یوں لگتا ہے وقت تھم گیاہے، رواں دواں زندگی رُک گئی ہے،
کئی دنوں سے بستر پر لیٹے لیٹے سوچ رہا ہوں کہ آزادانہ نقل و حرکت بھی مالک
کی کتنی بڑی نعمت تھی، نا جانے پرانا وقت کب لوٹ آتا ہے، ابھی تو کوئی امید
نظر نہیں آرہی۔ (سترہ جون 2020کو زندگی کی آخری ٹویٹ )
انسانی کردار بعض اوقات ایسے اثرات چھوڑ جاتا جسے دُنیا کی مادیت سے تولا
نہیں جا سکتا، کوئی انسانیت کی بقاء کا سبق دے گیا تو کوئی کھرب پتی ہو کر
رسوا ہو گیا، یہ سب نصیب کے ہیں فیصلے کوئی طارق عزیز ہو گیا تو کوئی
عبدالستار ایدھی۔۔ کل سترہ جون دوہزار بیس کو دوپہر کے وقت موبائل چیک کیا
تو محب وطن طارق عزیز کی وفات کا علم ہوا، علیل تھے، دُعاؤں کے طلب گار
تھے، زندگی کے ایام پورے کرتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ
ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
تقریباً ہر مکتبہء فکر نے ان کے متعلق اچھے الفاظ چھوڑے، مادرِ وطن پر جان
دینے والے درویش صفت انسان تھے، ایک لمبے عرصہ تک الیکٹرانک میڈیا کے
ساہوکار رہے، ان کی پہچان نیلام گھر سے ہوتے ہوئے طارق عزیز شوسے بہت کچھ
سیکھنے کا موقع ملا۔ لفظوں میں بیان کرنا واقعی مشکل ہے، ایک محب وطن
انسان، پاکستان سے حدسے زیادہ پیار کرنے والے انسان تھے، شاید اس لیے کہ
انہوں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان کو معروضِ وجود میں آتے دیکھا تھا، اپنی
کتاب میں لکھتے ہیں جسے میں اپنے انداز میں بیان کر رہا ہوں۔۔ جب پاکستان
بن گیا امن و امان کی فضا قائم ہو رہی تھی تو اس بے یارو مددگار نعشیں
کمیٹی والے دستی ریڑھیوں پر لے جا کر کسی جگہ اختتام پذیر کرتے، میں نے
دیکھا کہ ایک ریڑھی سے ایک ڈیڈ باڈی نیچے گر جاتی ہے تو میں بھاگ کر اسے
کہتا ہوں کہ بھائی یہ دیکھو بندہ نیچے گر گیا اسے اٹھاو، پھر دوسری ریڑھی
پر پڑی نعش کے بازو اکڑے ہوئے باہر نکلے ہوئے تھے، میں نے جوش عقیدت میں
اسے کہا بھائی اس کے بازو تو سیدھے کرو کسی سے ٹکراکر ٹوٹ نہ جائیں۔ طارق
عزیز قومیت کے اعتبار سے پاکستانی تھے،(اپنی عملی زندگی کا آغاز شو بزنس سے
شروع کیا، اس پر ان کے کافی انٹرویوز نیٹ پر موجود ہیں۔ پیشہ اداکار، ٹی وی
میزبان، شاعردور فعالیت 1964–تاحال و جہ شہرت بزم طارق عزیز ٹی وی شوٹیلی
ویژن نیلام گھر ٹی وی سوال جواب کا شو،اعزازات،تمغہ حسن کارکردگی 1992۔۔
طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو جالندھر، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
جالندھر کی آرائیں گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ ان کے والد میاں عبد العزیز
پاکستانی 1947ء میں پاکستان ہجرت کر آئے۔ آپکے والد صاحب پاکستان بننے سے
دس سال پہلے سے اپنے نام کے ساتھ پاکستانی لکھتے تھے۔[1]آپ نے اپنا بچپن
ساہیوال 142/9L میں گزارا۔ طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم ساہیوال سے ہی میں
حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی
کا آغاز کیا۔ جب 1964ء میں پاکستان ٹیلی وژن کا قیام عمل میں آیا تو طارق
عزیز پی ٹی وی کے سب سے پہلے مرد اناؤنسر تھے۔[2] تاہم 1975ء میں شروع کیے
جانے والے ان کے سٹیج شو نیلام گھر نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا
دیا۔[3] یہ پروگرام کئی سال تک جاری رہا اور اسے بعد میں بزمِ طارق عزیز شو
کا نام دے دیا گیا۔طارق عزیز کہتے ہیں ایک دفعہ مجھے خط آیا کہ میں آپ کا
فین ہوں آپ شروع میں دیکھنے والوں کو سلام دیتے ہیں لیکن میں آنکھوں سے
معذور ہوں صرف سن سکتا مجھے سلام کیوں نہیں، جس کے بعد میں نے کہنا شروع
کیاسنتے کانوں کو سلام۔ طارق عزیز حقیقت میں ایک پاکستانی مجسمہ تھے،
حکومتِ پاکستان سے میں کہنا چاہوں کا کہ سکول اور کالج کے نصاب میں ان کی
محبت اور وطن سے عقیدت و محبت میں ایک باب شامل کیا جائے جس سے نئی نسل میں
ملک سے محبت پیدا ہو۔ (جاری ہے)۔۔
|