سورۃ فتح
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ہمارے لیے ہے۔ جب یہ بات بطور عقیدہ
ہمارے ذہن میں آجاتی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے لیے
اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ کسی بھی پیغام کا پہلا حق
یہی ہوتا ہے کہ اسے پڑھا جائے، سمجھا جائے اور پیغام بھیجنے والے کے مقصد
سے آگاہی حاصل کی جائے۔ پیغام کسی دوست کا ہو، دفتری خط ہو، عدالتی سمن ہو،
کاروباری لیٹر ہو حتیٰ کہ کسی دشمن کا پیغام بھی ہو تو منطقی طور پر اسے
وصول کرنے والے کی پہلی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے پڑھے اور سمجھے کہ
پیغام بھیجنے والے نے اسے کیا کہا ہے اور اس سے کس بات کا تقاضا کیا ہے۔
زبان سے آگاہ نہ ہونا ان میں سے کسی پیغام کو سمجھنے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔
اور اگر کسی شخص کو کوئی پیغام ایسی زبان میں ملا ہے جس سے وہ واقف نہیں ہے
لیکن یہ اسے معلوم ہے کہ پیغام اسی کے نام ہے تو وہ زبان سے ناواقفیت کا
بہانہ کر کے اس خط کو ایک طرف نہیں ڈال دے گا بلکہ زبان جاننے والے کو تلاش
کرے گا اور جب تک اسے پیغام کی تفصیل معلوم نہیں ہو جائے گی اس خط کو وہ
ادھر ادھر نہیں ہونے دے گا۔ مگر بدقسمتی سے وہ عذر جو کسی اور پیغام کے لیے
ہم روا نہیں سمجھتے اسے ہم نے قرآن کریم کے لیے عملاً اختیار کر رکھا ہے۔
قرآن کریم کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے،
ہمارے خالق و مالک کا پیغام ہے، رازق و حاکم کا پیغام ہے اور ہمارے نام ہے۔
لیکن اسے سمجھنے کی طرف اس لیے توجہ نہیں دیتے کہ وہ عربی زبان میں ہے اور
ہم عربی زبان سے ناواقف ہیں۔ یہ قرآن کریم کی حق تلفی ہے کیونکہ قرآن
کریم کے ہمارے ذمے جو حقوق ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ہم اسے سمجھیں اور
اللہ تعالیٰ کے پیغام اور منشا سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
آئیے :اب سورۃ فتح کے بارے میں جانتے ہیں ۔ سورۂ فتح مدینۂ منورہ میں
نازل ہوئی ہے۔ اس میں 4رکوع، 29آیتیں ،568 کلمے اور 2559حروف ہیں ۔۔
وجہ تسمیہ :
اس سورتِ مبارکہ کی پہلی آیت میں حضور پر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روشن فتح کی بشارت دی گئی ، اس مناسبت سے
اس سورئہ مبارکہ کانام ’’سورۂ فتح‘‘ ہے ۔
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک سفر کے دوران
میں نے حضور پر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
بارگاہ میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا ،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’آج رات مجھ پر ایک سورت
نازل ہوئی ہے جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ پیاری ہے جن پر سورج طلوع
ہوتا ہے،پھر آپ نے(اس سورت کی) یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا‘‘ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: بیشک ہم
نے تمہارے لیے روشن فتح کافیصلہ فرمادیا۔
( بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل سورۃ الفتح، ۳/۴۰۶، الحدیث: ۵۰۱۲)
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں صلحِ حدیبیہ کا واقعہ بیان
کیاگیاہے اور مسلمانوں کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ یہ صلح مکۂ مکرمہ کی فتح
کا پیش خیمہ ہے اور اب مسلمانوں کو کفار پر مکمل غلبہ حاصل ہونے کا وقت
قریب ہے اور اس سورت میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں :
()…اس سورت کی ابتداء میں فتحِ مکہ کی بشارت دی گئی اور یہ بتایا گیا کہ اس
مہم سے مسلمانوں کوعظیم کامیابی اور جنت حاصل ہو گی اور یہ مہم ان منافقوں
کے لئے اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کی لعنت کا سبب بنی جنہوں نے حضور پُر
نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں یہ بد
گمانی کی کہ وہ مسلمانوں کو موت کے منہ میں لے جارہے ہیں اور اب ان میں سے
کوئی بھی زندہ بچ کر واپس نہیں آئے گا۔
()… حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف
بیان کئے گئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کوحاضر و ناظر ، خوشخبری دینے والااور
ڈر سنانے والا بنا کربھیجا ہے تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ پر اورحضور پُر نور
صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائیں اور نبی
کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم وتوقیر
کریں ۔
()…منافقوں کی صفات بیان کی گئیں اور یہ بتایا گیا کہ جو مسلمان اندھے
،لنگڑے اور بیمار ہیں وہ اپنے اس عذر کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہو سکیں
تو ان پر کوئی حرج نہیں ،وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں
اللہ تعالیٰ انہیں جنت عطا فرما دے گا۔
()…حدیبیہ کے مقام پر بیعت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُمْ کو رضائے الٰہی کی بشارت دی گئی اور مسلمانوں سے بہت سی غنیمتوں
کا وعدہ فرمایا گیا۔
()…حدیبیہ کے مقام پر کفارِ مکہ سے جنگ کی بجائے صلح ہونے میں مسلمانوں پر
جو اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا وہ بیان کیا گیا اور نبی کریم صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خواب کی تصدیق اور اس کی تعبیر
میں تاخیر کی حکمت بیان کی گئی ۔
()…اس سورت کے آخر میں بتایاگیا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہدایت اور دین ِحق کے ساتھ بھیجا گیا ہے
تاکہ اللہ تعالیٰ اسے سب دینوں پر غالب کردے اور نبی کریم صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام آپس
میں نرم دل جبکہ کافروں پر سخت ہیں ،نیز نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں سے
مغفرت اور عظیم ثواب کا وعدہ فرمایا گیا۔
یاد رہے :(رابطہ نمبر:03462914283)
جس طرح قانون سے واقف ہونا ہر شہری کا صرف حق نہیں بلکہ ذمہ داری ہے لیکن
قانون پر بحث کرنا وکلاء کا اور اس کی تشریح کرنا اعلیٰ عدالتوں کے جج
صاحبان کا حق ہے، اسی طرح قرآن کریم کے نفس مفہوم سے واقف ہونا ہر مسلمان
مرد و عورت کی ذمہ داری ہے لیکن اس کی تشریح کرنا اور اس کے بیان کردہ
مسائل پر بحث کرنا ان علمائے کرام کا کام ہے جو اس کی صلاحیت و اہلیت رکھتے
ہیں اور اس کی مسلمہ شرائط پر پورے اترتے ہیں۔فہم قرآن کریم کے ان ضروری
تقاضوں کو ہم ملحوظ رکھیں گے تو قرآن کریم کے ساتھ ہمارا فہم و ادراک کا
تعلق قائم ہوگا اور بہت سی گمراہیوں سے بچے رہیں گے۔
|