تحریر: منزہ گل، سرگودھا
اسلام کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے مرد اور عورت دونوں کے
دائرہ کار کو بھی متعین کر دیا ہے۔ اس امر میں تو اختلاف کی کوئی ادنیٰ سی
گنجائش بھی نہیں کہ قدرت نے مرد اور عورت کو الگ الگ مقاصد کے لیے پیدا
فرمایاہے، لہٰذا دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں صنفوں کی ذہنی و عملی
صلاحیتوں میں قدرتی فرق کو بھی تسلیم کیا جائے اور اس فرق کی بنیاد پر
دونوں کے دائرہ کار کے اختلاف کو بھی ، اگرچہ دونوں اپنے اپنے دائرے میں
انسانی زندگی کے لیے ناگزیر اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت
رکھتے ہیں۔ عورت مرد سے بے نیاز نہیں رہ سکتی اور مرد عورت کو نظر انداز کر
کے زندگی کی شاہراہ پر ایک قدم نہیں چل سکتا، تاہم دونوں کی ذہنی صلاحیتوں
میں فرق ہے۔ دونوں کا مقصد تخلیق الگ الگ ہے اور دونوں کے دائرہ کار ایک
دوسرے سے جدا گانہ ہیں۔
شریعت اسلامیہ نے ذہنی وعملی فرق وتفاوت اور دائرہ کار کے اختلاف کی وجہ سے
بہت سی چیزوں میں مرد وعورت کے درمیان فرق ملحوظ رکھا ہے، بعض ذمے داریاں
صرف مردوں پر عایدکی ہیں، عورتوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا ہے۔اسی طرح بعض
خصوصیات سے عورتوں کو نوازا ہے، مردوں کو محروم رکھا ہے لیکن ان فطری
صلاحیتوں کے فرق و تفاوت کا مطلب کسی صنف کی برتری اور دوسری صنف کی کمتری
وحقارت نہیں ہے۔
مرد کے اندر اﷲ تعالیٰ نے صلاحیت رکھی ہے کہ وہ عورت کو بارآور کرا سکتا ہے
لیکن خود بارآور نہیں ہو سکتا،اس کے برعکس عورت کے اندر صلاحیت رکھی ہے کہ
وہ بارآور ہو سکتی ہے لیکن بارآور کر نہیں سکتی۔ گویا مرد کے اندر تچلیق و
ایجاد کا جوہر رکھا گیا ہے تو عورت کو اس تخلیق و ایجاد کے ثمرات ونتائج
سنبھالنے کا سلیقہ اور ہنر عطا کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر مرد کو حکمرانی
وجہانبانی کا حوصلہ عنایت کیا گیا ہے تو عورت کو گھر بسانے کی قابلیت بخشی
گئی ہے۔ مرد کے اندر قوت و عزیمت کے اوصاف رکھے گئے ہیں تو عورت کو دل کشی
ودلربائی کا وصف عطا کیاگیا ہے، چنانچہ اس کارخانہ عالم کی زیب وزینت کسی
ایک ہی صنف کے اوصاف نہیں ہے بلکہ دونوں قسم کے اوصاف سے ہے اور دونوں ہی
انسانی معاشرے کے اہم رکن ہیں۔
انسانی معاشرے کا وجود اور بقا ان دونوں میں سے کسی ایک ہی پر منحصر نہیں
ہے کہ ساری اہمیت بس اسی کو دی جائے اور دوسرے کو یکسر نظر انداز کر دیا
جائے بلکہ اس پہلو سے دونوں مساوی حیثیت رکھتے ہیں، البتہ خصوصیات اور
صلاحیتیں دونوں الگ الگ لے کر آئے ہیں، لہٰذا مرد جو کام کر سکتے ہیں،
عورتیں وہ سارے کام نہیں کر سکتیں لیکن ایسے مردانہ کام نہ کر سکنا عورت کی
تحقیر نہیں ہے۔ اسی طرح عورت کے بعد کام مرد نہیں کر سکتے تو اس میں حقارت
کاکوئی پہلو نہیں۔ دونوں اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اعمال کے مکلف ہیں،
اسی لیے اسلام کی منشا یہ ہے کہ دونوں صنفیں اپنے اپنے دائرے میں کام کر کے
منشائے قدرت کی تکمیل کریں اور ایک دوسرے کے کاموں میں دخیل ہو کر فساد
تمدن کا باعث نہ بنیں۔ وہ ایک دوسرے کے معاون ہوں، متحارب نہ ہعں۔حلیف نہ
ہوں۔ جو انسانی معاشرہ اس فطری اصول سے انحراف کرے گا، امن و سکون سے محروم
ہو جائے گا۔
اس لیے اسلام نے انسانی معاشرے کو فساد سے بچانے کے لیے مرد و عورت دونوں
کے دائرہ کار کو انکی فطری صلاحیتوں کے مطابق متعین کر دیا ہے۔ مرد کا
دائرہ کار گھر سے باہر اور عورت کا اصل دائرہ کار چار دیواری ہے اور اسی
بنیاد پر اس نے مرد اور عورت کے درمیان بہت سے امور میں فرق کیا ہے۔جن میں
سے چند ایک آپ کے سامنے پیش کر وں گی۔
معاشی کفالت کا ذمے دار اور خاندان کا سربراہ مرد ہے۔اسلام نے عورت کو
کمانے سے مستثنیٰ رکھا ہے اور نان ونفقہ کی ساری زمہ داری مرد پر ڈالی ہے،
