بچے کسی پودے کی ٹہنی پرلگے ان پھولوں کی مانند ہو تے ہیں
جوصبح کی ٹھنڈی ہوا کے چلنے سے جھومتے اورخوب مہکتے ہیں۔ان کی یہ مہک سارے
ماحول میں اک دلکشی سی پیدا کردیتی ہے ۔یہ پھول بہت ہی نازک ہوتے ہیں ذرا
سی سختی برداشت نہیں کرتے کہ مرجھا جاتے ہیں یہ سختی چاہے موسم کی ہو یا
معاشرے کی ۔موسم تو خیر قدرت کا معاملہ ہے مگر معاشرے کا وجودتو ہم سب سے
ہے۔ اس لیے ان پھولوں کی حفاظت کی ذمہ داری پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے ۔اس
ہی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے 12جون2002 سے
بچوں سے جبری مشقت کروانے کے خلاف عالمی دن منانے کا آغاز کیا۔2002 سے ہر
سال 12جون کو دنیا بھر میں بچوں کی مشقت کے خلاف دن منایا جاتا ہے۔اس دن کو
منانے کا مقصد دنیا بھر میں بچوں کو محنت و مشقت سے بچانا اور تعلیم کی
جانب راغب کرنا ہے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر سے متعلق قوانین کوسخت کر کے بچوں
سے مشقت کروانے والوں کی حوصلہ شکنی بھی کرناہے۔ہمارے ملک میں بھی ہر
سال12جون کوانسداد چائلڈ لیبر ڈے منایا جاتا ہے اس دن بچوں کی مشقت کے خلاف
سیمینارز ،آگاہی واک اور بڑے بڑے بھاشن ہوتے ہیں جو کہ میرے خیال میں صرف
عالمی اداروں کو دیکھانے کیلئے ہوتا ہے ۔اس سال توکرونا وائرس کی وجہ سے
شاید یہ دکھاوے کے سیمینارز ،آگاہی واک بھی نہ ہوسکے اور صرف چائلڈ لیبر پر
بیان دے کر ہی کام چلایا جائے۔ خیراس طریقہ سے دن منانے ، یعنی
سیمینارز،آگاہی واک یا کمپین چلانے سے چائلڈلیبر جیسی لعنت کبھی ختم یا کم
نہ ہوسکے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر سال یہ دن منانے کے باوجودپاکستان سمیت
دنیا بھر میں مزدور بچوں کی تعداد میں روزبہ روز اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ایک
اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 152ملین کے قریب بچے غربت کی وجہ سے
کاپی ،قلم اور سکول سے دور محنت مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔صرف پاکستان میں دو
کروڑکے قریب بچے تعلیم سے دور اور ایک کروڑ سے زائدبچے چائلڈ لیبر کا شکار
ہیں۔آخراتنی بڑی تعداد میں بچے اپنے بنیادی حق تعلیم سے محروم اور مشقت پر
مجبور کیوں ہیں؟ اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے اور سدباب کیا ہوگا۔چائلڈ
لیبر کے ذمے دار معاشرے کے تین فریق ہیں۔ پہلے نمبر پر مزدوربچوں کے والدین
دوسرے نمبر پر وہ لوگ جو بچوں سے کام لیتے ہیں اور نمبر تین پرحکمران ہیں۔
اگرمزدور بچوں کے والدین سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے بچوں سے محنت مشقت کیوں
کرواتے ہیں تواکثر والدین غربت اور مہنگائی کا رونا روتے نظر آتے ہیں کہ
مالی وسائل کی کمی کے سبب بچوں کومشقت پر لگا دیتے ہیں تاکہ وہ ان کا سہارا
بن سکے۔یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی صاحب حیثیت شخص یقینا اپنے بچوں کی اچھی
تعلیم و تربیت کا بندوبست کرے گا۔وہ کسی صورت اپنے بچوں کو محنت و مشقت کی
چکی میں نہیں ڈالے گا۔آج مہنگائی کے اس دور میں جب ایک فرد کی کمائی سے گھر
چلانا مشکل ہے تواکثر غریب والدین مجبوراََ اپنے بچوں کو محنت مزدوری
