پروفیسر ڈاکٹر سید معین الدین عقیل اور"تاریخ وآثارِ دہلی" : ادبی ہی نہیں تاریخی کام
(Afzal Razvi, Adelaide-Australia)
|
پروفیسر ڈاکٹر سید معین الدین عقیل اور"تاریخ وآثارِ دہلی"ادبی ہی نہیں تاریخی کام افضل رضویؔ ایڈیلیڈ، آسٹریلیا پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان وادب کے نامور نقاد، محقق اورادیب پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل اپنی علمی، ادبی اور تعلیمی خدمات کی بدولت کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے گزشتہ پانچ دہائیوں سے اپنے آپ کو اردو زبان وادب کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔
وہ 25 جون 1946ء میں تاریخی شہر”ادگیر“میں سید ضمیر الدین کے یہاں پیدا ہوئے جو اس وقت ریاست حیدرآباد کی سرکاری ملازمت میں تھے۔ڈاکٹرمعین الدین عقیل کے آبا و اجداد بہمنی سلاطین کے زمانے میں ہندوستان میں مسلم ترکستان سے ہندوستان آئے اور بہمبنی سلطنت کے دار الحکومت بیدر کے نواح لونی اور جنواڑا میں آباد ہوگئے جہاں ان کے پرکھوں کو کچھ اراضی بہمنی سلطنت سے الاٹ ہوئی تھی اور یہ سقوطِ ریاستِ حیدرآباد تک اس خاندان کی ملکیت میں رہی۔یہیں ان کے دادا سید وزیر الدین مسلم کش فسادت میں شہید ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد مسلم کش فسادات میں جب حالات زیادہ خراب ہو گئے تو ان کا خاندان مارچ 1953ء میں اپنی جائیداد چھوڑ کر پاکستان ہجرت کر آیا۔ذہانت وفطانت قدرت نے انہیں ودیعت کی ہے۔اس کی ایک عمدہ مثال تو یہ ہے کہ یہ ابھی پانچ سال کے تھے کہ ناظرہ قرآن ”الحمد“ سے ”ناس“ تک ختم کرلیا۔ ہجرت کے بعد ڈاکٹرسیدمعین الدین عقیل کے خاندان نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور یہی سے انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول لانڈھی نمبر 1 سے 1963ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اردو کالج میں داخل ہوگئے جہاں سے 1965ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا پھر جامعہ کراچی سے 1968ء میں بی اے اوربعد ازاں یہی سے 1969ء میں ایم اے (اردو) کی ڈگری فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں حاصل کی، جس بنا پر انہیں انجمن ترقی اردو پاکستان بابائے اردو ایوارڈ ملا۔ ایم اے کی تعلیم کے دوران ہی تحقیق سے دلچسپی پیدا ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ 1975ء میں ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کی زیرِ نگرانی”تحریک آزادی میں اردو کا حصہ“ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر سید معین الدین عقیل کئی کتب کے مصنف و مؤلف ہیں، ان میں تحریکِ پاکستان اور مولانا مودودی، تحریکِ آزادی میں اردو کا حصہ، انجمن ترقی اردو پاکستان، اقبال اور کلامِ اقبال،ایک نادر سفرنامہ (دکن کے اہم مقامات کے احوال و کوائف)،دکن اور ایران (سلطنت بہمنیہ اور ایران کے علمی و تمدنی روابط)، کلامِ نیرنگ، مسلمانوں کی جدوجہد آزادی، اقبال اور جدید دنیائے اسلام، دکن کا عہدِ اسلامی،پاکستان میں اُردو ادب: محرکات و رجحانات کا تشکیلی دور، کلامِ رنجور عظیم آبادی،فتح نامہ ٹیپو سلطان،بیتی کہانی (اُردو کی اولین نسوانی خودنوشت اور تاریخ پاٹودی کا بنیادی مآخذ)، اُردو تحقیق (صورت حال اور تقاضے)،تاریخِ ادبیاتِ اردو (تدوین)، اردو کے نادر سفرنامے، مسلم ہندوستان: تاریخ، تہذیب اور ادب، جنوبی ایشیا کی تاریخ نویسی: نوعیت، روایت اور معیار، حیات و فکر اقبال کے نئے گوشے،افکارِ سیاسی کی تشکیلِ جدید: سید احمد خاں اور اقبال اورنظریہ پاکستان اور قائد اعظم: مقاصد، جدوجہد اور حاصلات، اہم ہیں۔ ڈاکٹر سیدمعین الدین عقیل کے پروفیشنل کیرئیر کا آغاز 1967ء میں ہواجب انہیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سفارت خانے میں اردو کی تدریس کے لیے منتخب کیا گیا۔