احمد اسد
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب طالبعلمانہ حیثیت میں حضرت خضر علیہ السلام
کی رفاقت کی درخواست کی تو اس کے جواب میں حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا:
ترجمہ:”کیا آپ کو اتنا کافی نہیں کہ آپ کے ہاتھوں میں تورات موجود ہے ،نیز
آپ کے پاس وحی آتی ہے؟ اے موسیٰ! میرے پاس جو علم ہے اس کا سیکھنا آپ کے
شایان شان نہیں، اور آپ کے پاس جو علم ہے اس پر حاوی ہو جانا میرے بس کی
بات نہیں۔“
حضرت خضر علیہ السلام کے اس حکیمانہ فقرے میں جو کچھ سمجھایا گیا ، اس کی
تشریح کے لئے مندرجہ ذیل نکات ملحوظ رکھے جائیں: حق تعالیٰ کی جانب سے
مخلوق کو دو قسم کے علم عطا کئے گئے ہیں۔ ایک کائنات کے اَسرار و رموز،
اَشیاء کے اوصاف و خواص اور فوائد و نقصانات کاعلم جسے”علم کائنات“ یا”
تکوینی علم“ کہا جاتا ہے،تمام انسانی علوم اور ان کے سینکڑوں شعبے اسی”علم
کائنات“ کی شاخیں ہیں۔ اور دوسرا وہ علم جو خالق کائنات کی ذات و صفات، اُس
کی مرضیات و نامرضیات اور انسان کی سعادت و شقاوت کی نشاندہی کرتا ہے،
اسے”علم الشرائع“ یا ”تشریعی علوم“ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
یہ دونوں علم حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے ہی بندوں کو عطا کئے جاتے ہیں مگر
دونوں کے ذرائع الگ الگ ہیں، قسم اوّل کے لئے احساس، عقل،تجربہ، اور فہم
وفراست عطا کئے گئے ہیں اورجہاں اِنسانی عقل و خرد کی رسائی نہیں ہو سکتی
وہاں وحی اور اِلہام سے اس کی راہنمائی کی جاتی ہے۔اسی علم کا ایک شعبہ
حضرت خضر علیہ السلام کو وہبی طور پر عطا کیا گیا۔ اور خالق کائنات کی ذات
و صفات کی معرفت اور اس کی مرضیات و نامرضیات کی پہچان چونکہ انسانی اِدراک
سے بالا تر تھی، اس لیے اس کا مدار محض عقل و تجربہ پر نہیں رکھا گیا بلکہ
اس کی تعلیم کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کا ایک مستقل سلسلہ جاری کیا
گیا۔ جس کی ابتداء آدم علیہ السلام سے ہوئی اور انتہا حضرت محمد رسول اﷲﷺ
پر ہوئی۔ ان کے سامنے حق تعالیٰ تک پہنچنے کا صاف ستھرا راستہ کھولا گیا،
ان کو اس صراط مستقیم کی دعوت پر مامور کیا گیا، اور ان حضرات کو اولاد آدم
کا مقتدا بنا کر پوری انسانیت کی سعادت و شقاوت کو ان کے قدموں سے وابستہ
کر دیا گیا ،یہی وہ علم تھا جو موسیٰ علیہ السلام کو عطا کیا گیا۔
انبیاءکرام(علیہم السلام) بھی چونکہ انسانی برادری کا ایک معزز ترین گروہ
ہے اور انہیں بھی اس ناسوتی زندگی کی ضروریات بہرحال لاحق ہیں، اس لئے وہ
انسان کی دنیوی حاجات سے بے خبر نہیں، نہ کسب معاش کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں،
نہ اس زندگی سے متعلقہ علوم کی نفی کرتے ہیں۔البتہ زندگی کی حرکت و سکون
