدود رکھا جائیگا. مہنگائی کی شرح 9.1 فیصد سے کم کرکے 6.5 فیصد کی جائیگی. بیرونی سرمایہ کاری میں 25 فیصد اضافہ لایا جائے گا. وفاق اور صوبائی مجموعی ترقیاتی اخراجات کا حجم 1 ہزار 324 ارب روپے ہے. پبلک سیکٹر کیلیے 650 ارب روپے مختص سماجی شعبوں کی مختص رقم 206 ارب روپے سے بڑھا کر 250 ارب روپے کردی گئی. بجلی کی طلب اور پیداوار کیلیے 80 ارب مختص پانی کے شعبے کیلیے 70 ارب روپے مختص این ایچ اے اور سی پیک کے منصوبوں کیلیے 118 ارب روپے مختص ریلوے کے دیگر منصوبوں کیلیے 24 ارب روپے مختص مواصلات کے منصوبہ جات کیلیے 37 ارب روپے رکھے گئے شعبہ صحت اور طبی آلات کی تیاری کیلیے 20 ارب روپے کی رقم مختص تعلیمی شعبے میں سمارٹ سکولوں کا قیام، یکساں نصاب تعلیم کیلیے 5 ارب روپے مختص تعلیم میں جدت اور ترقی کیلیے 30 ارب روپے مختص. موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلیے 6 ارب روپے مختص ازاد کشمیر گلگت بلتستان میں 40 ارب کے ترقیاتی فنڈز مختص ایس ڈی پی گولز کیلیے 12 ارب روپے مختص افغانستان کی بحالی معاونت کیلیے 2 ارب روپے مختص. ہوٹلوں پر ٹیکس کی شرح ستمبر تک 1.6 فیصد سے کم کرکے 0.17 فیصد کردی گئی ہے. کورونا وبا کے باعث ایف بی ار کا ٹارگٹ کم کرکے 3900 ارب روپے مقرر. ڈومیسٹک ٹیکس محصولات میں 27 فیصد اضافہ ہوا. کینسر ڈائگنازٹک کٹس پر درامدادی ٹیکس ختم. انرجی ڈرنکس پر ایف ای ڈی 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کردی گئی. درمیانے اور چھوٹے مینوفیکچررز کیلیے خام مال کی درآمدات پر ٹیکس 5 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد کردیا گیا. مشینری کی درامدات پر شرح ٹیکس ساڑھے 5 سے کم کرکے 1 فیصد کردیا گیا. اسی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے بارے میں برادر ارشد قریشی نے موجودہ بجٹ کو ’’نرم گرم ‘‘ کہا اور سرکاری ملازمین کی تں کواہوں میں اضافہ اور پنشنرز کی پنشن میں اضافہ نہ کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ انہوں نے لکھ: پاکستان میں ہمیشہ بجٹ کا شدت سے منتظر ملازمت پیشہ افراد اور پینشنر ہوتے ہیں جن کو قوی امید ہوتی ہے کہ اس کی تنخواہ یا پینشن میں لازمی اضافہ ہوگا۔ چاہے وہ برائے نام ہی ہو۔ کچھ لوگوں کی سوچ یہ بھی ہے کہ چلیں جی سرکاری ملازمین تو ادھر ادھر کرکے بھی اپنا معاملہ سیدھا کرلیں گے مگر پینشنرز تو اس سے بھی گئے۔ مہنگائی کے تناسب سے کم از کم پینشنروں کو یقین تھا کہ ان کی پینشن میں لازمی اضافہ ہوگا مگر ایسا نہ ہوا۔ اس بات سے قطعی انکار نہیں کہ کسی بھی ملک کا دفاع مضبوط ہونا ضروری ہے خاص طور پر جس کا دشمن بھی پڑوس میں ہو۔ مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بھی ملک کے لیے تعلیم انتہائی ضروری ہے۔ جہاں ہمیں مادرِ وطن پر جان نچھاور کرنے والے وطن کی محافظوں کی ضرورت ہے وہیں ہمیں سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئرز کی بھی ضرورت ہے۔ تعلیم کے بجٹ پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ ہماری شرح خواندگی کی کمی ہی ہے جو ہم اب تک کورونا میں الجھے ہوئے ہیں تعلیم یافتہ قومیں اس سے آزادی حاصل کرچکی یا کر رہی ہیں ۔ گزشتہ 12سالوں کا تنخواہوں کا شیڈول نیچے دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ نون نے 10فیصد سے زیادہ تنخواہیں نہیں بڑھائیں ، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے10سے50فیصد تک تنخواہوں اور پنشنرز کی پینشنز میں اضافہ کیا، پاکستان تحریک انصاف نے سابقہ سال بھی مشکل سے 10فیصد اضافہ کر کے حاطم طائی کی قبر پر لات ماری تھی اس مرتبہ تو اسے وہ بھی نصیب نہیں ہوئی، تنخواہ دار اور پینشرز میں بھی بے شمار ایسے لوگ ہیں جو وزیر اعظم کے بقول چھابڑی والے، غریب طبقے کی طرح ہی ہیں ۔ اور نہ ہی سہی گریڈ ایک سے 7یا 15تک کے ملازمین کی تنخواہوں ، اسی طرح 20یا 25ہزار پینشن لینے والوں کو کچھ نہ کچھ دے دینا چاہیے تھا ۔ لیکن عمران خان کی حکومت میں سرتاج عزیز کی نسل کے لوگ موجود ہیں ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سارے ہی تنخواہ دار ملازم تنخواہ کے علاوہ اوپر کی آمدنی میں مگن ہیں ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں ایماندار لوگ ابھی موجود ہیں جو رزق ہلال پر یقین رکھتے ہیں ۔ Schedule is provided by Columnist Muhammad Azam Azim Azam PPP . 2009 . 20 % PPP - 2010 - 15 % PPP - 2011 - 50 % PPP - 2012 . 15 % PPP - 2013 - 20 % PMLN 2014 . 10 % PMLN 2015 . 10 % PMLN 2016 . 10 % PMLN 2017 . 10 % PMLN 2018. 10 % PTI 2019 10 % PTI 2020 00 % ارشد قریشی صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ّّاگر پیش کیے جانے والے بجٹ کو عوام دوست نہیں تو عوام دشمن بھی نہیں کہا جاسکتا۔ اگر موجودہ حکومت نے اپنے بیان کردہ عزائم پر عمل کرتے ہوئے مہنگائی پر قابو پالیا تو یہ بجٹ عوام خوشی خوشی برداشت کرجائے گی۔ اس کے لیے حکومت کو بے رحم احتساب کرنا ہوگاٗٗ۔۔۔‘‘‘‘‘--- |