پرلگادیتے ہیں جس سے چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوتا ہے۔دوسری جانب بات کی جائے
ان افراد کی جو اپنی صنعتوں،کارخانوں،بھٹوں، کھیتوں،ورکشاپس،ہو ٹلوں اور
گھروں میں بچوں سے کام لیتے ہیں ۔ یہ وہ افراد ہیں جو غریب کی مجبوری سے
صحیح فائدہ اُٹھاتے ہیں۔یہ لوگ بچوں سے پورا کام لیتے ہیں اور تھوڑی اُجرت
دیتے ہیں ،بچوں کواجرت کم دینا پڑتی ہے اس لیے ز یادہ تر بچوں کو کام پر
رکھا جاتا ہے ،یہ لوگ بچوں سے خوب مشقت کرواتے ہیں اوراگربچے سے کوئی چھوٹی
مو ٹی غلطی ہوجائے تو بری طرح تشدد کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں ۔اس طرح کے
کیسیز ہمیں اکثر اپنے اردگرد یا میڈیا پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مزدور تو
جناب مجبور ہوتا ہے یہ بچے مار کھا کر تشدد برداشت کر کے بھی اپنے کام کاج
پر جاتے ہیں۔ چائلڈ لیبر سے مستفید ہونے والوں میں ڈاکٹر ،وکیل ،جج اور
ہمارے بڑے بڑے سیاست دان بھی شامل ہیں۔ جن کے گھروں، کار خانوں، صنعتوں اور
کھیتوں میں یہ ننھے مزدور اپنے خون پسینہ بہا رہے ہیں اور اپنے غریب ہونے
کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اگر اب ہم تیسرے اور آخری فریق حکمرانوں کی بات کریں
تو وہ چائلڈ لیبر میں اضافے کے اصل ذمہ دار ہیں۔افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ
پاکستان میں کسی بھی حکومت نے اس مسئلہ کو سنجیدہ نہیں لیا بلکہ ہر دور میں
بڑھتے ہوئے مہنگائی کے سیلاب اورحکومت وقت کی غریب کُش پالیسیوں نے عام
آدمی کی زندگی مشکل بنائی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں اس وقت غربت کی شرح
چالیس فی صدہے اور موجودہ صورت حال میں اس شرح میں مزید اضافے کی توقع
ہے۔درحقیقت ہماری حکومتوں کی غریب کش معاشی پالیسیوں سے غربت کی شرح بڑھ
رہی ہے اسی وجہ سے چائلڈ لیبر میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔اس ساری صورت حال سے
واضح ہوتا ہے کہ چائلڈلیبر کے اصل ذمہ دار ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمران
ہی ہیں جن کی ناقص پالیسیوں کے سبب چائلڈ لیبر میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ
حکمران اُلٹاہر سال12جون کو انسداد چائلڈ لیبر ڈے مناتے ہیں۔چائلڈ لیبر کے
خلاف قوانین کو مزید سخت کرنے اور ذمہ داروں کو سخت سزاؤں کی یقین دھانی
کرواتے نظر آتے ہیں حالانکہ چائلڈ لیبر کے ذمہ دار یہ حکمران خود ہی
ہیں۔12جون کو حکومت کی جانب سے چائلڈ لیبر کے خلاف میڈیا میں اشتہارات دیے
جاتے ہیں ، سیمینارز اور آگاہی واک کا انعقاد بھی کروایا جاتا ہے لیکن یہ
سب اقدامات حکومت کی چائلڈ لیبر کے خاتمے سے متعلق سنجیدگی کو ظاہر نہیں
کرتے ۔حکومت کو ان حقائق کوتسلیم کرنا پڑے گا کہ چائلڈ لیبر کے ناسور کو
ختم کرنے کیلئے اشتہارات، سیمینارز،چند چھاپے یا ریلیاں تب تک ہر گز کارگر
ثابت نہیں ہو نگی جب تک حکومت مہنگائی اورغربت کی شرح میں کمی کیلئے عملی
اقدامات نہ کرے۔اگر غریب کے معاشی حالات بہتر ہونگے تب ہی وہ اپنے بچوں کو
محنت مزدوری کیلئے ورکشاپ، ہوٹل وغیرہ پر بھیجنے کی بجائے روشن مستقبل
کیلئے سکول بھیجے گااورپھر ہی چائلڈ لیبر جیسی لعنت کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ |