کچھ سال قبل تک ہندوستان میں اگر کوئی اپنے وزیر اعلیٰ یا
وزیر اعظم کی کارکردگیوں اورترقیاتی منصوبوں کو سراہا تھاتو اس میں روٹی
کپڑا اورمکان کے منصوبے شمار کئے جاتے تھے، بیرونی ممالک سے تجارتی معاہدوں
پر گفتگو کی جاتی تھی یا پھر ملک میں ترقی کیلئے جو منصوبے تیار کئے گئے
تھے اس پر بات کی جاتی تھی ۔مگر اب تو دیش بدل گیا ہے، سوچ بدل گئی ہے، لیڈ
ر بدل گئے ہیں، چائے والا پردھان منتری، تڑی پار وزیر داخلہ اور نجانے جتنے
کرمنل پس منظررکھنے والے لوگ ملک کے قائد بن گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب
لیڈران تقریروں میں ترقیاتی کام گننے کے بجائے ان باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں
جس کا عوام سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا۔ ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت پر
سوال کیا جاتا ہے تو راہل گاندھی کے نانا کا شجرہ بیان ہوتا ہے، ملک میں
بگڑتے ہوئے لاء اینڈ آرڈر کی بات ہوتی ہے تو پڑوسی ملک نیپال اور پاکستان
سے اچھے حالات ہونے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ غرض کہ جو جیتا وہی سکندر اورجو
پوچھا وہی ہے بندر کی طرح ملک میں اندھا دھن قانون چل رہا ہے۔ ملک میں کیا
ہورہا ہےا ورکسطرح چل رہا ہے یہ جاننے کیلئے ہم ٹی وی کے سامنے بیٹھتے ہیں
تو ہمیں یہ شبہ ہوتا ہے کہ ملک میں وزیر داخلہ کی تقریر یا وزیر اعظم کی
تقریرکررہے ہیں یا کوئی جوکر ، پچھلے دنوں وزیر داخلہ امیت شاہ نے بہار،
میں ہونے جارہے الیکشن ریالی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاید حکومت نے
کوروناسے لڑنے میں ناکامی حاصل کی ہو، لیکن اپوزیشن پارٹیاں کیا کررہی ہیں
انکا یہ سوال یقینی طور پر بے وقوفی کی دلیل ہے، کیونکہ حکومت چلانے والے
اپوزیشن جماعتیں نہیں بلکہ بی جے پی ہے اور جو ٹیکس وصول کیا جارہا ہے وہ
پیسہ کانگریس کے کھاتے میں نہیں بلکہ حکومت کے کھاتے میں جارہا ہے تو بھلا
اپوزیشن کیا کریگا۔ اسی طرح سے مدھیہ پردیش کے وزیر اعلٰی شیوراج سنگھ نے
بھی عوام کو چونکا دیا ،انہوں نے پرائمنسٹر مودی جی کی تعریف کرتے ہوئے کہا
کہ مودی جی ایک ایسے لیڈر ہیں جنہوں نے ملک کی عوام کوکورونا سے لڑنے کا
طریقہ سکھایا، مودی جی نے ملک کی عوام کو تالیاں بجانا سکھایا، مودی جی نے
ملک کی عوام کو چراغ جلانا سکھایا، اب تو انہوں نے آتم نربھر بھارت کا
نعرہ دے کر خود مختار بنانے کی کوشش کی ہے۔ اتنے بڑے لیڈرکا ملنا بھارت کی
خوش نصیبی ہے۔ سوچئے کہ ہندوستان میں کیسے کیسے بھگت پیدا ہوگئے رہنے کو
گھر نہیں ہے لیکن سارا جہاں ہماراہے۔
|