مرد کو عورت کا نگران کہا گیا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے ’’مرد عورتوں پر
قوام(نگران)ہیں، بہ سبب اس کے جو اﷲ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی اور بہ سبب
اس کے جو وہ مرد اپنے مالوں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
اسلام نے عورت کو چونکہ بیرون خانہ ذمے داریوں سے مستثنیٰ رکھا ہے،اس لیے
اس نے عورتوں کے لیے یہ تاکید کی ہے کہ وہ اپنا وقت گھر کے اندر گزاریں۔
ارشاد ربانی ہے ’’ اور تم اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور پہلے زمانہ جاہلیت
کی طرح بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرتی پھرو۔‘‘ البتہ ضرورت کے وقت وہ گھر سے
باہر نکل سکتی ہیں لیکن پردے کی پابندی کے ساتھ جس کا حکم قرآن مجید اور
احادیث مبارکہ میں موجود ہے۔ شریعت کی نگاہ میں عورت کے لیے اپنے گھر
ٹھہرنے کی جتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے
کہ عبادات ہوں یا دیگر فرائض حیات، ان کو عورت پر اجتماعی طور پر فرض نہیں
کیا گیا ہے۔ نماز جو سب سے اہم عبادت ہے۔ مرد پر تو با جماعت فرض ہے لیکن
عورت پر نماز تو ضرور فرض ہے لیکن اس کے لیے جماعت ضروری نہیں ہے۔اگر وہ
مسجد میں آ کر باجماعت نماز پڑھنا چاہتی ہے تو پردے کے ساتھ ادا کر سکتی ہے
لیکن اسے ترغیب یہ دی گئی ہے کہ اس کے لیے زیادہ بہتر گھر کے اندر نماز
پڑھنا ہے، بلکہ گھر کے اندر وہ حصہ زیادہ بہتر ہے جو گھر کا زیادہ سے زیادہ
اندرونی حصہ ہو چنانچہ فرمایا: ’’عورتوں کے لیے بہترین مساجد ان کے گھروں
کے سب سے اندرونی حصے ہیں۔‘‘
وراثت میں بھی مرد و عورت کے درمیان فرق ہے۔ ’’مرد کے لیے دو عورتوں کی مثل
ہے۔‘‘ اور اس کی وجہ بھی وہی مرد اور عورت کے دائرہ کار کا اختلاف ہے اسلام
میں چونکہ نان ہ نفقہ کا ذمی دار مرد کو بنایا گیا ہے،عورت کو نہیں،اس لیے
مرد کی زمہ داریوں کے بوجھ کے حساب سے اسے وراثت میں حصہ بھی دگنا دیا گیا
ہے۔اگر ایسا نہ کیا جاتا تو مرد پر ظلم ہوتا۔
اسلام میں مرد کو حسب ضرورت واقتضا ایک سے زیادہ، یعنی چار تک بیویاں رکھنے
کا حق حاصل ہے اور مغرب زدہ طبقہ اس پر کتنا بھی چیں بہ جبیں ہو لیکن واقع
یہ ہے کہ اسلام نے مرد کو یہ حکیمانہ اجازت دے کر انسانی معاشرے کوبہت سی
خرابیوں سے بچانے کا احتمام کیا ہے جس کا اعتراف اب مغرب کے وہ دانشور بھی
کر رہے ہیں جن کے ہاں قانونی طور پر تو ایک سے زیادہ بیوی نہیں رکھی جا
سکتی لیکن داشتائیں رکھنے اور باہمی رضا مندی سیزنا کاری کی عام اجازت ہے۔
عورت کو یہ اجازت نہیں کہ وہ بیک وقت کئی خاوندوں کی بیوی بن کے رہے اور اس
میں حکمت یہی ہے کہ ایک تو خلقی طور پر عورت مرد کے مقابلے میں کمزور ہے۔وہ
زیادہ مردوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔دوسرا سب سے اہم مسئلہ نسب کی حفاظت کا
ہے۔عورتوں کو بھی مردوں کی طرح زیادہ خاوندوں کی اجازت ہوتی تو ہونے والا
بچہ مجہول النسب رہتا۔ آخر کس کی طرف اسے یقین سے منسوب کیا جاتا؟
حق طلاق بھی وہ حق ہے جو اسلام نے مرد کو دیا ہے،عورت کو نہیں دیا۔ اس کی
وجہ یہ ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں زودرنج،زودمشتعل اور جلد بازی میں
جذباتی فیصلہ کرنے والی ہے۔ عورت کو بھی اختیار دیے جانے کی صورت میں،یہ
اہم رشتہ جو خاندان کے استحکام و بقا اور اس کی حفاظت وصیانت کے لیے بڑا
ضروری ہے،تار عنکبوت سے زیادہ پائیدار ثابت نہ ہوتا۔علمائے نفسیات و
طبیعیات بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔
قدرت کو جس سے جو کام لینا ہے،اسی کے مطابق اس کو مخصوص صلاحیتں بھی عطا کی
ہیں۔ ان فطری صلاحیتوں کا انسانی شرف و کرامت سے کوئی تعلق نہیں ہے،اس
اعتبار سے مرد و عورت دونوں یکساں ہیں۔ صلاحیتوں کے تفاوت کو جھٹلانا بھی
آفتاب نیم روز کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
|