فرخندہ لودھی کا شما ر برصغیر پاک و ہند کے صف اول کے
افسانہ نگاروں، ناول نگاروں میں ہوتا ہے ۔ان کا اصل نام فرخندہ اختر تھا
لیکن پروفیسر صابر لودھی سے شادی کے بعدان کا نام فرخندہ لودھی ہو گیا۔ ان
کا تعلق مشترکہ پنجاب کے مشہور شہر "ہوشیار پور "سے ہے ۔ان کے دادا "پیراں
دتہ" محکمہ پولیس میں انسپکٹر کی حیثیت سے ملازم تھے ۔وہ محدود آمدنی کے
باوجود اپنی خودی ، خودداری اور خاندانی روایات کا تحفظ کرتے رہے۔فرخندہ کے
نانا کا نام پیراں بخش تھا۔ ان کا خاندان ہندوستان کے صوبہ بہار کے مشہور
شہر پٹنہ سے ہجرت کرکے ہوشیار پور آگیا۔ایک روایت کے مطابق وہ فنون لطیفہ ،
علم و ادب سے متعلق کتابوں کی محبت اور خوشحالی اپنے ساتھ لائے تھے ۔پھر
پنجاب ہی کے ہو کر رہ گئے ۔ فرخندہ اور ان کی بہنوں اوربھائیوں نے اپنے
نانا کا اثر قبول کیا ۔قریشی خاندان کے فرد پیراں بخش تعلیم بھی ہوشیار پور
میں حاصل کی اور کتابوں کے مطالعے نے انہیں شعر وشاعری کی طرف راغب کردیا۔
وہ ریاست "پنجہ "میں سررشتہ دار کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ اپنی علم دوستی
اور انسانیت پسندی کے اوصاف کی وجہ سے عوام میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے
تھے۔ان کے گھر ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام" بصیر بیگم" رکھا گیا- بے شک
ان کی تعلیم پرائمری تک تھی لیکن ادب و شاعری کا ذوق انہیں اپنے والد سے
ورثے میں ملا ۔فارسی میں دسترس کے ساتھ ساتھ انہیں مرزا غالب کے بہت سے
اشعار زبانی یاد تھے ۔ان کی شادی فرخندہ کے والد حق نواز سے ہوئی ۔وہ قناعت
پسند،صابروشاکر اور حلیم الطبع خاتون تھیں انہیں پڑھنے کا شوق حد سے زیادہ
تھا۔فرخندہ لکھتی ہیں کہ ہوشیار پور شہر میں کسی دولت مند ہندو عورت نے
خواتین کے لیے ایک لائبریری بنوائی تو میری والدہ یہ خبر سن کر خوشی سے
پھولی پھولی پھرتی تھیں ۔پھر ایک دن شٹل کاک والا برقعہ پہنا اور میری
انگلی پکڑ کر اس لائبریری میں جا پہنچیں۔وہ کافی دیر تک میز پر بیٹھی
مطالعہ کرتی رہیں ۔میں سخت گیر باپ(حق نواز ) اور نہایت نرم مزاج ماں(بصیر
بیگم) کی بیٹی ہوں ۔
فرخندہ لودھی اپنے والد کے بارے میں لکھتی ہیں ابا جی بچوں سے بے تکلف نہیں
ہوتے تھے ان کے دبدے کا یہ عالم تھا کہ گھر میں کوئی ان کی موجودگی میں
اونچی آواز میں با ت نہیں کرسکتا تھا۔ان کے اسی رویے نے ہم بہن بھائیوں میں
خود پسندی اور ضبط اس حد تک پید اکردیا کہ ہم میں اپنے حق کے لئے بولنے کی
بھی ہمت نہ رہی۔فرخندہ کا پیدائشی نام "فرخندہ اختر"تھا۔وہ 21 مارچ 1937ء
کو ہوشیار پور میں پیدا ہوئیں ۔تعلیمی اسناد پر ان کی تاریخ پیدائش 25نومبر
1937ء درج ہے۔فرخندہ بہن بھائیوں میں چھٹے نمبر پر تھیں ۔ان کے ایک بھائی
عبدالعزیز محکمہ پولیس میں کلرک کی حیثیت سے ملازم تھے ان کی پوسٹنگ ساہی
