میں جب چھوٹا تھا مجھے بڑی عمر کے لوگ fascinate کرتے
تھے۔ایسا شاید اسلیے تھا کہ جیتی حقیقتوں سے گھبرا کر میں نے یہ اختراع
ڈھونڈی تھی۔اس وقت زندگی میں صرف دو حقیقتیں تھیں۔ایک ڈر اور دوسرا بےبسی
پہ رونا۔
اندھیرے کا ڈر،اکیلے ہونے کا ڈر،بےجان کھلونوں کے بچھڑنے کا ڈر۔درخت سے
اٹکی پتنگ کو نہ اتار سکنے کی بےبسی۔ زندگی بس اتنی ہی تو ہوتی بچپن
کی۔لگتا تھا زندگی کی کچھ اور بہاریں دیکھ لوں گا تو طاقتور ہوجاؤں
گا۔زندگی مجھے بہادر بنا دے گی۔مگر بڑے ہوکر دیکھا کہ یہ سب تو سراب
تھا۔زندگی تو اپنے جینے والے کو اپنے آگے سر نگوں رکھتی ہے،ہمیشہ بےبس
رکھتی ہے۔بہادر بنانا تو دور یہ تو زندگی کے ڈر بھی اور بڑھا دیتی ہے۔
پہلے باہر کے اندھیرے سے ڈر لگتا تھا اب اندھیری روح ڈرا دیتی ہے۔
بھری دنیا میں اکیلے ہونے کا خوف آج بھی ڈراتا ہے۔
پہلے بےجان کھلونوں کا بچھڑنا ڈراتا تھا اب جیتے جاگتے لوگوں کا بچھڑنا
ڈراتا ہے۔
بے بسی آج بھی پہلے جیسا رولاتی ہے بلکہ اب تو زخم پکے دے جاتی ہے تاکہ
ثبوت رہے۔
پہلے ہوائی جہاز دیکھ کے چہرے پہ مسکان آتی تھی آج زندگی فضائی بمباری دکھا
کر رولاتی ہے۔
کسی کی جنت، جنت کا رخ کر لے تو اپنی بے بسی رولاتی ہے۔ہم عصروں سے کسی
کھیل میں ہار جانا آج بھی رولاتا ہے۔ مگر فرق اب یہ کہ دل پہ گہری ضرب دے
جاتاہے کیونکہ زندگی نے بڑوں کے لیے کھیل ہی وہ نہیں رکھے جو ماں نے سکھائے
تھے۔پہلے بلی بھوکی رہ جاتی تو رونا آتا تھا اب وہ معصوم چہرے رولاتے ہیں
جنہیں تن ڈھانپنے سے زیادہ پیٹ کے ناسور بھرنے کی امنگ ہے۔
مجھے وہ پھول رولاتے ہیں جو باپ کے لاشے پہ اپنی جواں ماں کی اجڑی مانگ
دیکھ کے سسکتے ہیں۔
رشتوں کی الجھتی ٹوٹتی ڈور اب بھی رولاتی ہے۔
میری آنکھوں کو سیلِ رواں وہ شخص کرجاتا ہے جو چاہنے والے تو شاید لاکھ
رکھتا ہے مگر ایک سمجھنے والے کی آس میں زندگی کاٹ دیتا ہے۔یہی کرب شاید
بڑے ہونے پر زندگی تحفتاً عنایت کرتی ہے۔
زندگی بڑے ہوکر بچپن سے زیادہ رلاتی اور خوفزدہ کردیتی ہے۔اپنی سفاکیت عیاں
کردیتی ہے۔
الغرض مجھے لگتا ہے میں ان سب کی آڑ میں بچپن میں بھی اور آج بھی اپنے دل
کے ٹوٹنے سے ڈرتا ہوں۔
ڈر لگتا ہے تو فقط اس بات سے کہ اگر میری ماں یہ سب پڑھ لے تو وہ آنسوؤں
میں بہہ جائے گی کہ اسکا شیر جوان زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنا سے ڈرتا
ہے۔
|