لاہور کی مداری سڑک

جیومیٹری، ریاضی کی ایک شاخ ہے۔جیو کے معنی زمین اور میٹری پیمائش۔ سو جیومیٹری زمین کی پیمائش کا عمل ہے۔ زمین پر کسی چیز کے گرد ایک دائرہ کھینچ دیا جائے تو وہ اس لکیر کی لمبائی ا س دائرے کا محیط اور دائرہ اس چیز کا مدار کہلاتا ہے۔ لاہور کی ٹریفک جب حد سے بڑھنے لگی اور لمحوں کے فاصلے گھنٹوں میں طے ہونے لگے ۔ جب شمالی علاقوں مصری شاہ، شاد باغ سے جنوبی علاقوں ٹھوکر نیاز بیگ، ملتان روڈ پہنچنا دوبھر ہو گیا۔ لاہور کے مغرب شاہدرہ سے مشرق میں چونگی امر سدھو، کاہنہ کو جانا جان جوکھوں کا کام لگنے لگا تو حکومت نے فیصلہ کیا کہ لاہور کے گرد ایک دائرے کی شکل میں موٹر وے کی طرز پر ایک مداری سڑک بنائی جائے تاکہ لوگ شہر کے ہر حصے میں لاہور کی بے ہنگم ٹریفک سے بچ کر آسانی سے شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آ جا سکیں۔19991 میں ورلڈ بنک نے جاپانیوں کے اشتراک سے سروے کے بعد صرف ساٹھ(60) کلو میٹر لمبی مداری روڈ کا خاکہ پیش کیا۔1992 میں اس وقت کی حکومت نے دوبارہ سروے کے بعد 117 بلین کی لاگت سے 173کلو میٹر لمبی مداری سڑک کا نیا تخمینہ تیار کیا۔ یہ سڑک زیادہ لمبی اور شہر سے کافی پرے تھی اس لئے اس پر عملدرامد نہ ہو سکا۔

2003 میں پرویز مشرف کی ہدایت پر پنجاب میں پرویز الہی کی حکومت نے اس منصوبے پر دوبارہ کام شروع کیا اور 24 دسمبر 2004 کو پرویز مشرف نے اس کا باقاعدہ افتتاع کیا۔نئے روٹ کو کئی دفعہ فائنل کیا گیا۔ با اثر افراد نے اپنی زمینوں کے پاس سے اسے گزارنے کی سعی کی۔ وام آدمی کی بے خبری سے فائدہ اٹھاتے ہوتے اس کی زمینیں اونے پونے داموں خریدی گئیں اور بالآخر2007 میں نیس پاک نے اس کا روٹ فائنل کیا اور اس کی تعمیر شروع ہو گئی۔شروع میں 117 بلین میں 173 کلو میٹر لمبی بننے والی سڑک اب 1150 بلین میں 85 کلومیٹر تک محدود کر دی گئی۔ اس کی تعمیر انٹر نیشنل معیار کے مطابق ہو رہی ہے۔یہ چھ رویا سڑک ہے تین لین آنے اور تین جانے کے لئے۔ درمیان اور دونوں اطراف میں حفاظتی دیواریں ہیں۔ کل بیس انٹر چینج ہیں۔ پوری دنیا کی طرح کم سے کم حد رفتار 80 کلو میٹر فی گھنٹہ اور زیادہ سے زیادہ 120 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ جب کہ بڑی گاڑیاں سوکلو میٹر کی حد رفتار سے چلیں گی۔

لاہور کے ارد گرد اس مداری سڑک کو آج ہم عرف عام میں لاہور رنگ روڈ کہتے ہیں۔ اس کی مجوزہ لمبائی 85کلو میٹر کا زیادہ تر حصہ ،جو نیازی چوک سے شروع ہو کر رائے ونڈ روڈ تک ہے، تعمیر ہو چکا اور اس پر ٹریفک پوری طرح رواں دواں ہے۔ رائے ونڈ روڈ سے موٹر وے تک کا حصہ ابھی بننا ہے ۔ ہماری حکومتوں کی یہ خامی ہے کہ ہر نیا آنے والا اپنے سے پہلے کے شروع کئے ہوئے کام وقتی طور پر روک دیتا ہے کہ شاید عوام پہلے کی کارکردگی بھول جائیں اور پھرجب دوبارہ کام شروع ہو تو یہ ان کے کھاتے میں شمار ہو۔شاید اسی بعض میں رائے ونڈ روڈ سے آگے کا کام آج کل تعطل کا شکار ہے۔طے شدہ سپیڈ لمٹ اب 120 کی بجائے 100 میں بدل دی گئی ہے۔ اس کا سبب رنگ روڈ پر ہونے وال بہت سے حادثات ہیں۔کم سے کم سپیڈ کا تصور تو ہمارے پولیس والوں کو بھی ابھی پتہ نہیں، لوگوں کو کیا بتائیں گے۔