اسی دوران انہیں اورینٹل یونیورسٹی نیپلز، اٹلی سے ملازمت کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول کر لیا اور دوسال تک اس یونیورسٹی کے ایشین اسٹڈیز کے شعبے سے وابستہ رہے۔ بعد ازاں واپس آکر 1970ء میں پاکستان شپ اونر کالج کراچی سے منسلک ہو گئے اور کم وبیش چودہ سال تک اسی کالج میں شعبہ اردو کے لیکچرار رہے۔ 1984ء میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل جالبی اور صدر شعبہ اردو جامعہ کراچی ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے انہیں جامعہ میں شعبہ اردو کا استاد مقرر کیا۔1993ء میں جاپان چلے گئے جہاں ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز میں اردوکے پروفیسر کی حیثیت سے 2000ء تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ 2001 ء جاپان سے واپس آکر جامعہ کراچی کے شعبہ اردو سے ایک بار پھر تدریس کا آغاز کیا اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت میں 2006ء میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے منسلک ہوگئے جہاں چیئرمین شعبہ اردو اور ڈین فیکلٹی آف لینگویجز اینڈ لٹریچر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ تحقیق وتدریس گویا ڈاکٹر سیدمعین الدین عقیل کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ابھی بھی ان کا قلم تھمتا نہیں اور وہ کچھ نہ کچھ کرنے کو تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ ان کے گھر پر ہر اتوار باقاعدہ علمی و ادبی مجلس منعقد ہوتی ہے جس میں نہ صرف کراچی کے مؤقر حلقوں سے دانشور شرکت کرتے ہیں بلکہ پاکستان کے دوسرے شہروں سے بھی ادیب، شاعر، محقق اورنقاد شریک ہوتے ہیں۔ امسال اردو ادب اور اقبالیات کے حوالے سے جانی پہچانی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بھی ان کے ہاں تشریف لائے۔ ڈاکٹر سیدمعین الدین عقیل سے راقم الحروف کی شناسائی 2017 ء میں اس وقت ہوئی جب محترم سید محمد ناصر علی نے علامہ اقبال ؒ پر کیے گئے میرے تحقیقی کام”در برگِ لالہ وگل“ کی جلد اول انہیں تبصرے کے لیے پیش کی اور انہوں نے اس تصنیف پر عالمانہ اور ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے؛ اپنی علم پروری اور خلوص کا ثبوت فراہم کیا اور ایک نہایت مدلل مضمون تحریر فرمایا جو اخبارات وجرائد ورسائل کی زینت بنا۔ بعد ازاں جب ”در برگِ لالہ وگل“ جلد اول کی کراچی میں تقریبِ رونمائی منعقد ہوئی تو انہوں نے ایک بار پھر اپنے زریں خیالات کا اظہار فرمایا اور اس علمی و ادبی کام کی خوب پذیرائی کی۔راقم الحروف کی یہیں ان سے ملاقات ہوئی اور اب گاہے گاہے برقی مراسلت ہوتی رہتی ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں راقم الحروف کو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں پروفیسرڈاکٹر سیدمعین الدین عقیل ایک علم پرور اور شفیق شخصیت کے مالک ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل اپنے ذاتی کتب خانے کا اسی فی صد جاپان کی کیو تو یونیورسٹی کو ہبہ کر چکے ہیں جو ان کا زبان وادب ِ اردو سے لگاؤ اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔حکومتِ جاپان نے بھی ان کے اس اقدام اور اردو کے لیے خدمات کو سراہتے ہوئے 2013ء میں جاپان کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ”آرڈر آف دی رائزنگ سن“(Order of the Rising Sun)عطا کیا۔ جیسا کہ سطورِ ماقبل میں بیان ہو چکا کہ ڈاکٹرسید معین الدین عقیل اب بھی تحقیق کا کوئی نہ کوئی موضوع ڈھونڈ ہی نکالتے ہیں چنانچہ گزشتہ سال(2019ء) انہوں نے دہلی کی تاریخ اور اس کے آثار کو اپنا موضوع بناتے ہوئے ایک علمی، ادبی اور تاریخی تالیف ”تاریخ وآثارِدہلی“مرتب کی جسے انجمن ترقی اردو (ہند) نے شائع کیا۔ ان کی اس تازہ ترین تالیف کا مطالعہ کرنے کے بعدیہ بڑے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتاہے کہ اس موضوع پر لکھی جانے والی اپنی نوعیت کی یہ نئی کتاب ہے نیز یہ ایک ادبی ہی نہیں تاریخی کام ہے جسے عصر حاضر اور پچھلے زمانوں کے ادباء اورموئرخین ایک دستاویزی ثبوت کے طور پر یاد رکھیں گے اور جب جب اس کا حوالہ دیا جائے گا تب تب ڈاکٹر معین الدین عقیل کو سراہا جائے گا گویا یہ کام ہمیشہ زندہ رہنے اور رکھنے والا ہے۔ ”تاریخ وآثارِدہلی“کا سرورق محمد ساجد نے ڈیزائن کیا ہے جب کہ اس کا انتساب ڈاکٹرسید معین الدین عقیل نے شہرِ دہلی کے اولین فاضل مؤرخ سید احمد خاں کے نام لکھا ہے۔وہ انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں،”جنہوں (سید احمدخاں) نے اپنی متنوع قومی ومعاشرتی سر گرمیوں اور بیش بہا تاریخی وتصنیفی خدمات کے ساتھ ساتھ جہاں ایک جانب دہلی کی ایک اولین بہترین تاریخ ”آثار الصنادید“تصنیف کی وہیں اردو زبان میں عمدہ تاریخ نویسی کا آغاز بھی کیا“۔انتساب کے بعد کتاب میں شامل موضوعات کو ”فہرستِ مشمولات“ کا نام دیا گیا ہے جو بجائے خود ایک اچھوتا انداز ہے۔اس میں انہوں نے سب سے پہلے مقدمہ کا عنوان قائم کیا ہے پھر”ذکرعمورات ِ عام ضلع دہلی“ہے۔ مذکورہ دو عنوانات کے بعد فصل اول میں ”حال شہرِ دہلی“ اور فصلِ دوم میں عمارات ِ شہر جن میں ”قلعے“، ”احوالِ مساجد“، ”احوالِ مقابر“، ”سرائے، دروازے“، ”بند“، حال پلوں کا“، ”ذکر تالابوں کا“، ”ذکر درگاہوں کا“ اور”مندر“ شامل ہیں۔ان کی بھرپور تفصیل فراہم کی ہے جب کہ فصلِ سوم میں ”ذکر پر گنات سابق وحال کا مع تشریح الفاظ واصطلاحاتِ دفاتر سابقہ زماں“اور”فہرستِ اسناد وحواشی“ شامل کی ہیں۔ یہ ڈاکٹرسید معین الدین عقیل کا توضیحی کام ہے جسے انہوں نے انتہائی ایمانداری سے حوالہ جات کے ساتھ رقم کیا ہے۔ کتاب کا سرورق بھی اس بات کا شاہد ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر ”رام جی داس“ کے کیے گئے کام بعنوان”تاریخِ اموراتِ عام ضلع دہلی“ کو نہ صرف سراہا ہے بلکہ اسے اس موضوع پر نقشِ اول قرار دیا ہے۔کتاب کے عنوان ہی میں لکھتے ہیں کہ یہ کام”غیر معروف و غیر مطبوعہ اور منحصر بفردنو دریافت مخطوطہ پہلی بار منظرِ عام پر“لایا جارہا ہے، جس سے ان کی دیانتداری بجائے خود ایک ثبوت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اس تاریخی کتاب کے مقدمے میں ڈاکٹر صاحب نے نہایت باریک بینی سے ”تاریخ وآثارِدہلی“میں شہر کا تاریخی پسِ منظر اور اس سلسلے میں احاطہئ تحریر میں لائی جانے والی حوالہ جاتی کتب کا ذکر بھی کیا ہے۔ان میں ”سیر المنازل“جو مرزا سنگین بیگ کی تصنیف ہے، بہت اہم ہے کیونکہ اس تصنیف کو دہلی کی اولین تاریخ سمجھا جاتا ہے۔اصل کتاب فارسی زبان میں لکھی گئی لیکن اس کے اردو اور انگریزی تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں۔اسی سلسلے کی ایک اور معاصر تصنیف جو کبھی شائع نہ ہوئی اس کا ذکر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے اپنے مقالے میں کیا ہے۔ یہ قلمی نسخہ ایڈنبرا یونیورسٹی کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔اس نسخے کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں مصنف نے دہلی کے کوچہ و بازار اور گردو نواح کی ایک ایک تفصیل مربوظ طریق سے رقم کی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ راقم شہری محکمے میں ملازم رہاہو گا۔یہ دونوں تصانیف 1821ء سے 1827ء کے زمانے میں مرتب ہوئیں اور ان کے کوئی بیس سال بعد سر سید احمد خاں کی شہرہ آفاق تاریخِ دہلی ”آثار الصنادید“ کے نام سے 1847منصہ شہود پر آئی۔ یہ ایک مفصل اور محققانہ تصنیف ہے جسے آج تک تاریخِ دہلی پر مستند تصنیف کا درجہ حاصل ہے؛ کیونکہ اس کو مآخذ بناکر بہت سی تصانیف زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئیں، ان کی تفصیل بھی ڈاکٹر صاحب نے مقدمے میں بیان کی ہے۔مقامی مو۷رخین اور محققین کے علاوہ غیر ملکی ماہرینِ آثارات وتاریخ نے بھی دہلی پر بہت لکھا ہے اور لکھا جارہاہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر سید معین الدین عقیل نے آر۔ای فرینکن برگ(R.E.Frykenberg)کے مجموعہئ مقالات Delhi through the ages: essays in urban history, culture, and society کا حوالہ دیا ہے جو 1986ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، دہلی سے شائع ہوا۔علاوہ ازیں اسٹیفن پی۔بلیک(Stephen P. Blake) کیShahjahanabad: The Sovereign City in Mughal India 1639–1739 اور آرتھر ڈیڈنی(Arthur Dudney)کی تصنیف Delhi: Pages From A Forgotten History قابلِ ذکر ہیں۔ مندرجہ بالا تفصیلی توضیحات کے بعد ڈاکٹرسید معین الدین عقیل نے رام جی داس کی نادر تصنیف ”ذکر اموراتِ عام ضلع دہلی“ جو 1854ء میں رقم ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ”یہی وہ سن ہے جب سید احمد خاں کی تصنیف”آثار الصنادید“ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تھا۔مصنف رام جی داس دہلی کے محکمہ ئ کلکٹری میں نائب سرشتہ دار رہا اور غالباً ملازمت سے اپنی سبک دوشی کے بعد اس نے یہ کتاب تحریر کی“۔یہ نادر تاریخی دستاویز کبھی زیورِ طباعت سے آراستہ نہ ہو سکی؛ یہی وجہ ہے کہ کسی محقق یا مؤرخ کی تصنیف و تالیف میں اس کا زکر نہیں ملتا۔اس کا واحد نایاب نسخہ ڈاکٹر معین الدین عقیل کومانچسٹر کی معروف ”جان ریلینڈ لائبریری“(John Rayland Library)میں ملا جس کی تفصیل تصنیف ہذا میں موجود ہے۔ مقدمے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کتاب کا اصل سرورق دیا ہے اور پھر ”حال شہرِ دہلی“ کا بیان ہے۔ اس عنوان میں صاحبِ تحریر نے دہلی کے نام کی وجہ تسمیہ اور اس کی آباد کاری نیز اس کے تاخت وتاراج ہو نے کی تفصیل درج کی ہے۔یہ اس کی فصلِ اول ٹھہری۔ فصلِ دوم میں جس کا آغاز عماراتِ شہر سے ہوتا ہے؛ اس میں سب سے پہلے کل اکیس قلعوں کی بابت لکھا گیا ہے اور چنداں معلومات بھی فراہم کی گئی ہیں۔اس کے بعد مساجد کے ذکر میں کل پندرہ مساجد کا تذکرہ ہے اور مقبروں کے ذیل میں تیرہ مقابر کو احاطہئ تحریر میں لایا گیا ہے جب کہ چھے دروازوں اور سرائے کا ذکر بھی ملتا ہے۔اس نسخے میں دہلی کے قرب وجوار کے چار بند جو غالباً حفاظت کے لیے بنائے گئے ہوں گے، کا ذکر ہے نیز آٹھ پلوں کی تفصیل بھی فراہم کی گئی ہے۔پلوں کے ذکر کے بعد ایک بار پھر ”سرائے“کی سرخی قائم کرکے سولہ دیگر سرائے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔تالاب سلاطین اور مغلیہ عہد میں خاص اہمیت رکھتے تھے چنانچہ اس ضمن میں قیاس کیا گیا ہے کوئی تعداد نہیں لکھی؛لیکن درگاہوں کے نام تفصیل سے دیے گئے ہیں جو تعداد میں پندرہ ہیں۔ اسی طرح مندروں کا ذکر بھی بڑی وضاحت سے کیا گیا ہے۔رام جی داس نے دہلی کے پانچ مندروں کو بھی اپنی اس نادر تصنیف کا حصہ بنایا ہے۔ آخر میں فصلِ سوم کے تحت ”ذکر پر گنات سابق وحال کا مع تشریح الفاظ واصطلاحاتِ دفاتر سابقہ زماں“اور”فہرستِ اسناد وحواشی“ شامل کی ہیں جس سے اس تصنیف کی اہمیت اور بھی معتبر ہو گئی ہے۔ اتنے اچھے اور سلیقے نیز دیانتداری سے اس کام کو پایہئ تکمیل تک پہنچانے پر راقم الحروف محترم ومکرم جناب پروفیسر ڈاکٹر معین الدین سید صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہے اور اس بات کی امید کرتا ہے کہ ان کے نوکِ قلم سے ابھی اور کئی نئی نئی چیزیں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوں گی اور نہ صرف تاریخ و ادب کے طالبعلموں بلکہ نقادوں اور محققین کو اپنی گرفت میں یوں لیں گی جیسے پیاسا پانی کو لیتا ہے۔ —–
: |