وال (منٹگمری ) ہوگئی۔قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہوشیارپور سے ہجرت
کرکے ساہیوال آبسا ۔
ساہی وال آمد کے بعد والدہ نے انجمن حمایت اسلام سکول کی تیسری جماعت میں
فرخندہ کو داخل کروا دیا۔لیکن اس مدرسے کی اونچی دیواروں نے فرخندہ کے دل
میں شدید گھٹن پیدا کیے رکھی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ پرائمری پاس کرنے کے بعد
فرخندہ نے یہ کہتے ہوئے سکول جانا ترک کردیا کہ مجھے اس سکول میں گھٹن کا
احساس ہوتا ہے ۔گویا افقی اور عمودی میں تصادم پیدا ہوا تو بغاوت کی پہلی
لہراٹھی ۔فرخندہ نے 1951ء میں مڈل درجے کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کی
حیثیت میں اول درجے میں پاس کیا۔بعد ازاں انہیں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول
منٹگمری (ساہی وال) میں داخلہ مل گیا۔فرخندہ کو یہ سکول اس قدر پسند آیا وہ
ایک جگہ لکھتی ہیں وہ سکول میرے تصور میں آج بھی جنت کا نمونہ ہے، میں اپنی
جماعت میں کبھی پچھلی قطاروں میں نہیں بیٹھی ، ہر سوال پر ہاتھ کھڑا کرنا
میرا معمول تھاخواہ اس کا جواب مجھے آتا ہو یا نہ آتا ہو ۔اس طرح استاد پر
رعب جما رہتا تھا ۔اس سکول سے فرخندہ نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں
پاس کیا ۔میٹرک کے بعد فرخندہ سائنس کے مضامین کے ساتھ ایف ایس سی
کرناچاہتی تھیں لیکن خواتین کے کالج میں اس وقت سائنس کے مضامین نہیں
پڑھائے جاتے تھے اس لیے فرخندہ نے اپنے شوق کی تکمیل کے لیے گورنمنٹ کالج
برائے خواتین منٹگمری میں داخلہ لے لیا جو ان کے گھر قریب تھا۔اس کالج میں
انہوں نے اردو ادب کے ساتھ فلسفہ اور حساب کے مضامین منتخب کیے ۔اردو ادب
کی جانب ان کا رجحان فطری تھا ۔ایف اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1955ء میں
انہوں نے بی اے میں اردو اور فلسفہ کے مضامین رکھ لیے۔ یہ وہ دور تھا جب
فرخندہ نے کالج کی غیر نصابی سرگرمیوں میں گہری دلچسپی لینی شروع کردی۔
لٹریری سوسائٹی اور مجلس مباحثہ(ڈبیٹنگ سوسائٹی ) کی بنیاد رکھی اور کئی
انعامات بھی حاصل کئے ۔1957ء میں فرخندہ نے بی اے کا امتحان سیکنڈ ڈویژن
میں پاس کرلیا۔فرخندہ کو بی اے تک پہنچتے پہنچتے دو عظیم صدموں سے گزرنا
پڑا ۔پہلے والد کا انتقال ہوا تو کچھ ہی عرصے بعد ماں بھی اﷲ کو پیاری ہو
گئی ۔
ماں باپ کے انتقال کے بعد اس خاندان کے واحد کفیل ان کے بڑے بھائی (
عبدالعزیزخان) رہ گئے تھے ۔چنانچہ بھائی پر معاشی بوجھ بننے کی بجائے
فرخندہ نے لائبریری سائنس کا ڈپلومہ لے کر لائبریرین(کتابدار) بننے کا
فیصلہ کرلیا ۔بقول صابر لودھی ، اس دور میں لائبریری سائنس میں ڈپلومہ کرنے
والوں کی تعداد بہت کم تھی اور سیٹیں بہت زیادہ ۔ اس لیے رزلٹ آنے سے پہلے
ہی نوکری مل جایا کرتی تھی ۔یہ بات اس لیے درست ثابت ہوئی کہ فرخندہ کے