اور کسب معاش کے ہر طور و طریق پر وہ اس نقطہ نظر سے بحث کرتے ہیں کہ یہ حق
تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہے یا نہیں، اور یہ مسافر آخرت کے لئے زاد ِراہ ہے
، یا اس کی منزل کو کھوٹا کرتا ہے؟گویا دنیا کے کسی علم و فن اور فلسفہ و
سائنس کو ”موضوع“ بنانا ان کی اَعلیٰ و اَرفع شان سے فروتر چیز ہے۔ یہی
مطلب ہے حضرت خضر علیہ السلام کے اس ارشاد کا کہ’‘’اے موسیٰ! میرے پاس جو
علم ہے اس کا سیکھنا آپ کے شایانِ شان نہیں۔“
انبیاء کرام علیہم السلام پر جو علوم کھولے گئے ہیں وہ صر ف انہیں کے لئے
نہیں ہیں، بلکہ تمام انسانیت ان کی محتاج ہے، اس لئے کہ دنیا کا کوئی بڑے
سے بڑا دانشور، حکیم، سائنس دان اور فلاسفر ان علوم کو انبیاء علیہم السلام
کی وساطت کے بغیر حاصل نہیں کر سکتا۔ عام انسانوں کا کمال یہی ہے کہ وہ ان
علوم نبوت کا کچھ حصہ ان حضرات کے ذریعہ حاصل کر سکیں۔ نہ وہ تمام علوم
نبوت کا احاطہ کر سکتے ہیں، اور نہ انبیاء علیہم السلام سے مستغنی ہو کر
انہیں علوم نبوت کا کوئی شمہ نصیب ہو سکتا ہے، یہی مطلب ہے حضرت خضر علیہ
السلام کے ارشاد کا کہ” اور آپ علیہ السلام کے پاس جو علم ہے اس پر حاوی ہو
جانا میرے بس کی بات نہیں۔“
انبیاء کرام علیہم السلام کے سامنے دنیا بھر کے عقلا و حکما اور افلاطون و
جالینوس، طفلِ مکتب ہیں نہ وہ ان اساتذہ فطرت(علیہم السلام) سے مستغنی ہو
سکتے ہیں نہ ان کے علوم پر حاوی ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
فلسفہ و سائنس کے ماہرین ،علم و دانش اور عقل و فہم کے جس مرتبہ پر فائز
ہیں اس کی وجہ سے کائنات کی بو قلمونیوں سے بہ نسبت دوسروں کے زیادہ واقف
اور فطرت کی نیرنگیوں کے سب سے زیادہ شناسا ہیں، ان سے یہ توقع بے جا نہیں
تھی کہ وہ قدرت خداوندی کے سامنے سب سے زیادہ سرنگوں ہوں گے، رسالت و نبوت
کی ضرورت و اہمیت اور انبیاء کرام علیہم السلام کی قدر و منزلت سب سے زیادہ
انہی پرکھلے گی۔ لیکن بدقسمتی سے سائنس کی قیادت جن ہاتھوں میں آئی وہ
معرفت کے دروازے پر پہنچ کر واپس لوٹ آئے، انہوں نے انبیاء کرام علیہم
السلام کی اِطاعت کو عار سمجھا اور تعلیمات ِنبوت سے اِستغنا کا مظاہرہ کیا،
یوں ارشاد خداوندی:( اور گمراہ کر دیا اُس کو اﷲ تعالیٰ نے باوجود علم کے)
ان پر صادق آیا۔ دور قدیم کے فلاسفہ اور دور جدید کے فلاسفہ میں ایک اور
فرق بھی اہم ہے ۔دور قدیم کے فلاسفہ، انبیا کرام علیہم السلام کی عظمت کے
قائل تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ یہ حضرات تو عوام کی اصلاح کے لئے تشریف
لائے ہیں جب کہ ہم خود اپنے علم وفلسفہ کی وجہ سے تہذیب و تربیت کے اس
مرتبہ پر فائز ہیں جہاں سے نبوت سے استفادہ کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ ونحن