لاہور رنگ روڈ پر ہونے والے حادثات کی ذمہ دار ی رنگ روڈ پولیس کی شرمناک حد تک کمزور کارکردگی کی وجہ سے ہے۔ لیکن کچھ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ ہماری پولیس نا قابل اصلاع ہے ۔اس محکمے میں ایک لمبی چوڑی تطہیر کی ضرورت ہے۔تازہ واقعہ جس کی بنا پر میں یہ سب لکھ رہا ہوں کچھ یوں ہے کہ مجھے کسی کام سے جلو پارک کے قریب ایک جگہ جانا تھا۔ رائے ونڈ روڈ پر اپنے گھر کے قریبی انٹر چینج سے رنگ روڈ پر عازم سفر ہوا۔ اگلا انٹر چینج خیابان امین کا ہے۔ پہلے خاجی راستہ ہے اور اس کے بعد داخلی راستہ جہاں ٹول ٹیکس دے کر ہم سفر کر سکتے ہیں۔ میری گاڑی سو کلومیٹر سے کچھ کم سپیڈ پر رواں دوان تھی۔ سامنے خیابان امین کا خارجی راستہ تھا۔ چونکہ رنگ روڈ پر گاڑیوں کی سپیڈ بہت تیز ہوتی ہے اس لئے خارجی راستے سے کوئی رنگ روڈ پر آنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔مگر یہ کیا کہ ایک منی ٹرک بڑی تیزی سے مداری روڈ پر مداری کی طرح خارجی راستے سے اوپر آیا اور تیزی سے گھوم کر میرے آگے چلنے لگا۔ جس وقت ڈرائیور نے ٹرک کو تیزی سے گھما کر رنگ روڈ پر ڈالا، میری سپیڈ کافی تھی مگر میں اسے دیکھنے کے بعد گاڑی کو سنبھال چکا تھا۔ یہ سوچ کر کہ اگر میں تھوڑا تیز ہوتا یا فاصلہ کم ہوتا تو میرا اور میری گاڑی کا کیا حشر ہوتا، میں پریشان ہو گیا۔غصہ بھی آ رہا تھا۔ میں نے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا مگر وہ بے حس شخص، ہر بات سے بے نیاز جا رہا تھا۔

میں چاہتا تھا اس کی شکایت کروں۔ مگر کہاں میرے پاس کوئی نمبر نہیں تھا کہ جس پر بات کر سکوں۔سوچتا ہوا میں پانچ چھ کلومیٹر آگے جا چکا تھا کہ جب میری نظر ایک بورڈ پر پڑی کہ شکایت یا مدد کی صورت میں رابطہ کریں۔میں نے گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور اس نمبر پر رابطہ کیا۔ جو صاحب فون پر ملے انہوں نے گاڑی کا نمبر پوچھا، عین اس لمحے گاڑی میرے پاس سے گزر رہی تھی۔ میں نے پڑھ کر اس کا نمبر بتایا۔ پوچھنے لگے کہاں موجود ہیں۔میں نے کہا کہ جگہ تو میں نہیں بتا سکتا، کہنے لگے آپ کے دائیں طرف سڑک کے بیچ میں پول ہے اس کا نمبر بتا دیں. میں نے 1196 نمبر پول کا بتایا، جواب ملا۔ 1100 نمبر پول پر ہماری ٹیم موجود ہے۔ وہ دیکھ لیتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ دیکھوں کیا کرتے ہیں ۔ میں اس منی ٹرک کے بالکل پیچھے آہستہ آہستہ اسی کی رفتار سے چلنے لگا۔1100 نمبر پول پر سڑک کے دوسری طرف ایک گاڑی کھڑی تھی اور باہر دو جوان کیمرے کے ساتھ آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔دونوں نے منی ٹرک کو دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ میں نے پھر فون کیا۔ جواب ملا ، فکر نہ کریں ، ابھی قابو کر لیتے ہیں۔ تھوڑے فاصلے پر دو گاڑیاں سڑک کے کنارے کھڑی تھیں۔ اگلی گاڑی میں کوئی نہیں تھا اور وہ پرائیویٹ گاڑی تھی۔ پچھلی گاڑی میں دو افسران مزے سے سو رہے تھے۔ میرے رکنے کا بھی انہوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور اسی دوران ٹرک آگے نکل گیا۔ میں نے فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ کسی کی گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے اس کی مدد میں مصروف تھے۔ ائیر پورٹ سے کچھ پہلے ایک پل کے نیچے کیمرے سمیت دو بندے موجود تھے۔ ٹرک ان کے پاس سے بھی گزر گیا۔میں نے پھر فون کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ ٹرک لوکیٹ نہیں ہوا۔ میں نے ہنس کر کہا کہ میں ساتھ ساتھ ہوں ۔ فلاں فلاں جگہ آپ کے بندے بیٹھے تھے کسی نے ٹرک کی طرف دیکھا ہی نہیں ۔ میں نے اس کی لوکیشن تین دفعہ آپ کو بتائی ہے۔ پھر کیسے لوکیٹ نہیں ہوا۔ ہنسنے لگا۔ پھر گویا ہوا، آپ فکر نہ کریں دیکھ لیتے ہیں۔ میں سمجھ گیا یہ ٹرک کسی نہ کسی پولیس والے کا ہے۔ اس لئے اس کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے اس کے پر جلتے ہیں۔ میرا یقین اور محکم ہو گیا کہ ہماری پولیس ناقابل اصلاع ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 21 Articles with 24079 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.