امتحان کا نتیجہ آنے سے پہلے انہیں 1958ء میں کوئین میری کالج لاہور میں
بطور لائبریرین چودھویں سکیل میں ملازمت مل گئی ۔جس کی بنیادی تنخواہ اس
وقت 170 روپے ماہوارتھی ۔اس ملازمت نے فرخندہ کے مزاج پر خوشگوار اثر ڈالا
،کشادہ طور طریقوں کو قبول کرنے اور قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے کا سلیقہ
سکھایا۔انہوں ملازمت کے ساتھ مزید تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور
1963ء میں پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے ایم اے ارود کا امتحان پاس
کرلیا۔1974ء میں ایم اے لائبریری سائنس کا امتحان بھی پاس کرلیا۔ایم اے
انگلش کی تیاری کرتی رہیں لیکن کامیابی حاصل نہ کرسکیں ۔
بعدازاں فرخندہ نے گورنمنٹ کالج لاہور کو بطور لائبریرین جائن کرلیا۔بطور
لائبریرین فرخندہ کے کام کی تعریف ڈاکٹر سہیل احمد خان ان الفاظ میں کرتے
ہیں ۔"فرخندہ نے گورنمنٹ کالج کی لائبریری کوبہتر بنانے میں یقینا اہم
کردار ادا کیا ۔"صابر لودھی لکھتے ہیں فرخندہ نے ملازمت کے آخری پانچ سال
1993تک گورنمنٹ کالج لاہور کی لائبریری کو سجانے اور سنوارنے میں گزارے
۔اسی نوے ہزار کتابوں کو کھول کھول کر دیکھا ، انہیں صاف کیا ۔پھر صحت مند
اور بیمار کتابوں کو الگ الگ کیا ۔پتہ ہی نہیں چلا پانچ سال کب اور کہاں
گزر گئے۔فرخندہ لودھی60 سال کی عمر پر پہنچنے پر ریٹائر ہوئیں تو اس کالج
کے طلبا اور اساتذہ نے عزت واحترام سے رخصت کیا۔کالج کے مجلہ "راوی" میں
فرخندہ پر ایک خصوصی گوشہ، شمارہ 1998ء میں شائع کیا گیا ۔اس گوشے کا عنوان
"تپش شوق"رکھا ۔فرخندہ کی رنگین تصویر کے نیچے یہ عبارت درج تھی۔"ماں سے
بڑا تخلیق کار کون ہوسکتا ہے ۔فرخندہ لودھی ایک ماں ہیں ۔اس ماں کا دل درد
کی لذت سے مالامال ہے۔ہر اس شے کا درد جو انہیں تخلیق پر اکساتا ہے ۔ وہ
تخلیق کوئی افسانہ بھی ہو سکتا ہے ادارہ بھی اور شخصیت بھی۔اسی اعجاز کے
سبب آپ نے بے پناہ محبتیں سمیٹیں اور کبھی کڑی آزمائشوں سے بھی گزریں
۔گورنمنٹ کالج لاہورکے درودیوار آپ کے مداح ہیں اور کون جانے کب تک رہیں۔"
فرخندہ کی شادی پروفیسر صابر لودھی کے ساتھ 15اگست 1961ء میں نہایت سادگی
سے انجام پائی ۔اس کے ساتھ ہی فرخندہ اختر ، فرخندہ لودھی کہلانے لگیں
۔شادی کے بعد جہاں جہاں بھی فرخندہ نظر آئیں ،پروفیسر صابر لودھی کے ساتھ
ہی نظر آئیں۔یہ دونوں ایک دوسرے کا عکس تھے۔ ممتاز افسانہ نگار غلام
الثقلین نقوی لکھتے ہیں۔ میں نے جب بھی اور جہاں بھی دیکھا میاں بیوی کو
الگ نہیں دیکھا۔ الگ سے مراد یہ ہے کہ محاورے کی چولی ہمیشہ دامن سے پیوستہ
نظرآئی۔ کسی ادبی مجلس میں دکھائی دیئے تو میں نے انہیں یک جان دو قالب ہی
پایا۔ان دونوں نے اولاد کی محرومی کو کبھی آزار جاں نہیں بنایا بلکہ فرخندہ
لودھی کے چھوٹے بھائی اخلاق احمد اور ان کی بیوی نجمہ بیگم کے بطن سے پیدا
