| 
		 	جو’’طارق‘‘ سب کو’’عزیز‘‘تھے 
		پاکستانی ٹی وی شوز کے بانی 
		 
		انیسویں صدی کی بات ہے جب بہت کی کم گھروں میں ٹی وی ہواکرتی تھی ہم گاؤں 
		میں رہتے تھے توواحد ہماراگھرتھاجس میں ٹی وی ہواکرتی تھی میرے چاچوں میرے 
		کزن ہم سب ایک ساتھ رہتے تھے ڈرامے دیکھنے کیلئے ساری فیملی اکٹھے بیٹھ کے 
		ڈرامہ دیکھتے مگرجیسے ہی طارق نیلام گھرشروع ہوتاتقریباًآدھامحلہ ہمارے 
		گھرمیں آجاتایہ تھی نیلام گھرکی محبت اورطارق عزیزکے وہ پہلاجملہ آج بھی 
		کانوں میں گونجتاہے’’ابتداء ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جودلوں کے بھیدخوب 
		جانتاہے دیکھتی آنکھوں اورسنتے کانوں کوطارق عزیزکاسلام پہنچے‘‘جیسے ہی ٹی 
		وی بیٹھے لوگ تالیاں بجاتے توٹی وی دیکھنے والے بھی سب لوگ تالیاں بجاتے اس 
		وقت تویہ پاگل پن لگتامگراب سمجھ آتی ہے وہ تالیاں طارق عزیزکیلئے بجاتے 
		تھے کیوں کہ ہربزرگ بچہ مرد عورت طارق عزیز سے محبت کرتاتھا۔طارق عزیز 
		28اپریل 1936کوبھارت کے شہرجالندھ میں پیداہوئے طارق عزیز کے والد 
		عبدالعزیزآرائیں 1947کوپاکستان ہجرت کرکے آئے تھے طارق عزیز نے اپنی 
		ابتدائی تعلیم ساہیوال سے اوراعلیٰ تعلیم اورینٹل کالج لاہور سے حاصل کی 
		مگرتعلیم کے دوران ہم ریڈیوپاکستان سے اپنے کیریئرکاآغاز کیامیٹھی اوردم 
		دارآواز کی بدولت پاکستان ٹیلی ویژن کی 26نومبر1964کولاہورنشریات کا آغاز 
		ہواتوسب نے آپ کہاکہ PTVپاکستان کے سرکاری چینل پرپہلاچہرہ اورپہلی آواز 
		طارق عزیز کی ہوگی آپکوپی ٹی وی کے پہلے اناؤنسرہونے کااعزازحاصل ہوااس کے 
		بعدآپ PTVسے منسلک ہوگئے مگرآپ کاکیریئرآسمان کی بلندیوں کوتب پہنچاجب 
		1975کونیلام گھرشروع ہوجس کے بعداس شو کو طارق عزیزشوکانام دے دیاگیاطارق 
		عزیز کاوہ تالیوں کی گونج میں دوڑتے ہوئے آنااوراپنے مخصوص اندامیں سلام 
		کہنااورلوگوں میں معلومات تقسیم کرنا پھرگلوکارسیاستدان ہرطبقہ کے مہمانوں 
		سے عوام میں خوشیاں بانٹنااگردیکھاجائے توآج کے جتنے بھی شو ہیں سب کہیں نہ 
		کہیں طارق عزیزشوکی کاپی ہیں۔محترم قارائین نیلام گھراتنامقبول ہواکہ اسے 
		دی گینزبک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کیاگیاہے۔ 
		 
		طارق عزیزہمہ جہت شخصیت تھے انہوں نے ریڈیوپاکستان،پاکستان ٹیلی ویژن کے 
		علاوہ فلموں میں بھی اداکاری کی پہلی فلم 1967میں ریلیزہوئی جس کانام 
		تھا’’انسانیت‘‘دیگرمشہورفلموں میں کٹاری،قسم اس وقت 
		کی،ہارگیاانسان،ایماندار،شگناں دی مہندی،حکومت،ہمراز،بازار،کیہڑاعاشق، ماں 
		بنی دلہن، نشانی ،میلہ، خاموش رہو، روٹی پیاملن کی آس، پرائی بیٹی،سوغات 
		،سوداگر، مس ہانگ کانگ ,چراغ کہاں روشنی کہاں ،سالگرہ جوکہ 1969میں ریلیز 
		ہوئی جسے لازوال فلمی نغموں کی وجہ سے آج بھی شہرت حاصل ہے اس فلم میں طارق 
		عزیزنے جج کاکرداراداکیااوریقیناًقارائین کویہ جان کرحیرانی ضرورہوگی کہ 
		ہمارے ملک کے نامورسیاستدان اورسابق صدرآصف علی زرداری نے بھی اس فلم میں 
		چائلڈایکٹر(وحیدمراد)کے بچپن کارول کیاتھا طارق عزیزنے 36فلموں میں اپنی 
		اداکاری کے جوہردکھائے ان کو کامیاب ادکاری پر بہت سے ایوارڈ بھی ملے 
		اورحکومت پاکستان کی طرف سے 1992میں حسن کارکردگی کے تمغے سے بھی 
		نوازاگیا۔طارق عزیزنے 1980دہائی میں کراچی سے دورسالے ’’پندرہویں 
		صدی‘‘اوربچوں کارسالہ بھی شائع کیاجوخاصے مقبول ہوئے۔ 
		 
		طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیااور1997میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب 
		ہوئے اس میں سب سے زیادہ حیرانگی والی بات قارائین کوبتاتاچلوں کہ اس 
		الیکشن میں طارق عزیزنے دوراقتدارکے وزیراعظم عمران خان نیازی کوشکست دی 
		تھی ۔میں نے طارق عزیز پرآرٹیکل لکھنااس لیے بھی ضروری سمجھاکہ وہ ہمارے 
		موسٹ سینئرکالم نگاربھی تھے اوران کے کالم نگاری کامجموعہ’’داستان‘‘کے نام 
		سے شائع ہوچکاہے ۔طارق عزیزکی کوئی اولاد نہ تھی مگروہ وطن پاکستان سے بے 
		پناہ محبت کرتے تھے اسے لیے انہوں نے اپنی وصیت میں لکھ دیاکہ میرے مرنے کے 
		بعدمیرے تمام اثاثے واملاک پاکستان کے نام کرتاہوں پاکستان سے یہ سچی محبت 
		ہی تھی جس کی وجہ سے طارق عزیزکے انتقال کی خبرآتے ہی سوشل میڈیاپرطارق 
		عزیزہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگااورصارفین نے ان کے انتقال پر گہرے دکھ اورصدمے 
		کااظہارکیا۔کراچی میں قیام کے دوران طارق عزیزنے شادی کرلی تھی مگرجتنی 
		معلومات اکٹھی ہوئی ان میں صرف اتناہی پتہ چل سکاکہ ان کی کوئی اولاد نہ 
		تھی اسی وجہ سے انہوں نے 3دسمبرکو@Tariq AzizPTVکے ٹویٹراکاؤنٹ سے ایک پوسٹ 
		کی کہ اﷲ پاک نے مجھے اولاد نہیں دی یہ خداکی قدرت ہے جسے چاہے دے جسے چاہے 
		نہ دے اورجسے چاہے دے کہ واپس لے لے ۔۔۔۔ میں مرنے کے بعداپنی ساری جائیداد 
		دولت پاکستان کے نام کرتاہوں ایک اورٹویٹ میں انہوں نے لکھاکہ میں نے وصیت 
		کی ہے کہ میراسب کچھ میرے مرنے کے بعدپاکستان کاہے۔ طارق عزیز نے انتقال سے 
		ایک دن پہلے ٹویٹ لکھا:یولگتاہے وقت تھم گیاہے رواں دواں زندگی رک گئی ہے 
		کئی دنوں سے بسترپرلیٹے لیٹے سوچ رہاہوں کہ آزادانہ نقل وحرکت بھی مالک کی 
		کتنی بڑی نعمت ہے نجانے پراناوقت کب لوٹ کے آتاہے ابھی توکوئی امیدنظرنہیں 
		آتی۔طارق عزیزکے اظہارپرہرعام وخاص شخص نے کیاوزیراعظم عمران خان،عثمان 
		بزدارشہباز شریف،بلاول بھٹوزرداری،جاویدشیخ،بہروز سبزواری، غلام محی الدین، 
		مستنصرحسین تارڑ،واسیع چوہدری،علی ظفر،صنم بلوچ ،ماوراحسین، ودیگرکروڑوں 
		محبت کرنے والوں نے آپ کوخراج تحسین پیش کیا طارق عزیزکافی عرصہ سے علیل 
		تھے اورآخرکار17جون کو 2020کودنیابھرمیں کروڑوں پرستاروں کوسوگوارچھوڑ 
		کرجوطارق سب کوعزیزتھے وہ خالق حقیقی سے جاملے۔ 
		 
		طارق عزیزکمپیئر،دانشور،اداکار،ہدایتکار،صداکار،ادیب اورشاعربھی تھے جن کی 
		شاعری کامجموعہ ہمزاددادکھ بھی شائع ہوچکاہے یقیناًجوشہرت اوراعزازات آپ کے 
		حصے میں آئے وہ کسی اورکونہیں مل سکتی پاکستان کے ایک اورہیروکاباب 
		بندہوگیااب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہم پاکستان اپنے ہرہیروکوجلدبھلادیتے ہیں 
		کیاطارق عزیزکیساتھ بھی ایسے کریں گے ؟یقیناجوسچاپاکستانی ہوگاوہ تو ایسے 
		نہیں کرے گاکیونکہ طارق عزیزایک سچے محب وطن تھے ان کے نیلام گھرکے آخری 
		نعرے کے ساتھ اجازت چاہوں گا’’پاکستان ۔۔۔۔۔پائندہ باد‘‘۔ 
   |