قوم ھذبنا انفسنا۔ادھر دور جدید کے فلاسفہ(سائنس دان) غرور وتکبر میں ان سے
ترقی یافتہ ثابت ہوئے، انہوں نے انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے مشن کو
بنظر حقارت دیکھا، انبیا کرام کے زہد و قناعت اور دنیا سے بے رغبتی، جس کی
دعوت انبیاء کرام کا خاص موضوع ہے اس سے نفرت وبیزاری کا اظہار کیا اور وہ
مخصوص علوم، جو انبیا کرام کوعطا کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں نہ صرف شک و
شبہ بلکہ ضدّ وعناد کا مظاہرہ کیا، نتیجةً وہ نہ صرف نور ایمان سے محروم
رہے بلکہ انسانیت کے اعلیٰ اَخلاق و اقدار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب ان کی
محنت”انسان “ اور ”انسانیت“ کے بجائے مٹی اور مٹی سے نکلنے والی چیزوں پر
صرف ہو رہی ہے، چیزیں بن رہی ہیں اور انسانیت بگڑ رہی ہے۔
سائنس دانوں نے یہ فرض کر لیا کہ مادیت کا یہ عروج، یہ برق اور بھاپ، یہ
سیارے اور طیارے، یہ ایٹم اور قوت، انسانیت کا کمال بس انہی چیزوں کی خیرہ
سامانی ہے، فضاؤں میں اُڑنا، دریاؤں میں تیرنا،چاند پر پہنچنا، سورج کے طول
وعرض کو ناپنا اور زہرہ ومشتری کی خبریں لانا، بس یہی انسانیت کی آخری
معراج ہے اور یہ ترقی چونکہ انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں نہیں ہوئی اس
لئے نہ صرف یہ کہ یہ سائنسی دور، دورِ نبوت سے افضل ہے، بلکہ یہ ترقی یافتہ
لوگ خود تمام انسانوں سے بڑھ کر ہیں، اور اس کا پروپیگنڈا اس شدت سے کیا
گیا کہ آج بہت سے مسلمان بھی موجودہ دور کو”مہذّب دور“ سے تعبیر کرتے ہوئے
نہیں شرماتے۔ اناﷲوانا الیہ راجعون۔
حالانکہ نبوت سے کٹ کر جس ترقی پر آج کی دنیا پھولی نہیں سماتی ،انبیاءکرام
علیہم السلام کی نظر میں اس کی قیمت پر کاہ کے برابر بھی نہیں، آنحضرتﷺ کا
ارشاد ہے: ترجمہ:” اگر اﷲ کے نزدیک پوری دنیا کی قیمت مچھر کے پر کے برابر
بھی ہوتی تو کسی کافر کو اس میں سے پانی کا ایک گھونٹ تک نہ دیتے۔“ (مشکوٰة)
انبیاءکرام علیہم السلام کے سامنے آخرت کی لامحدود زندگی ہے، جہاں کی نعمت
و لذت اور راحت و آرام کا تصور بھی یہاں نہیں کیا جا سکتا۔ظاہر ہے جس کی
آنکھوں کے سامنے آخرت کی بے حدّ و نہایت زندگی اپنی تمام تر جلوہ افروزی و
نعمت سامانی کے ساتھ پھیلی ہوئی ہو ،وہ ہماری مکروہات و حوادث سے بھر پور
زندگی کو کھیل تماشہ سے تعبیر نہ کرے تو اس سے زیادہ صحیح تعبیر اور کیا ہو
سکتی ہے؟ قرآن کریم نے بار بار یہ کہہ کر خوابیدہ انسانیت کو خواب غفلت سے
چونکا دیا ہے: ترجمہ:” اور یہ دنیوی زندگی بجز لہو و لعب کے اور کچھ بھی
نہیں اور اصل زندگی عالمِ آخرت ہے اگر ان کو علم ہوتا تو ایسا نہ کرتے( کہ
فانی میں منہمک ہو کر باقی کو بھلا دیتے اور اس کے لئے سامان نہ کرتے)۔“(العنکبوت۴۶)
چار پانچ سالہ بچہ اگر لکڑی کے چند ٹکڑے ادھر ادھر جمع کر کے اور انہیں کیف