ہونے والے بچوں پر مامتا اور شفقت نچھاور کردی۔ان بچوں کے نام سعشہ،سحر،
سریتا اور عادل شہریار ہیں ،ان سب نے دودھ تو اپنی ماں(نجمہ) کا ہی پیا
لیکن پرورش فرخندہ لودھی کی گود میں پائی ۔انکی شخصیت کی پرداخت پروفیسر
صابر لودھی نے کی ۔جب سعشہ،سحراور سریتاکی شادیاں ہوئیں تو وہ اخلاق،نجمہ
اور فرخندہ ،صابرلودھی کی دہلیز سے رخصت ہوئیں۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ
ہو گا کہ فرخندہ لودھی کی سماجی اور معاشرتی زندگی اس پرُسکون ندی کے
مشابہہ ہے جو کناروں کو شکست وریخت کا شکار بنائے بغیر میدانی علاقے میں
توازن و اعتدال سے بہہ رہی ہو۔
کہانی تخلیق کرنے کی صلاحیت فرخندہ لودھی کو اﷲ کی طرف سے ودیعت ہو ئی۔ اس
کے آثاران کے طالب علمی کے ابتدائی دور ہی سے ظاہر ہونا شروع ہو چکے تھے
انہوں نے اپنے بچپن کی یادداشتوں میں لکھا " فی البدیہہ شعر کہنے ،ڈرامے
سوچنے ،گیت لکھنے اور گانے کابے حد شوق تھا ،استانی جی گھر سے تختی لکھ کر
لانے کو کہتیں تو میں ایک دفعہ کا ذکر ہے ...... " سے شروع کرکے کوئی نئی
کہانی لکھ کر لے جایاکرتی تھی ۔یہ کہانی میری نصابی کتب میں شامل نہ ہوتی ۔
فرخندہ جب میٹرک میں پڑھتی تھیں تو انہوں نے ایک افسانہ " شکستہ شاخ "کے
عنوان سے 1953ء میں لکھا۔ بعد ازاں پریم چند،سعادت حسن منٹو،راجندرسنگھ
بیدی اور عصمت چغتائی کے افسانوں کے مطالعے نے افسانہ لکھنے کے شوق کو مزید
جلا بخشی۔ڈاکٹر انوسدید لکھتے ہیں کہ فرخندہ کے زیر مطالعہ جن کتابوں کے
نشانات ملتے ہیں ان میں ممتاز مصنف طالسطائی کی آپ بیتی اور ڈی ایچ لارنس
کی "لیڈی چیئرلیز" ہیں ۔جدید قسم کی دہ کہانی انہیں نسیم حجازی سے کافی
مختلف محسوس ہوئی۔طالسطائی سے پہلے انہوں نے دیوان غالب پڑھا اورنسیم حجازی
کے ناولوں کے ساتھ منٹو ،پریم چند، بیدی اور عصمت چغتائی کو بھی پڑھتی رہیں
۔بہرکیف فرخندہ لودھی کی ادبی زندگی میں 1966ء کا سال بہت اہم ہے اس سال
جنوری کے شمارے میں ڈاکٹر وزیرآغا کا نیا رسالہ "اوراق" منصۂ شہود پر آیا
تو اس میں فرخندہ لودھی کا ایک افسانہ "پاربتی"بھی شامل تھا ۔ اس وقت تک وہ
غیر معروف تھیں لیکن "پاربتی "کی اشاعت نے پوری ادبی دنیا کو ان کی طرف
متوجہ کرا دیا۔ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں، میں نے اوراق میں فرخندہ لودھی
کا جب افسانہ پڑھا تو ایک خط لکھا۔"اوراق کے افسانوی حصے میں اب کے ایک نیا
نام فرخندہ لودھی نظر آیا۔عورت تاباں ہو یا پاربتی وہ عورت بعد میں اور ماں
پہلے ہوتی ہے۔پاربتی میں اس مرکزی خیال کو انہوں نے بڑی چابکدستی سے افسانے
کا روپ دیا ہے۔"
ممتاز افسانہ نگار غلام الثقلین نقوی نے "پاربتی" کو آسمان افسانہ پر ایک
نئے ستارے سے تشبیہ دیتے ہوئے فرخندہ لودھی کو خراج تحسین پیش کیا۔"پاربتی
"کی اشاعت نے فرخندہ لودھی کو جو شہرت عطا کی وہ دیدنی تھی وہ اس ایک
افسانے سے ہی فن کی بلندیوں پر پہنچ گئیں اور اول درجے کے افسانہ نگاروں کی
