میں نے اپنی زندگی میں کبھی بد صورتی اس قدر منطم انداز
میں نہیں دیکھی الٹے توے کی سی رنگت اس پر انتہائی درجے پھیلی ہوئی ناک
انتہائی بھدے اور پھیلے ہوئے ہونٹ، اور چار فٹ قد پر انتہائی درجے موٹاپا
اس کے علاوہ کیچڑ اور میل سے بھرا ملگجا لباس جس کی اصل رنگت شاید خوردبین
بھی نہ بتا سکے پہنی ہوئی وہ دس بارہ سال کی لڑکی بیچ سڑک پر انتہائی
جاہلانا انداز میں اپنے باپ کو ذلیل کر رہی تھی بار بار ایک ہی بات کئے جا
رہی تھی “ابا تو اندھا ہو گیا ہے میں بول لی (رہی) ہوں آہستہ کر موٹر
سیکل(سائکل) کو اب دیکھ لے“ میں شروع سے قصہ سناتا ہوں۔
میں صبح کی سیر کے لئے نکلا تھا تیز قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے جب میں سڑک کے
موڑ پہ پہنچا تو مجھے سڑک کے دوسری طرف ایک موٹر سائیکل فٹ پاتھ کے ساتھ
چاروں خانے چت نظر آئی جس کے کیرئر پر تازہ کٹی ہوئی گھاس کا بنڈل بندھا
ہوا تھا ساتھ ہی ایک لگ بھگ پینتالیس سال کا شخص اور ایک دس بارہ سال کی
چھوٹی سی لڑکی اسی وقت روڈ سے اٹھ کر کھڑے ہوئے تھے معلوم یہ ہو رہا تھا کہ
کہ وہ دونوں باپ بیٹی ہیں اور موٹر سائکل کے پھسلنے کی وجہ سے حادثے کا
شکار ہوئے ہیں میں چونکہ سڑک کی دوسری جانب تھا اس وجہ سے میں سن نہیں سکتا
تھا مگر مجھے صرف یہ نطر آ رھا تھا کہ وہ لڑکی کچھ قدم پیچھے گئی اور واپس
مڑ کر اس نے اس شخص پر چلانا شروع کر دیا، صبح کا وقت تھا سڑک پر جو دو چار
لوگ تھے وہ ان کے آس پاس کھڑے ہو گئے تھے میں تیز چلتا ہوا سڑک کے دوسری
طرف آنے لگا تو مجھے آواز سمجھ میں آنے لگ گئی میں ایک دم غصے میں آ گیا کہ
اس لڑکی کو تمیز نہیں اپنے باپ سے کس لہجے میں بات کر رہی ہے ہلکی سی موٹر
سائکل ہی تو پھسلی ہے کوئی خاص زخم بھی نہیں ہے اور یہ ٹسوے بہاتے ہوئے
اپنے باپ کو ڈانٹے جا رہی ہے، اس کے بہتے ہوئے آنسو اس کی بد صورتی کو چار
چاند کا گہن لگا رہے تھے اور اس کا اپنے باپ سے اس بد تمیزی سے گفتگو میرا
خون کھولا رہی تھی میں اب ان کے بالکل نذدیک پہنچ گیا تھا اور کچھ کہنے کے
لئے منہ کھولنے ہی لگا تھا کے اس کے اگلے جملے نےمیرے الفاظ میرے منہ میں
ہی روک لئے وہ چلاتے ہوئے اپنےباپ سے کہ رہی تھی کہ میں تیری بیٹی ہوں اور
کوئی میرے کو ایسے گاڑی سے کچل کر چلا جائے تو ابا تو اپنے پہ رکھ کے سوچ
نہ میں بولے جا رہی ہوں ابا روک پر تو تو سن ہی نہیں رہا، اب یہ سن کہ جب
میں نے حادثے کی جگہ سے تھوڑا پیچھے دیکھا تو مجھے ایک چھوٹے سے بلی کے بچے
کی خون میں لت پت لاش نظر آئی اب مجھے پتہ چلا کے اس کا وہ درد اس کے وہ
جذبات اپنے لئے نہیں تھے وہ پاگل تو اس بلی کے بچے کا سوگ منا رہی تھی جہ
اس کے باپ کی موٹر سائکل کے نیچے آ کر کچلا گیا تھا، میں نے شرمندہ نگاہوں
سے ایک بار پھر اس لڑکی کی طرف دیکھا اور میں حیران رہ گیا وہ بد صورت لڑکی
ان ہی نقوش اور حالات کے ساتھ اس قدر حسین دکھائی دے رہی تھی کہ جیسے کوئی
قصوں کہیانیوں کی اپسرا جس کی آنکھوں سے سچے موتی نکلتے جا رہے ہوں۔
|