ما اتفق جوڑ کر ”چاند گاڑی“ بنا لے تو یہ کھیل اس کی ذہانت کی دلیل ہے اور
اگر ابا میاں بھی صاحبزادے کی نقالی میں اس طرح کی ”گاڑیاں“ بنانے کو زندگی
کا موضوع بنا لیں تو یہ ذہانت کی نہیں، بلکہ دماغ چل نکلنے کی علامت ہے۔
ٹھیک اسی طرح دنیا کی پوری زندگی اپنی دل فریبیوں اور فتنہ سامانیوں کے
باوجود انبیاء کرام علیہم السلام کی نظر میں ایک کھیل ہے اور جن لوگوں نے
اسی کھیل کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بنالیا ہے، جن کی ساری محنت اسی پر
صرف ہو رہی ہے، اور جو اسی کے لئے چلتے پھرتے اور جیتے مرتے ہیں وہ اگرچہ
بزعم خویش بہت بڑے کارنامے انجام دے رہے ہیں، نئی نئی ایجادیں کر رہے ہیں،
یا بڑی بڑی جمہوریتیں چلا رہے ہیں، مگر انبیا کرام کے نزدیک ان کی انسانیت
قابل ِعلاج ہے۔
الغرض انبیاء کرام علیہم السلام کے دور میں خودان کے ہاتھوں مادی ترقی کے
نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ انکا دور آج کے دور کی بہ نسبت معاذ اﷲ تاریک
اور غیر مہذّب تھا اور انسانیت کے ارتقا کی ابتدائی منزلیں ابھی طے نہیں کی
تھیں بلکہ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کے بلند ترین منصب اور عظیم تر مشن کے
مقابلہ میں مادیت کا یہ سارا کھیل بازیچہ اَطفال کی حیثیت رکھتا ہے۔
مابعد الطبعیات سے اندھی بہری سائنس جس کے نزدیک کسی چیز کو تسلیم کرنے کے
لئے اس کو مشاہدہ کے ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھنا شرط ہے چونکہ اس حقیقت کو
سمجھنے سے عاجز ہے اس لئے وہ ”ایمان بالغیب“ کے تمام سرمایہ نبوت کو ایک
خندہ استہزا کی نذر کر دیتی ہے اور یہاں سے اس کی ملحدانہ روش کا آغاز ہوتا
ہے۔
اگر اصل کائنات اور پھر کائنات سے آگے خالق کائنات کا راز ان پر کھل جائے
تو انہیں معلوم ہو جائے کہ کھربوں ڈالر خرچ کر کے چاند سے چار سیر مٹی لے
آنا ترقی کی علامت نہیں، بلکہ سفاہت و کم عقلی کا نشان ہے۔ دامن نبوت سے کٹ
کر سائنس کی اس”سفیہانہ محنت“ نے انسانیت کو بے قراری و بے چینی اور کرب و
اضطراب کا ”تحفہ“عطا کیا اور اس بے چینی کی وقتی تسکین کے لئے مختلف قسم کی
مصنوعی تفریحات اور منشیات کا نسخہ تجویز کیا، آج کا مفلوج انسان جن
اخلاقی،روحانی، نفسیاتی اور جسمانی امراض کا تختہ مشق بن کر رہ گیا ہے اہل
عقل کو تجزیہ کرنا چاہئے کہ ان میں ”سائنسی ترقی“ کا حصہ کتنا ہے؟ راقم
الحروف کا ایمان ہے کہ جب تک سائنس کی تگ و دو نبوت کے تابع نہیں ہو جاتی،
جب تک سائنس کا رخ دنیا سے آخرت کی طرف نہیں مڑ جاتا اور جب تک سائنس دان
انبیاء کرام علیہم السلام کے سامنے اپنے علمی عجز کا اعتراف نہیں کرتے تب
تک سائنس بدستور ملحد رہے گی اور اس کا سارا ترقیاتی کارنامہ انسانیت کی
ہلاکت اور بربادی کے کام آئے گا۔ |