صف میں نمایاں مقام پر نظر آنے لگیں ۔اُس دور کے بڑے بڑے افسانہ نگار حیرت
زدہ رہ گئے۔فرخندہ لودھی کے افسانوں کی پہلی کتاب "شہر کے لوگ" شائع ہوئی
تو اس کا پیش لفظ ڈاکٹر وزیرآغا نے لکھا ۔اس کتا ب میں 1965ء سے 1968ء تک
کے افسانے تاریخ وار شامل ہیں ۔اب تک فرخندہ لودھی کے افسانوں کے پانچ
مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ان میں "شہرکے لوگ"،"آرسی"،"خوابوں کے کھیت"،"
رومان کی موت"،"جب کٹورا بجا" چھپ چکے ہیں ۔ایک ناول "حسرتِ عرض تمنا" کے
نام سے شائع ہوچکاہے۔فرخندہ لودھی نے بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ "پیارکا
پنچھی"بھی لکھا ۔ اس مجموعے میں شامل کہانیاں بچوں کی نفسیات کو ملحوظ
رکھتے ہوئے تخلیق کی گئیں۔ یہ کہانیاں جن میں پرندوں ،پھولوں کے علاوہ جنوں
،پریوں اور جادو کے کارناموں کا تذکرہ ملتا ہے بچوں کی شخصیت سازی میں اہم
کردار ادا کرتی ہیں۔بلاشبہ فرخندہ لودھی نے بچوں کے لیے تعمیری ادب پیش
کرنے میں اعلی خدمات انجام دیں۔
فرخندہ لودھی کے فن کا ایک اور زاویہ ان کی ترجمہ نگاری ہے ،انہوں نے دنیا
کے بڑے بڑے تخلیق کاروں کے ناول /افسانے اردو میں منتقل کرنے کی بجائے بچوں
کے ادب کو ترجیح دی اور چین،ناروے ،ترکی، انگلستان اور شمالی افریقہ کے
مصنفین کا انتخاب کیا اور ان کی کہانیوں کے متعدد مجموعے اردو میں پیش
کردیئے۔ان میں ایک ناولٹ "Call of the wild " بھی شامل ہے ۔جس کا مصنف جیک
لنڈن ہے ۔فرخندہ نے اس کا ترجمہ "ویرانے کی صدا " کے عنوان سے کیا۔اس پر
نظرثانی ڈاکٹر سہیل احمد خان نے کی تھی۔
اس میں شک نہیں کہ فرخندہ لودھی اردو کی ایک ممتاز افسانہ نگار ہ ہیں تاہم
یہ بات کو نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے اپنی ماں بولی "پنجابی"کو
بھی اپنی تخلیق کاری میں پوری پوری اہمیت دی ۔رحمان مذنب لکھتے ہیں "فرخندہ
لودھی پنجابن ہے ۔اس لیے انہیں پنجابی لکھنے کا حق ہے بلکہ ان پر پنجابی کا
قرض بھی ہے۔ اس قرض کو ادا کرنے کے لیے انہوں نے اردو رسم الخط میں پنجابی
میں کہانیاں لکھنے کا آغاز امروز اخبار لاہور کے ادبی صفحے سے کیا ۔ان کی
یہ کہانیاں اردو مصنفین کے طبقے میں بھی شوق سے پڑھی گئیں اور بہت جلد
انہیں جدید پنجابی افسانہ لکھنے والے ادیبوں میں اعلی مقام مل گیا۔1984ء
میں ان کے پنجابی افسانوں کا پہلا مجموعہ "چنے دے اوہلے" چھپا تو اسے
ایوارڈ دیا گیا۔دوسرا مجموعہ"ہردے وچ تریڑاں " دسمبر 1995ء اور تیسرا
مجموعہ "کیوں" 2006ء میں شائع ہوا۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے اپنی کتاب
"پنجابی ادب دا ارتقاء "1947ء سے 2003 میں فرخندہ لودھی کا تذکرہ صاحب
اسلوب افسانہ نگاروں کے ساتھ کیا۔شاہین ملک نے پنجابی ادب کا جائزہ لیتے
ہوئے لکھا کہ فرخندہ لودھی ایک تسلیم شدہ کہانی کار ہیں۔ "سکھ نہر" اور
