یہ کہانی ہے میری، آپ کی ، اور اس دنیا کی
یہ کہانی ہے اس وقت کے ہنسی کی اور اس دور کے دکھ کی
یہ کہانی ہے تڑپتی روحوں کی اور جلتے جسمون کی
یہ کہانی ہے حرام کی عزت اور حلال کی ذلت کی
یہ کہانی ہے بڑوں کے جھکنے کی اور چھوٹوں کے سر چھڑنے کی
یہ کہانی ہے اڑتی نیندون کی اور دوائی سکوں کی
میں نہیں جانتی یہ سب کیسے ہوگیا، شاید ہم نے رفتہ رفتہ سب غلط کردیا
سب نے سنا ہوگا یہ دنیا بڑی ظالم ہیں ، کیا لکھنے والے کا اس میں ہاتھ نہیں
ہوگا ، سب پریشانیوں سے دو چار ہیں ،
کہیں سیاست کی سازشیں تو کہیں رشتیدارون کی رنجشیں
کہیں بھونک کی وجہہ سے نڈہآل جسم مٹی میں مل گیے تو کہیں سفید اور کالے رنگ
میں لوگ جکڑکر رہ گئی ،
انسان کے پاس اگر یہ اختیار ہوتا تو خود کے علاوہ سب کو بدصورت بنا دیتا ،
پر محروم رہ گئے
کہیں تو حرام کے واسطے بھی پیسوں کی ہوا میں مقبول ہوگئے
اور کہیں حلال رشتے بھی نیلام ہوگئے
تو کہیں ان فرقوں میں بٹے لوگون نے مسجدون اور مندروں کو پامال کردیا ،
تو کہیں دوسروں کی شہ رگ پر ہاتھ رکھ کر خود نے سانس لی
دنیا کے نظام کا تو کیا ئی کہنا انسانوں نے انسانوں تک کو نہیں چھوڑآ ،
انسان بھی کتنا خودغرض ہیں ہر دوسرے مخلوق کو خود کے مفاد اور لطف کے لیے
استعمآل کیا پھر بھی ہم انسان کھلاتے ہیں ،
پھر کجھ یوں بھی ہوئآ شفا دینے والے طبیب کو شفا کی ضرورت پڑ گئی
علم دینے والے عالم کا علم لاعلم ہو گیا
رحمت دینے والے اب زحمت کا شکار بن گئے ۔
دور بدل گیا ہے وبا کے آجانے سے خود کو گھروں میں بند کیا ہے
لوگوں سے فاصلے بنا لیے ہیں پر ایک بات تھی پہلے بھی فاصلے ، دوریاں ،
شکایات، ناکامی یہ سب تھا پر اب عزر پکتا ہے ۔
یہ زندگی اس رات کی مانند ہے باہر سے تو جگمگاتی نظر آتی ہے پر اندر سے صرف
تاریک اندھیرا ہوتا ہے ۔
یہ دنیا، زندگی، تم ، ہم ، محض ایک ناکارہ حصہ بن گئے
اب ان پہاڑوں میں ٹھوکروں کے سوا کجھ نہیں بچا
گھروں کے آنگن میں اب کوئی نہیں جھومتا
چھت پر بارش کا مزہ کوئی نہیں لیتا
سمندر کی لہروں میں اداسی کے سوا کجھ نہیں بچا
ان ہواؤں میں صرف ایک گھٹن سی ہے
شاید ہم نے رفتہ رفتہ سب غلط کردیا ۔
شاید سب کجھ ۔
|