"کنہوں آکھاں " ان کی بے حد موثر کہانیا ں ہیں۔فرخندہ لودھی ایک جگہ لکھتی
ہیں کہ میں پنجاب اور پنجابی بولی سے الگ نہیں ہوں ۔میری اردو کہانیوں میں
پنج آب کا نم موجود ہے جبکہ پنجابی میرے قلم کی روشنائی ہے۔2002ء میں انہیں
"ورلڈ پنجابی ادبی کانگریس ایوارڈ " سے نوازا گیا۔1969ء میں انہوں نے ریڈیو
پاکستان کے مشہور پروگرام "پنجابی دربار " کے لیے کہانیاں لکھیں اورخود ہی
سنا کر نشر بھی کیں۔انہوں نے ریڈیو کے دو ڈرامے " دو جی آواز" اور "گمنام
ستارے" لکھے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے فرخندہ لودھی کی اردو اور پنجابی
ادب کے فروغ کے اعتراف میں تمغہ حسن کارکردگی کا اعلان کیا گیا جو اس وقت
کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں وصول کیا۔مختلف ادبی کانفرنسوں
کے سلسلے میں انہوں نے بطور خا ص بھارت کے کئی سفر کیے اور اردو اور پنجابی
ادب کے فروغ میں اپناکردار ادا کیا۔
فرخندہ لودھی کی زندگی کا بڑا حصہ کوئین میری کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور
کی لائبریریوں کو سنوارنے اور سجانے میں ہی گزرا۔اس حوالے سے وہ لکھتی ہیں
کہ میں لائبریری میں بیٹھ کر ایسا محسوس کرتی ہو ں گویا میں کتابوں کی
مجاور ہوں اور الماریاں کتابوں کا قبرستان ہیں ۔ہم لائبریرین نہ سرمایہ دار
ہیں اور نہ مصنف۔ ہم صرف خادم ہیں ۔ لائبریری کے شعبے کو باوقار بنانے میں
فرخندہ کی خدمات سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی ۔فرخندہ لودھی کی الوداعی
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پرنسپل ڈاکٹر خالد آفتاب نے انہیں نشان سپاس پیش
کیااور کہا کہ محترمہ فرخندہ لودھی کے دور میں محدود وسائل کے باوجود
گورنمنٹ کالج لاہور کی لائبریری نے بہت ترقی کی ۔فرخندہ لودھی چیف
لائبریرین کی حیثیت سے 18ویں گریڈ میں ریٹائر ہوئیں۔
بقول صابر لودھی کے فرخندہ لودھی نے گورنمنٹ کالج کے لائبریرین کی حیثیت سے
کیمیائی ادویات اور قرطاسی کیڑوں سے آلودہ ہزاروں کتابوں کا ورق ورق چھانٹا
اور انہیں آراستہ بھی کیا ۔گمان غالب ہے کہ اس کاوش پیہم کی تھکن اور
کیمیائی اجزاء نے نادیدہ طور پر ان کے جسم میں سرایت کی جس کا بھیانک نتیجہ
یہ نکلا کہ 31جنوری 1998ء کو ان پر فالج کا حملہ ہوا۔ان کا دایاں ہاتھ اور
ٹانگ شدت سے متاثر ہوئے۔انکی آواز اور سماعت پر بھی منفی اثرات مرتب
ہوئے۔2005ء میں آنکھوں کے آپریشن کی وجہ سے بینائی بحال ہوگئی اور ادب کا
تخلیقی عمل بھی بحال ہو گیا۔ بعد ازاں فرخندہ لودھی پر 2009ء میں فالج کا
دوسرا حملہ ہوا۔ یکم مئی 2010ء کو فالج کا تیسرا حملہ ہواجوجان لیوا ثابت
ہوا۔ بالاخر5 مئی 2010ء کو شام پانچ بجے فرخندہ لودھی قید حیات سے ہمیشہ کے
لیے نجات پاگئیں ۔
بے شک ہم اﷲ کے لئے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں
|